قومی یوم تعلیم پر خاص
تحریر: علی شاہد ؔ دلکش
کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج
وطنِ عزیز ہندوستان کی مٹی پر اس کے ہر سپوت کو ناز ہوتا ہی ہے مگر ہندوستان کی مٹی کو یا بھارت ماتا کو اپنے جن سپوتوں پر ناز ہوتا ہے وہ صد احترام اور قابلِ فخر ہوتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزااد بھارت ماتا کی ایسی ہی ایک سنتان ہیں۔ مولانا کی شخصیت ان کی خدمات کے مدنظر سچے سپوت کی حامل ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد 15؍ اگست 1947ء کے بعد سے یکم فروری 1958ء تک آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم رہے۔ بحیثیت ایک ماہر تعلیم اور مجاہدِ آزادی مولانا آزاد نے کسمپرسی میں مبتلا بھارت کی اہم ذمہ داری کو اپنے شانے پہ لیے ایک تعلیم یافتہ ہندوستان کی پیش رفت کی۔ دوسری جانب بشمول ہندوستانی سماج ،مسلم معاشرہ میں بھی تعلیم کے تئیں قابلِ ذکر بیداریاں کرنے میں ان کا اہم رول رہا ہے۔ مولانا آزاد اپنے عہد کے نہایت جینیس شخص تھے۔ اس بات کا اعتراف پوری علمی دنیا کو ہے اور مولانا کی اسی ذہانت ، لیاقت اور مجموعی خدمات کے اعتراف میں ان کی وفات کے بعد انہیں ’بھارت رتن‘ سے نوازا گیا تھا۔ مولانا آزاد کا انتقال 2 فروری 1958 کو ہوا۔ ان کا مزار اردو بازار جامع مسجد دہلی کے احاطہ میں ہے جب کہ ان کی پیدائش 11/ نومبر 1888ء کو مقدس سر زمیں مکہ ، سعودی عرب میں ہوئی۔ لہذا مولانا کی قومی خدمات کے اعتراف میں اور تعلیمی نظام میں قابلِ ذکر حصولیابی کے مدنظر ان کو خراج تحسین دیتے ہوئے ہر سال 11/ نومبر کو 'قومِ یوم تعلیم ' منایا جاتا ہے۔ واضح کر دوں کہ ہم قلمکار کسی کے لیے بھی شاعر مشرق علامہ اقبال کا زیر نظر شعر منسوب کر دیتے ہیں مگر جن شخصیات پر مخصوص شعر صادق آتا ہے ان میں ایک نام مولانا ابوالکلام آزاد ہے۔ وہ شعر یوں ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
مولانا ابوالکلام آزاد ایک حقیقی نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی خدمات کا دائرہ بےحد وسیع ہے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی، جہد مسلسل اور تشکیلِ آئینِ ہند میں ان کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے۔ آزاد ہندوستان کی تعمیر، اصلاح، ترقی اور قومی یکجھتی کے فروغ میں انھوں نے قابلِ ذکر کارہائے نمایاں سرانجام دیا ہے۔ بعد ازاں تعلیمی میدان میں بھی ان کی علمی بصیرت اور دور اندیشی نے وطن کی شان میں چار چاند لگایا۔ جدوجہدِ آزادی سے لے کر قومی و ملی رہنمائی کے ہر شعبے میں انھوں نے اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ علم و ادب کے آسمان پر وہ ایک روشن ستارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے انداز اور اسلوب نے کتنی ہی نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ حالاں کہ انھوں نے باقاعدہ عصری نظامِ تعلیم سے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل نہیں کی تھی تاہم اردو، ہندی، عربی اور فارسی میں انھیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ وہ ریاضی، تاریخِ عالم، فلسفے اور سائنس سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ دین و مذہب کی ایسی تفہیم انھیں حاصل تھی کہ علمائے دین ان سے مذہبی امور میں مشورے لیا کرتے تھے۔ دراصل لوگ ان کی بصیرت، ادراک اور دوراندیشی کے بھی قائل تھے۔ اس پس منظر میں عوام مولانا ابوالکلام آزاد کو پیش نظر شعر کی روشنی میں مانتے بھی تھے اور گردانتے بھی تھے:
مل اہل بصیرت سے کچھ وِے ہی دِکھا دیں گے
لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے
گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے مولانا ابوالکلام آزاد بہت متاثر تھے۔ گاندھی جی کی قیادت پر انہیں پورا اعتماد تھا۔ گاندھی کے افکار و نظریات کی تشہیر کے لیے انہوں نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے ابھرے۔ وہ کانگریس پارٹی کے صدر بھی رہے، تحریک آزادی کے دوران انہیں جیل کی مشقتیں بھی سہنی پڑیں۔ اس موقع پر ان کی شریکِ حیات محترمہ زلیخا بیگم نے ان کا بہت زیادہ ساتھ دیا۔ زلیخا بیگم بھی آزادی کی جنگ میں مولانا آزاد کے شانہ بہ شانہ رہیں۔ اس لیے محترمہ کا شمار بھی آزادی کی جانباز خواتین میں ہوتا ہے۔ گاندھی جی مولانا ابوالکلام آزاد کی بصیرتوں اور خداداد صلاحیتوں کے قائل بھی تھے اور ان کی عقل ِسلیم نیز ادراک و فہم کی طرف مائل بھی۔
راشٹر پِتا گاندھی جی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی بصیرت کے اعتراف میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلیٰ ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہیے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے ‘‘۔(محمد عبدالحمید خان ؍ مضمون ’’ مولانا ابوالکلام آزاد کی ناقابل فراموش خدمات
ملک کے سیاسی تصورات کے باب میں مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی دوراندیشی کے حامل اُن جملوں کو آج بھی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ اس کی معنویت موجودہ زعفرانی تعصب زدہ ماحول میں کئی گنا بڑھ جاتی ہے، جو انہوں نے دلی کی جامع مسجد سے قیامِ پاکستان کے تناظر میں اپنے دردمندانہ خیالات کے اظہار کے لیے کہے تھے۔ اس کو سوفیصد درست ماننے دور صحیح ثابت ہونے سے کوئی فراموش نہیں کر سکتا۔ چنانچہ انہوں نے پورے برصغیر کے مسلمانوں پر مرتب ہونے والے تقسیمِ ہند کے انتہائی تکلیف دہ نقصانات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ تقسیم ہند کی بنیاد ہندو اور مسلمان کی عداوت پر رکھی گئی تھی تو پاکستان کے قیام سے یہ ایک آئینی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کا حل اب اور زیادہ مشکل ہوگیا ہے ۔اس طرح یہ دونوں ملک خوف وہراس کے تحت اپنے اپنے ملک کے فوجی اخراجات بڑھانے پر مجبور رہیں گے اور معاشی ترقی سے محروم ہوتے چلے جائیں گے ۔ یہ جملے ابھی بھی اسی طرح تازہ اور عملی شکل میں پوری طرح ہرے بھرے ہیں جس طرح اس وقت لوگوں کو محسوس ہوئے ہوں گے ۔ہندوستان و پاکستان کے عوام اور خاص طور سے دونوں ملکوں کی سرحدوں پر مقیم لوگ ہی ان جملوں کے مفاہیم و معانی کو آزادی لہجے میں بیان کر سکیں گے۔ اس سلسلے میں ایک شعر یاد آ رہا ہے جو یوں ہے
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
مولانا آزاد نے قومی ترقی میں تعلیم کے کردار کو تقویت عطا کی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے کو فروغ دیا ۔ اگست 1951 میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی آئی آئی ٹی کھڑگ پور کے افتتاح کے موقع پر انھوں نے کہا کہ ’’وزیرِ تعلیم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کیے گئے اوّلین فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ تھا کہ ہم ملک میں اعلیٰ تکنیکی تعلیم کی سہولیات کو اس طرح فروغ دیں کہ ہم اپنی زیادہ تر ضروریات کو خود ہی پورا کر سکیں۔ ہمارے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے غیر ممالک کا سفر کرتی رہی ہے۔ اسے ملک میں ہی اس طرح کی تربیت ملنی چاہیے۔ بلکہ میں یہ خواہش رکھتا ہوں کہ ایک ایسا وقت آئے کہ جب ہندوستان میں تکنیکی تعلیم کی سہولیات اس معیار کی میسر ہوں کہ غیر ممالک کے افراد اعلیٰ سائنسی اور تکنیکی تعلیم کے لیے ہندوستان آئیں۔
قومی یومِ تعلیم کے موقعے سے راقم الحروف نسلِ نو کے اذہان کو باور کرانا چاہے گا کہ مولانا آزاد کے تئیں ہندوستان کی جدید تعلیمی پالیسی کا بنیادی مقصد انسان کو انسان بنانا، کردار سازی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کی تربیت تھا۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم و تدریس سے فرد کی ہمہ جہت نشو و نما ہوتی ہے۔ اس لیے گھر اور مذہب، اسکول اور استاد سمیت ہر موقع اور ہر سطح پر تعلیم کا مقصد کردار کی تعمیر اور اخلاقی اقدار کی تربیت ہونا چاہیے۔ لہذا وطنِ عزیز ہندوستان کی ترقی میں ہاتھ بٹاتے ہوئے ہندوستانی سماج و ماحول میں اساتذہ اپنے طلبا کی اس طرح رہنمائی فرمائیں کہ گھر اور اسکول کے مابین تعاون کے ذریعے غلط چیزوں سے انحراف کرنے اور صحیح چیزوں کو منتخب کرنے کی تفہیم طلبا میں پیدا ہوتی چلی جائے۔ یکجہتی اور دوستی کے توسط سے طلبا اتحاد اور تعاون کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ کیوں کہ عصر حاضر کے موجودہ تعلیمی نظام میں زیر نظر شعر صادق آتا ہے:
گاتا ہے قومی کشتی کا ڈانڈی
مکتب گرم ہے سرد ہے ہانڈی