تشدد اور دہشت گردی کی بیخ کنی میں قومی یکجہتی کا کردار

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-03-2021
قومی یک جہتی وقت کی ضرورت
قومی یک جہتی وقت کی ضرورت

 

 

awazthevoice

اصغرعلی امام مہدی سلفی۔ نئی دہلی 

انسان طبعا وفطرتاً اورنیچرل طورپر متمدن ومتحضرپیدا کیاگیاہے۔ روایتی، تاریخی، اخلاقی، روحانی، معنوی اورظاہری ومادی طورپر بھی وہ عزلت نشینی اورغیریت پسندی کامزاج ومذاق نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کے اندر غیریت اور من وتو کے امتیاز وتمیز اور تخصیص کے باوجود ایک دوسرے کے شریک وسہیم ہونے کا احساس دلاتا اور تعلق جتاتا ہے اوریہ ایک طرح کی اپنائیت اور باہم وجود کا پتہ دیتاہے۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ جوں ہی یہ احساس یا حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی میرے علاوہ بھی ہے توفوراًکسی کے ہونے کا احساس جاگ اٹھتاہے اور تلقائیایہ معلوم ہوجاتاہے کہ فلاں میرا شریک زندگی ہے، میں اکیلا نہیں ہوں، میرے ساتھ میرا کوئی اوربھی ہے۔ میں تنہا نہیں ہوں۔ وہ میرے ساتھ زندگی گذارتاہے، میرا ہم نشیں وہم جلیس ہے، اس کے ساتھ ہماری معاشرت ومعیشت ہے۔

ہماری ذات اورشخصیت سے مختلف اورعلیحدہ ایک یا چند انسانوں کا ہونا بہت زور اورشدت سے ثابت کرتاہے کہ ہم سے مختلف کوئی شخص ہمارے ساتھ ہے، ہمار ا شریک زندگی ہے اور شریک عمل ہے، ساتھی اورپڑوسی ہے، مسافریا مقیم ہے۔ اجنبی یاہم وطن اورمواطن ہے۔ گویا ہماری ذات سے مختلف کسی ذات کے ہونے سے یہ لازم تونہیں آجاتا کہ اس سے میرااختلاف بھی ہے یاوہ میرا مخالف ہے یا دونوں کے درمیان مخالفت اور ٹکراؤ ناگزیر ہے۔بلکہ اس کے برعکس اس اختلاف وتعدداورتنوع سے تکامل، تعارف اورتألف کا ہونا ناگزیر لگتاہے۔ اوریہی کل فلسفہئ حیات وعمران ہے۔

اسی سے کائنات میں کشش اورجمال وکمال ہے اور اسی پر بس کیا؟ جمادات ونباتات وحیوانات اورتمام مخلوقات اورساری کائنات کا حال بھی یہی ہے۔ یہ توچمنستان عالم ہے، یہاں رنگ وبو کی بوقلمونی کاکیا کہنا، رنگ ونسل کی تعددیت اوراس میں کثرت کا کیا شمار وقطار! ایک ادنی کیاری اور اس کی تیاری میں کتنے ہی بیل بوٹے اور کیسے کیسے خشت جمع کرنے اور خاک چھاننے پڑتے ہیں وہ کسی باغ کے مالی سے پوچھو۔ گویاکہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا اب کون عاقل ہے جواختلاف وتنوع کومخالفت، عداوت اور نفرت پرمحمول کرے اوراس کی رنگینی، سحر آفرینی، دلفریبی اورجاذبیت اورکشش سے انکارکردے۔

و ہبنی قلت ہذا الصبح لیل أیعمی العالمون عن الضیاء اسی لئے اللہ جل شانہ نے اس زمینی مخلوق کی خلقت پرملائکہ مقربین کے ایک طرح خدشہ واندیشہ اور دعا بلکہ بعض روایات کی روشنی میں ارضی مخلوق کے سلسلہ میں مبنی برتجربہ موقف کومسترد کردیا اوران امکانات خراب وقتل کے باوجود حضرت انسان کو وجودبخشا اور صاف صاف بیان فرمادیا کہ قَالَ اِنِّی اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَ(البقرہ:۰۳) ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو میں جانتاہوں تم نہیں جانتے۔“ گویا زمین اپنی تمام ترشادابیوں،رنگینیوں، دلفریبیوں، رعنائیوں اورنوع بنوع مخلوقات کے باوجود خلافت ارضی سے خالی وعاری تھی۔ اوران بے شمار مخلوقات اورانواع واقسام کے جمادات، نباتات،حیوانات اورمختلف ماہیت ومزاج کی مخلوقات کے باوجود اس میں کمال تنوع وبوقلمونی ورنگ آفرینی نہ تھی اس لیے اس کے تکامل کے لیے حضرت انسان کا وجود لازمی ولابدی ٹھہرا اوروہ بھی حضرت ابوالبشر آدم علیہ الصلوۃ والتسلیم کے ذریعہ۔

حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت اللہ جل شانہ کے ہاتھوں ہوئی تھی،ان کی پسلی سے ہی ان کی شریک حیات حوا علیہ السلام کو پیدا فرمایا گیا۔یہ اختلاف نہ تھا بلکہ یہ تنوع اور تکامل حکمت ربانی تھی، ورنہ جنت جو قدرت الہی کے عظیم مظاہر میں سے اہم مظہر ہے اور جس میں متنوع ومختلف قسم کی نعمتیں ہیں جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھاہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی فردبشر کے ذہن ودماغ اورقلب میں کھٹکا ہوگا، کا تصور ادھورا محسوس ہوتاہے،جب تک کہ آدم کا وجود ان کی شریک حیات کے ساتھ نہ ہوجاتا۔گویا اختلاف وتنوع، تکامل وتکاتف اور تعاون وتحابب اور تآلف کے لئے ہے۔

اس فلسفہئ انسانیت، وطنیت وقومیت اوراختلاف شعوب وقبائل اور اقوام و اجیال کو یوں بیان کیا گیاہے۔ ٰٓیاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّنِسَآءً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا (النساء:۱)”اے لوگو!اپنے پروردگار سے ڈروجس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اوراسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرداور عورتیں پھیلادیں۔اس سے ڈرو اورجس کے نام پر ایک دوسرے سے مانگتے ہواوررشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے۔“ د

وسری جگہ ارشاد ہے: ”وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآءِلَ لِتَعَارَفُوْا“ (الحجرات:۳۱) ”اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو تمہارے کنبے اور قبیلے بنادیے“۔ یہ آدم خاکی کو پیدا کرنا، پھر ان ہی سے انکی بیوی کو پیدا کرنا پھران دونوں کے ذریعہ بلدان وممالک میں شعوب وقبائل کو بسانا اور پھیلادینا اس حقیقت کا پتہ دیتاہے کہ اللہ جل شانہ حضرت انسان کی ساری سرگرمیوں، اس کی مخلوقات میں اس کے سارے تصرفات خصوصا ان کے ابناء جنس انسانوں کے ساتھ ان کے کردار وبرتاؤ کی اچھی طرح نگہبانی فرمائے اور اس خالق ومالک سے اپنا رشتہ استوار کرکے اس کی ناراضگی اور عذاب سے ڈرجائے اور اللہ کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کرسکے اوراس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔

دراصل انسان کو مواخاۃ اورمساوات ومواسات کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ مدارس اسلامیہ، اہم دینی اسلامی ماحول ومعاشرہ اورخانوادہ اختیارکرنے والے حضرات ان بنیادی تعلیمات کو قرآن وحدیث اورسلف صالح کے فہم وعمل کی روشنی میں عام کرتے ہیں، اسی پر نئی نسل پروان چڑھتی ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی وہدایت قرآنی ہے۔لَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (الممتحنۃ:۸)”جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اورتمہیں جلا وطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اورمنصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالیٰ توانصاف کرنے والوں کودوست رکھتاہے۔“ آیات بالاسے معلوم ہوا کہ ایک کافرو مشرک سے جونہ مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرتاہے نہ ان سے جنگ کرتاہے نہ مسلمانوں کو گھرسے نکالتاہے اس سے ادنی تعرض نہیں کرناچاہئے بلکہ اسلام چند قدم آگے بڑھ کر اس کے ساتھ احسان اور اچھے سلوک کرنے سے نہیں روکتاہے جوانسان اورساری مخلوق کا حق ہے۔

اسلام نے اس سے بھی بڑھ کر اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ دیگرمذاہب کے لوگ اپنی کٹرپنتھی، شدت پسندی اور تعصب ودہشت گردی کے باوجود ایک دوسرے کی بہ نسبت مسلمانوں سے محبت کرنے والے ہوسکتے ہیں اور بفرق مراتب وہ مسلمانوں سے قربت ومحبت کا معاملہ کرنے والے ہیں، کے ذریعہ گویا قرآن کی اس تعلیم قومی وملکی اوروطنی یکجہتی کے علاوہ انسانیت نوازی اور عالمگیر اور ہمہ گیر محبت کے لئے ذہن سازی کی گئی ہے اور مختلف مذاہب وادیان اوربرسرپیکارلوگوں سے بھی یک گونہ اپنائیت اورقربت کی تعلیم دی گئی ہے۔

وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُھْبَانًا وَّاَنَّھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ (المائدہ:۲۸)”اورایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقینا انھیں پائیں جواپنے آپ کونصاری کہتے ہیں اس لئے کہ ان میں دانش مند اور گوشہ نشیں ہیں اوراس وجہ سے کہ وہ تکبر نہیں کرتے۔“ اس تعلیم ربانی وقرآنی میں صاف طورپر تعلیم ہے کہ نصاریٰ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں اور محبت کرنے والے ہیں۔

آج مذاہب کے قائدین اورعلماء سے دیگر مذاہب کے لوگ نفرت دلاتے ہیں۔یہاں تاکید کی گئی ہے کہ چونکہ نصاری میں رہبان و قسیسین توحید سے قریب اور اصل سرچشمہ ربانی خصوصا انجیل کی تعلیمات سے بہرور ہیں لہٰذا وہ مسلمانوں سے دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ محبت کرنے والے ہیں۔ اور یہی حال دیگر ادیان و مذاہب کے صحیح معنوں میں ماننے والوں کا بھی ہے کہ اگر وہ دین کے مخلص ہیں تو انسانیت کے بہی خواہ لامحالہ ہوں گے۔

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہیں ہندوستان ہمارا ایک بچہ کو مدرسے میں یہ تعلیم بچپنے میں دیدی جاتی ہے اور اس تعلیم اور تلقین کے عملی نمونے بھی ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ گویا کہ مدارس میں نونہالان قوم اوربچوں کو قومی یک جہتی،انسانیت نوازی اورتمام مذاہب وادیان اوران کے متعلقین سے تعلق،انسیت وہمدردی اورانسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے اورہم اپنی انہی بنیادوں پر پروان چڑھے ہیں جیسا کہ تجربہ ہے۔

حضرت ورقہ بن نوفل اور سلمان فارسی وغیرہ رضی اللہ عنہم کے واقعات اورقصے جومدرسوں میں پڑھائے جاتے ہیں وہ دیگر مذاہب کی اسلام کے تئیں جذبہ خیر سگالی اورسچائی پرمبنی بہترین تاثرات واقدامات، اہل مدارس اور قرآن وسنت پرمبنی اس نصاب کے پڑھنے والوں کو مذاہب وادیان کے تئیں یہی درس محبت واخوت اور یک جہتی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے نصاب تعلیم وکتاب وسنت اورتاریخ اسلامی میں اس طرح کے بے شمار واقعات بھرے پڑے ہیں۔اس لئے قومی یک جہتی اورانسانیت نوازی کی تعلیم وترغیب اور اس کی صحیح بنیادیں مسلمانوں کے یہاں بدرجہ اتم موجودہیں اور وہ داعش ودہشت گردی وغیرہ کے تعاقب میں قومی یک جہتی اوراسلام کی انسانیت نواز تعلیمات کے ذریعہ بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت ملک وملت کوضرورت ہے قومی یک جہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی۔ ہم اسی کے ذریعہ داعش ودہشت گردی کی بیخ کنی میں کامیاب ہوسکتے ہیں اورملک وملت کوامن شانتی کی سوغات دے سکتے ہیں۔

قومی یکجہتی اور انسانیت نوازی کا جہاں تقاضہ ہے کہ دہشت گردی کاخاتمہ ہو،سب مل کرقومی یکجہتی کا ثبوت دیں اورامن وشانتی کوعام کریں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ بے قصوروں کی دھڑپکڑ اوران کوبے جا اذیت دینے سے اورشک وشبہ کی بنیاد پران کو دہشت گردبنانے سے مکمل اجتناب کیا جائے اور دہشت گردی اورانکاؤنٹر جیسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں اورعدلیہ نے جس طرح سے بہت سارے مقدمات میں دہشت گردی کے نام پر گرفتار کیے گئے مظلوموں اور بے قصوروں