ہندوستانی مسلم خواتین کے مسائل کے حل میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا رول؟

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-11-2021
ہندوستانی مسلم خواتین کے مسائل کے حل میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا رول؟
ہندوستانی مسلم خواتین کے مسائل کے حل میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا رول؟

 


awaz the voice

پروفیسر اخترالواسع، نئی دہلی

 ہندوستان میں سماج کے مسائل کا ایک بڑا حصہ خواتین سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلم سماج کی خواتین یوں ہی کئی میدانوں میں پسماندگی سے دو چار اور الجھنوں کی شکار ہیں۔ پھر جب مسلم سماج کے مجموعی مسائل کا ایک بڑا حصہ خواتین ہی سے متعلق ہے، تو یہ بات دیکھنے کی ہوگی کہ مسلمانوں نے کیا اجتماعی طور پر کسی منصوبہ بندی کے تحت ان مسائل کے حل کے لئے کیا کیا ہے؟ اور اس میں بھی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بالخصوص خواتین کے تعلق سے کیا اقدامات کئے ہیں اور اور کن اقدامات کی ضرورت ابھی درپیش ہے؟

ہمارے بزرگوں نے بڑے خلوص کے ساتھ 1972ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ممبئی میں بنیاد رکھی تھی اور ملک کے مختلف مکاتب فکر اور علاقوں کو نمائندگی دے کر اسے ایک متفقہ ادارہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

یہ بات تو سبھی کہتے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اسلام نے خواتین کو حقوق دیئے ہیں، ان کو عزت اور عظمت کے مقام پر فائز کیا ہے، ان کو بھرپور شخصیت عطا کی ہے اور سماجی زندگی میں انھیں مردوں کے دوش بدوش شریک رکھا ہے، لیکن عملی طور پر ہمارے ملک میں مسلم خواتین کو کیا یہ سب کچھ حاصل ہے؟ اس کو تفصیل سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مسلم خواتین کی نمائندگی نا کے برابر رہی ہے، اور آج بھی یہ نمائندگی اتنی نہیں ہے جتنی ہونی چاہئے۔ جب خواتین کے مسائل کو زیادہ بہتر طور پر خواتین ہی سمجھ سکتی ہیں تو پھر انھیں یہ موقع کیوں نہیں فراہم کیا جانا چاہئے؟ خواتین کے ساتھ بات چیت اور ڈائیلاگ انتہائی ضروری ہے۔ اس کے نہ ہونے سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور مردوں کی بالا دستی کا تصور مضبوط ہونے لگتا ہے۔

بورڈ کے سابق صدر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے اس ضرورت کو محسوس کر کے پہلی مرتبہ مسلم علماء اور مسلم خواتین کے درمیان براہ راست ڈائیلاگ شروع کیا تھا اور وہ پروگرام بہت کامیاب بھی رہا تھا اور نتیجہ خیز بھی۔ ایسے موقع پر جہاں مسلم خواتین کے سامنے بورڈ کے اکابرین اور مرد ممبران کی فکر مندی اور جدوجہد سامنے آتی ہے، وہیں وہ مرد بھی اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ خواتین کے حقیقی مسائل کیا ہیں، انھیں کس قسم کی دشواریوں کا سامنا ہے، ان مسائل کے حل کی کتنی فکر مندی خود خواتین کے اندر پائی جاتی ہے، اور وہ اپنے دین اور اپنی شریعت سے کتنی محبت رکھتی ہیں۔

لیکن افسوس کہ یہ سلسلہ بعد میں جاری نہ رہا، اور مسائل پھر گمبھیر ہوتے گئے۔ اگر ایک خاتون کھڑے ہو کر جمعہ کے خطبہ میں مہر کی مقدار کے شرعی مسئلہ پر حضرت عمر فاروقؓ کو ٹوک سکتی ہے اور عمر فاروقؓ جیسے جلیل القدر صحابی رسول شرعی اور قانونی مسائل میں قانون سازی سے پہلے خواتین سے رائے لے سکتے ہیں تو پھر آج کیوں نہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسے موقر ادارہ کے پلیٹ فارم پر ان کی نمائندگی اور ان سے ڈائیلاگ رکھا جا سکتا ہے؟

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے نکاح کو آسان بنانے کی مہم چلائی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ نکاح کا آسان اور کم خرچ ہونا سماج سے مشکلات کو کم کرے گا، لیکن کیا صرف وعظ ونصیحت مسئلہ کا حل بن سکتی ہے؟ پھر کیا وجہ ہے کہ عمر فاروقؓ جیسے خلیفہ وقت نے مردوں کے غلبہ والی تجارتی مارکٹ کا سپرٹنڈنٹ ایک خاتون کو مقرر کیا تھا۔ کیا اس سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اس منصب پر خاتون کی تقرری جہاں اس کے لئے معاشی خود کفالتی کا سبب تھی، وہیں مارکٹ میں کاروبار کرنے والی دوسری خواتین کے لئے ہمت افزائی کا ماحول فراہم کرتی تھی۔ آج ہمارے سماج میں کتنی خواتین ہیں جو معاشی تنگی سے دو چار ہیں، اور ان کی زندگی شریعت کی آسانیوں سے بھی محروم ہو گئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اس پر توجہ دینی ہوگی۔

اسی سے جڑا ہوا مسئلہ اراضی اور جائیداد میں خواتین کے حصے کا بھی ہے۔ میراث میں خواتین کو حصہ عام طور پر نہیں دیا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں تو زرعی اراضی میں اپنے حصہ سے وہ قانونی طور پر محروم کر دی گئی ہیں۔ اس مسئلہ نے بھی ان کے معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اگر ان جیسے مسائل کو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے مضبوط خواتین ممبران کے ذریعہ حل کرنے کی سمت قدم بڑھائے تو ان کے نتائج یقینا الگ اور ہمت افزا ہوں گے۔

آج خواتین تعلیم کے میدان میں بھی بہت پیچھے ہیں۔ معاشی تنگی سے دو چار مسلم گھرانے تعلیم کے میدان میں مزید پس ماندگی کا شکار ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے خواتین کی تعلیم پر یکساں توجہ دی تھی۔ حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما جیسی خواتین کا تعلیمی معیار مردوں پر فائق تھا، اور انہوں نے خواتین اور مرد دونوں کو تعلیم سے آراستہ کیا۔ جب ماں تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو اس کی گود میں پلنے والی نسل تعلیم میں اور آگے نکلتی ہے۔ آج لڑکوں کی تعلیمی پس ماندگی کی ایک وجہ خواتین کی تعلیم سے محرومی بھی ہے۔ کیا تعلیم کے بغیر سماجی برائیاں ختم ہو سکتی ہیں؟ نکاح وطلاق کی مشکلات جیسی سماجی برائیوں پر لگام لگانے کے لئے خواتین کو تعلیم سے آراستہ کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔

خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مسلم سماج میں تعلیم یافتہ اور سمجھدار خواتین پائی جاتی ہیں۔ بہت سارے مسائل میں وہ ضرور مردوں سے الگ رائے رکھتی ہوں گی، لیکن وہ اسلام اور اس کی شریعت سے اسی طرح والہانہ وابستگی اور قلبی تعلق رکھتی ہیں جس طرح مرد رکھ سکتے ہوں گے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ایسی مسلم خواتین سے رابطہ رکھنا اور استفادہ کرنا چاہئے۔ رایوں کا فرق اور اختلاف تو اسلام کے جمہوری کردار کا اظہار ہے، اور اس کی کتنی ہی عمدہ مثالیں عہد نبوت اور عہد خلفائے راشدین میں دیکھی جا سکتی ہیں، بلکہ یہی اختلاف فکر ونظر مسائل کے بہتر حل میں معاون ومددگار بنتا ہے۔ ایسی خواتین کے ساتھ اگر بورڈ کا مضبوط رابطہ ہوتا ہے تو اس سے جہاں خود ان خواتین کی شرعی تفہیم مضبوط ہوگی، وہیں وہ دوسری مسلم خواتین کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر مذہبی اکائیوں کی خواتین میں بھی اسلام کی بہتر ترجمانی کر سکتی ہیں۔

لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے ذہن کو کشادہ اور فکری اختلاف کو قابل قبول بنائے رکھنے کے لئے آمادہ ہو۔ اپنے کو محدود کرتے جانا اور سماج کے آدھے ضروری حصہ سے دور ہوتے جانا کوئی کمال نہیں ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ سب کو ساتھ لے کر اور ہر اختلاف فکر ونظر سے فائدہ اٹھا کر ملت کی کشتی کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا جائے۔ اب جب کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنے قیام کی نصف صدی پوری کرنے جا رہا ہے، کیا گولڈن جبلی کے اس موقع پر مسلم پرسنل لاء بورڈ خواتین کے حوالہ سے کچھ فراخ دلانہ اور بصیرت مندانہ موقف کے ساتھ سامنے آئے گا؟

نوٹ :مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔