رسول اللہﷺ کا خواتین سے خطاب

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 22-10-2022
 رسول اللہﷺ کا خواتین سے خطاب
رسول اللہﷺ کا خواتین سے خطاب

 

 

awazthevoice

پروفیسر اخترالواسع

        انسانیت کے لئے وہ کتنا مبارک و مسعود لمحہ تھا جب بی بی آمنہ کے بطن سے حضور سرورکائنات، فخر موجودات، رحمت عالم ؐ کی ولادت باسعادت ہوئی، والدہ کی محبت اور مامتا بھرے جذبات کے آغوش میں آپ پروان چڑھے، گاؤں کی کھلی فضاء میں پرورش کے لئے گئے تو دائی حلیمہ کی شفقت اور تربیت آپ پر سایہ فگن رہی، اس طرح بچپن میں ماں کا احترام اور ادب کر کے آپ نے ماں کو مقامِ عظمت عطا کیا جو نسل انسانی کا پہلا آغوش ہے۔

         بے داغ جوانی کے عالم میں آپ نے عرب کی ایک معزز لیکن اپنے سے عمر میں بڑی خاتون سے شادی فرمائی،حضرت خدیجہ آپ کی پہلی زوجہ تھیں، بیوی کے ساتھ جو سلوک، محبت، تعلق اور لگاؤ  رہا، اس کی اونچائی اور گیرائی کا یہ عالم تھا کہ جس برس وہ آپ سے جدا ہوئیں، آپ نے اس برس کا نام ہی عام الحزن (غم کا سال) رکھا، اور پھر زندگی بھر نہ صرف حضرت خدیجہ کو یاد کرتے رہے، بلکہ ان کی سہیلیوں اور بہن کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا مظاہرہ فرماتے رہے، بیوی کے ساتھ تعلق اور محبت کی یہ اعلی مثال قائم کر کے اس کے حقیقی مقام کو آپ نے واشگاف کیا کہ میاں بیوی کی یہ خوشگوار زندگی ہی خاندان کی پہلی اکائی اور نسل انسانی کی اولین و بنیادی تربیت گا ہ ہے۔

        زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ زہراء کے شفیق باپ نے اپنی بیٹیوں کی تربیت اور ان کے ساتھ اعلی درجہ کی محبت وشفقت کے نمونے پیش فرمائے۔ اسلام و کفر کی پہلی جنگ جس میں دین و عقیدہ کی خاطر باپ بیٹے اور بھائی بھائی ایک دوسرے کے بالمقابل برسرپیکار تھے، مشرکین کی جانب سے قید ہو کر آنے والوں میں رسول اللہ کے داماد ابوالعاص بھی تھے، اپنی رہائی کے لئے فدیہ میں اپنی بیوی کا ہار پیش کیا، یہ وہی ہار تھا جو حضرت خدیجہؓ نے اپنی بیٹی زینب کو دیا تھا، بیوی اور بیٹی کی یادگار سامنے تھی، صحابہ سے مشورہ کرکے آپ نے وہ ہار بیٹی کو واپس کرا دیا، پھر زینب کی بیٹی امامہ فتح مکہ کے موقع پر حالت سجدہ میں آپ کی پیٹھ پر چڑھ گئی تو اپنی پیاری نواسی کو گردن سے اتارنے کے بجائے گود میں لئے نماز میں کھڑے ہوگئے، رقیہ اور ام کلثوم کو یکے بعد دیگرے اپنے رفیق حضرت عثمان غنی کی زوجیت میں دیا، اور رقیہ بیمارہوئیں تو حضرت عثمان کو ہدایت فرمائی کہ وہ مدینہ میں ٹھہر کر ان کی تیمار داری کریں۔ فاطمہ زہرا تو آپ کی محبوب ترین بیٹی تھیں۔سب سے چھوٹی اولاد، وہ آتیں تو آپ اٹھ کر انہیں اپنے قریب لاتے، اپنے پاس بٹھاتے، پیار و محبت سے ان کی پیشانی کو چوم لیتے، ان کی شادی اپنے قریبی عزیز اور محبوب چچازاد بھائی حضرت علیؓ سے کرائی، حضرت فاطمہ کو خواتینان جنت کی سردار بتایا، ان کے بچوں حضرات حسنؓ و حسینؓ کے ساتھ بے انتہا شفقت و محبت فرمائی، اور اس طرح دکھایا کہ بیٹیو ں کے شفیق باپ کیسے ہوتے ہیں۔

        سماج میں عورت اور مرد دونوں کا یکساں مقام ہے، لیکن دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ ہیں۔ دونوں اپنی جگہ ادھورے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر مکمل ہوتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے ناگزیر ہیں، لیکن جہاں کئی پہلوؤں سے مرد کی ذمہ داریاں دوچند ہیں، کئی دوسرے پہلوؤں سے عورت کامقام مرد سے بلند بنا دیا گیا ہے۔ یہ دونوں باتیں دونوں کی فطرت سے عین ہم آہنگ ہیں، رسول اللہ ؐ سے کسی نے پوچھا کہ حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ اس کے تین بار سوال پر آپ نے ہر بار جواب میں فرمایا: تمہاری ماں، اور چوتھی بار سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا: تمہارا باپ۔

        عورت کی خصوصی اہمیت اور مرتبے کی وجہ سے رسول اللہؐ نے سماج کو تاکید فرمائی کہ وہ عورتو ں کے ساتھ حسن سلوک کی ان کی وصیت اور نصیحت قبول کرے، خواتین کے ساتھ اچھا رویہ اور بہتر سلوک کو رسول اللہؐ نے انسان کے بہتر ہونے کی پہچان اور معیار قرار دیا، انہوں نے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھے انسان وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہوں، آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں اپنی عورتوں کے حق میں تم میں سب سے اچھا ہوں۔

        عورت ماں کی گود بلکہ رحم مادر کی پہلی منزل سے لے کر بڑھاپے کی آخری منزل تک ہر ہر قدم پر خصوصی اہمیت اور اچھے سلوک کی مستحق ہے، اور اس کو رسول اللہ ؐ نے اچھے اچھے اسلوب، خوب صورت مثالوں اور تاکیدی ہدایتوں کے ذریعہ واضح فرمایا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی بچی سے نجات حاصل کرنے کے طریقو ں کو نہ صرف انسانیت سوز بلکہ اللہ کی نظر سے گرا ہوا قرار دیا، لہذا پیدائش سے پہلے جنس کی تشخیص کر کے بچیوں کا اسقاط گھنائونا جرم اور انسانیت سو ز ذہنیت کا عکاس ہے، حضرت عائشہؓ سے رو ایت ہے کہ ان کے گھر پر ایک بھکاری عورت آئی، اس کے ساتھ دو چھوٹی بچیاں تھیں، گھر میں ایک روٹی تھی، حضرت عائشہؓ نے وہ روٹی لاکر دے دی، عورت نے روٹی لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے، اور ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کو دے دیا، خود کچھ نہ کھایا، حضرت عائشہؓ کے دل پر اس منظر کا بڑا اثر ہوا۔ جب حضور سرورکائناتؐ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے پوری کہانی آپؐ کو سنائی، ایک ماں کس طرح خود بھوکے رہ کر روٹی کے دو ٹکڑے دونوں بچیوں کو کھلا کر دل کی راحت محسوس کرتی ہے، رسول اللہؐ نے اس وقت فرمایا:

’’سنو! عورت کا یہ عمل اللہ کی نظر میں بہت عظیم ہے۔ جس کے گھر میں بھی دو بیٹیاں ہوں، اور وہ ان کی اچھی طرح دیکھ ریکھ کرے تو وہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم کی آگ سے پناہ بن جائیں گی۔ بیٹیوں اور بچیوں کی تربیت رسول اللہ ؐ کی نظر میں بڑا عظیم عمل ہے، بچیو ں کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر جو بشارت رسول اللہؐ نے دی ہے وہ بچوں اور لڑکوں کے بارے میں نہیں دی ہے، آپ نے فرمایا: جس نے دو بچیوں کی پرورش کی اور اس وقت تک ان کی تربیت کی کہ وہ بالغ ہو گئیں، یعنی خود سمجھدار اور ذمہ دار ہوگئیں تو ایسا شخص قیامت کے روز اپنے اس نیک عمل کی وجہ سے مجھ سے اتنا قریب ہوگا جس طرح ہاتھ کی دو انگلیاں آپس میں قریب ہیں۔ ایک بار ایک سفر میں اونٹنیوں پر خواتین سوار تھیں۔ جو صاحب ان کو تیز ہانک رہے تھے، رسول اللہ ؐ نے انہیں ٹوکا اور فرمایا: دیکھو! یہ آبگینوں کی طرح ہیں، ذرا نرم روی سے چلاؤ۔‘‘

         بیوگی کا شکار ہوجانے والی عورتیں سماج میں کیسے گوناگوں مسائل سے دوچار ہوتی ہیں، اور ان کی غربت و مفلسی اور مشکلات بسا اوقات انہیں استحصال کا شکار بنا دیتی ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے ایسی بیوہ خواتین کو خصوصی توجہ کا مستحق بنا کر ان کے لئے جدوجہد کرنے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی تاکید فرمائی۔ ایسی محروم عورتوں کے ساتھ حضور ؐ کی عنایت اور فکر مندی اتنی تھی کہ آپ نے فرمایا: جو لوگ بیوہ عورتوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، ان کی یہ جدوجہد اتنی بڑی ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسا شخص اس آدمی کے برابر ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہو اور کبھی روزہ ختم نہ کرتا ہو، اور جو ہمیشہ نماز پڑھتا ہو او رکبھی نماز سے نہ رکتا ہو۔ گویا بڑی بڑی عبادات جتنا نیک عمل ہیں اتنا ہی نیک عمل یہ ہے کہ انسان بیوہ عورتوں کے دکھ درد کو دورکرے اور ان کے کام آئے۔ عورتوں کی تعلیم کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ ایک مرتبہ کچھ عورتوں نے آکر عرض کیا کہ مرد ہر وقت آپ سے سیکھتے رہتے ہیں، اور ہمیں کم موقع ملتا ہے، آپ ہمارے لئے علاحدہ دن مخصوص فرمادیں، تو آپ نے عورتو ںکی تعلیم کے لئے علاحدہ دن مخصوص کر دیا۔ جو عورتیں آپ سے مسائل پوچھنے آتیں، آپ تہذیب و وقار کے اسلوب میں ان کی رہنمائی فرماتے، اور ان کے مخصوص مسائل حضرت عائشہ و دیگر ازواج کے ذریعہ انہیں مسائل و احکام بتاتے۔ آپ نے علمی شوق رکھنے والی خواتین کی ہمت افزائی فرمائی اور کہا کہ انصار کی عورتوں کو دین کے مسائل سیکھنے میں حیا مانع نہیں ہوتی ہے۔

        عورتوں کی عظمت، ان کے مقام اور ان کے ساتھ شفقت و محبت کے اندازے کے لئے اس سے بلیغ اور کیا جملہ ہوسکتا ہے، آپ نے فرمایا کہ یہ دنیا ایک متاع ہے اور اس کی سب سے بہتر متاع نیک خاتون ہے، گویا دنیا میں نیک خاتون سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں ہے۔

        آئیے! ہم ایک ایسا سماجی ماحول پیدا کریں جس میں تمام خواتین نیکی اور حسن اخلاق سے مزین ہوں، یہی رسول اللہؐ کا ہم سے خطاب ہے۔ اور نیکی عمل سے آتی ہے، کیوں کہ:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے ناری ہے

)مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔(