فرقہ پرستی کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی ضرورت

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-11-2021
فرقہ پرستی کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی ضرورت
فرقہ پرستی کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی ضرورت

 

 

AWAZURDU

پروفیسر اخترالواسع   

مدھیہ پردیش ہو یا اترپردیش، آسام ہو یا پھر تریپورہ، ہر جگہ مٹھی بھر فرقہ پرست سارے ہندوستان کو یرغمال بنانے میں لگے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو بلاوجہ اور بے موقعہ اپنی فسطائی اور فرقہ پرستانہ روش سے تکلیف پہنچانے اور ان کی کردار کشی کا کوئی موقعہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ کھیل کا میدان ہو یا قومی زندگی کا کوئی بھی واقعہ، مسلمان کا نام اور وجود کچھ لوگوں کو برداشت ہی نہیں۔

دبئی میں ہونے کرکٹ میچ میں ہندوستان پاکستان سے شکست کھا گیا، جس پربلاشبہ ہر ہندوستانی کو ملال بھی ہونا چاہیے اور ملول بھی۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کرکٹ کی ٹیم میں کوئی ایک کھلاڑی نہیں ہوتا بلکہ 11کھلاڑی میدان میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔

کھیل میں ہمیشہ کسی کے حصے میں جیت نہیں آتی لیکن جس طرح محمد شمیع کو نفرت انگیز اور حقارت آمیز مہم کا نشانہ بنایا گیا وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جو کچھ عام لوگوں نے کیا وہ تو اپنی جگہ لیکن جس طرح یوپی کی حکومت نے پاکستان کی جیت پر ناراضگی نہ ظاہر کرنے کو وطن سے غداری قرار دیا وہ اور بھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔

خدا بھلا کرے سچن تیندولکر، ویریندر سہواگ اور وراٹ کوہلی کا جنہوں نے اس کی بھرپور مذمت کی اور محمد شمیع کی تائید و حمایت میں آگے آئے۔ اسی طرح سابق آئی پی ایس آفیسر جو سکریٹری سیکورٹی، اسپیشل ڈائرکٹر آئی بی اور سینٹرل انفارمیشن کمشنر رہ چکے ہیں، نے اپنے ایک مضمون میں صاف لکھا ہے کہ پاکستان کی جیت کا سراہنا ملک سے غداری نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس طرح کے قوانین علیحدگی پسندی کو فروغ دے سکتے ہیں اور ہندوستان سے جذباتی ہم آہنگی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

یہ بہت تعجب خیز بات ہے کہ کھیل کے جذبے کو بھی سیاسی مقصد کی برابری کے لئے اس طرح استعمال کیا جائے کہ کھیل، کھیل نہ رہک کر عناد و فساد کا ذریعہ بن جائے۔ کھیل جس وسیع النظری، جس ذہنی کشادگی اور قلبی توسع کا متقاضی ہے اس کا بہترین نمونہ دبئی کے کرکٹ میدان پر وراٹ کوہلی نے شکست کے باوجود پاکستان کے کپتان کو مبارکباد دے کر دکھایا۔

اسی طرح ابھی تک بعض سیاست دانوں جیسے شری اکھلیش یادو کو نہ جانے یہ کیوں غلط فہمی ہے کہ ایک سانس میں وہ گاندھی، پٹیل اور نہرو کے ساتھ جب تک جناح کا نام نہ لیں گے اس وقت تک شاید مسلمانوں میں ان کی مقبولیت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمان جنہوں نے 1947 اور اس کے بعد بھی ہندوستان میں رہنا قبول کیا وہ وہی ہیں جنہوں نے جناح کے دو قومی نظریے کو مسترد کرکے مولانا ابواکلام آزاد اور شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے متحدہ قومیت کے نظریے کو تسلیم کیا تھا۔

آج برصغیر میں مسلمان جس آزمائش سے دو چار ہیں اس کے لئے محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ اور مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم ہی پوری طرح ذمہ دار ہے۔ ہم یہ بات واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ محمد علی جناح سے ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔ ہمارے بزرگوں نے پہلے ہی دو قومی نظریے کو خارج کرکے ہندوستان کو اپنا ملک چن لیا تھا۔

آسام کے بعد جس طرح تریپورہ میں بربریت،بہیمیت اور فرقہ وارانہ فسطائی سوچ کا ننگا ناچ دیکھنے کو ملا وہ ہمارے لئے تکلیف دہ اور ملک کے لئے شرمندگی کا باعث ہے۔ سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ تریپورہ کی سرکار اور نظم و ضبط کی قیام کی ذمہ دار ایجنسیوں نے کھلے عام یہ ننگا ناچ ہونے دیا جس میں دوکانوں، مکانوں، مسجدوں کو نقصان پہنچایا ہی گیا، ساتھ میں رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توہین کی گئی اور ایسے نعرے لگائے گئے جو اہانت رسولؐ کا ارتکاب کرنے والے تھے۔

افسوس یہ ہے کہ تریپورہ پولیس کے ڈی جی پی نے مسجدوں پر حملے کی خبر کو فیک نیوز قرار دیا۔ انہوں نے اس کے بجائے کہ خاطیوں کو گرفتار کرتے۔ فرقہ پرستوں پر شکنجہ کستے۔ غریب، کمزور مسلمانوں کی مدد کرتے۔

دستورِ ہند کی آئی پی سی کی دفعہ 295 اور-A 295 کے تحت مذہبی عبادت گاہوں اور مذہبی صحیفوں کو اپنے فرقے وارانہ جنون کا نشانہ بنانے والوں کو گرفتار کرتے۔ الٹا اس طرح کا بیان دے کر یہ ثابت کر دیا کہ وہ کس ذہنیت کے مالک ہیں اور کس طرح اپنی نااہلی پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ 

تریپورہ کے حادثات کے بعد ملک بھر میں جس طرح کے جذبات اور احساسات ابھر کر سامنے آئے ہیں وہ تو اپنی جگہ لیکن یہ بڑی حد تک اطمینان کی بات ہے کہ تریپورہ ہائی کورٹ نے ان واقعات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے از خود نوٹس لیا اور سرکار کو مناسب اور ضروری قدم اٹھانے کی ہدایت کی۔

ان واقعات کے پیش آتے ہی جمیعۃ علماء ہند اور جماعت اسلامی کے ایک مشترکہ وفد نے وہاں کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی لیکن جو اس ملاقات کا اثر ہونا چاہیے تھا وہ دیکھنے کو نہیں ملا۔

اسی لیے مولانا سید محمود اسعد مدنی، صدر، جمیعۃ علماء ہند کی ہدایت پر ناظم عمومی مولانا حکیم الدین قاسمی کی قیادت میں ایک وفد نے تمام متاثرہ علاقوں اور فرقہ پرستوں کے ذریعے نشانہ بنائی گئی مساجد جن کی تعداد تقریباً ایک درجن ہے، کا دورہ کیا۔ فسادزدگان سے براہِ راست حالات کی جانکاری لی،مساجد کو جو نقصان پہنچا اسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بعض پولیس افسران سے ملاقاتیں کیں۔

اسی طرح جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر جناب محمد سلیم انجینئر کی سربراہی میں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب نوید حامد اور جماعت کے دیگر ذمہ داروں کے ساتھ حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک دورہ کیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے وکلاء نے بھی جمیعۃ علماء ہند کے وفد کے ساتھ ریاستِ تریپورہ کے متاثرہ علاقوں کا تحقیقاتی دورہ کیا۔

 بنگلہ دیش میں درگا پوجا کے موقعہ پر جو کچھ ہوا، ہم اس کی مذمت کرتے رہے ہیں اور کبھی اس کی تائید نہیں کریں گے، لیکن کوئی اسے ہمارے ملک میں عناد وفساد پھیلانے کے لئے بہانہ بنائے اس کی اجازت بھی سرکار کو نہیں دینی چاہیے بلکہ جس طرح شرارت پسندوں کو بنگلہ دیش میں چھ سو سے زیادہ کی تعداد میں گرفتار کیا گیا ہے اسی طرح کے سخت اقدامات ہماری سرکار کو بھی اٹھانے چاہئیں۔ 

مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)