معصوم مرادآبادی
میں نے سید حسین کا نام پہلی بار اس وقت پڑھا جب میں مولانا محمدعلی جوہر پر محمدعبدالملک جامعی کی کتاب ترتیب دے رہا تھا۔ میرے لیے یہ انکشاف تھا کہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کے ایک روشن ستارے سیدحسین کا نکاح پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت کے ساتھ ہوا تھا ۔ جب اس کی اطلاع گاندھی جی اور نہرو کو ہوئی ہوئی تو انھوں نے سخت مزاحمت کی اور آخر کار اس کا انجام طلاق پر ہوا ۔ اتنا ہی نہیں سید حسین کو اس ‘جرم ’ کی پاداش میں امریکہ بھیج دیا گیا ، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے پچیس برس جلا وطنی میں گذارے۔سید حسین ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے ۔ ان کا تعلق بنگال کے ایک باوقار خانوادے سے تھا۔وہ 23؍جون 1888کو کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ایم اے او کالج علی گڑھ اور لندن میں تعلیم حاصل کی ۔ کئی انگریزی اخباروں کے ایڈیٹر رہے اور امریکہ سے میں جلاوطنی کے زمانے میں ‘یادوطن ’ کے نام سے ایک اردو اخبار بھی نکالا۔ ان کے دوستوں اور ہم نشینوں میں مولانا محمدعلی جوہر کے علاوہ محمدعلی جناح ،بیرسٹر آصف علی اور سروجنی نائیڈو جیسی شخصیات تھیں۔ انھوں نے امریکہ اور برطانیہ میں رہ کر ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔
مولانا محمدعلی جوہر خلافت کے وفد کے ساتھ انھیں یوروپ بھی لے گئے تھے۔آزادی کے بعد سید حسین مصر میں ہندوستان کے پہلے سفیر بنائے گئے اور وہیں انھوں نے1949میں داعی اجل کو لبیک کہا ۔ قاہرہ میں جس مقام پر ان کی آخری آرام گاہ ہے اس شاہراہ کا نام بھی سید حسین کے نام پر رکھا گیا ہے۔
اتنی اہم شخصیت اور جنگ آزادی میں اس کے کردار کے بارے میں ہم میں سے بیشترلوگ بے خبر ہیں۔ بے خبری کی اس دھند کو توڑنے کا کام علی گڑھ کے ایک سنجیدہ اور محنتی اسکالر اسعد فیصل فاروقی نے حال ہی میں کیا ہے اور سید حسین پر568 صفحات کی ایک انتہائی کارآمد تحقیقی کتاب پیش کی ہے۔
اسعد فیصل فاروقی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے فارغ ہیں ، لیکن تاریخ ان کی خاص دلچسپی کا موضوع ہے۔علی گڑھ کی صحافت کے حوالے سے ان کی کئی کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں ، لیکن انھوں نے زیرنظر کتاب میں جو عرق ریزی کی ہے وہ موجودہ دور میں اردو میں ناپید ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں پروفیسر شافع قدوائی نے درست ہی لکھا ہے کہ ‘‘ اسعدفیصل فاروقی کی یہ کتاب اردو تحقیق کے مروجہ بیانیہ سے واضح طورپر انحراف کی خبر دیتی ہے کہ یہاں حواشی اور تعلیقات رقم کرنے میں تحقیقی ژرف نگاہی کا ثبوت دیا گیا ہے ۔
آئیے پہلے کتاب کے اس حصہ پر نظر ڈالتے ہیں ، جس کی وجہ سے سید حسین کو جلا وطنی کے کرب سے گزرنا پڑا ۔المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ایک اتنا بڑے د انشور ، جیدصحافی اور مجاہدآزادی کو اپنی داستان عشق کی وجہ سے ہی یاد رکھا گیا اور اس کی بہترین قومی اور صحافتی خدمات کو نظر انداز کردیا گیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بیشتر لوگ سید حسین کے نام اور کام دونوں سے تقریباً ناواقف ہیں۔ انگریزی کی کئی کتابوں میں ان کا ذکر ملتا ہے ، لیکن اردو میں سید حسین پر یہ پہلی تحقیقی کتاب ہے جس کے لیے مصنف نے امریکہ میں مقیم سید حسین کے بھتیجے سید اقبال احمد سے بھی مدد لی ہے۔
پنڈت جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو نے 5؍فروری 1919میں الہ آباد سے انگریزی روزنامے ‘‘انڈپنڈنٹ ’’ کا اجراء کیا ۔ اس زمانے میں سیدحسین بمبئی کے اخبار ‘‘بامبے کرونیکل ’’میں صحافتی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ‘‘انڈپنڈنٹ ’’کی ادارت کے لیے موتی لال نہرو کی نظر سید حسین پر پڑی اور انھیں الہ آباد بلالیا گیا۔موتی لال نہرو نے انھیں رہائش اور کھانے کی سہولت کے ساتھ پندرہ سوروپے ماہوار کی معقول تنخواہ پر اپنے اخبار کا یڈیٹر مقرر کردیا۔ سید حسین کا قیام اسی‘ آنند بھون ’ میں تھا جہاں موتی لال نہرو اور ان کی فیملی مقیم تھی۔ اسی دوران موتی لال نہرو کی بیٹی وجے لکشمی پنڈت ان پر فریفتہ ہوگئیں اور یہ سلسلہ آگے بڑھتے ہوئے نکاح تک جا پہنچا۔ سید حسین کا تعلق حالانکہ ایک بنگالی خاندان سے تھا ، لیکن وہ نہایت خوبصورت اوراسمارٹ شخص تھے۔اسی طرح وجے لکشمی پنڈت بھی ایک حسین وجمیل خاتون تھیں ۔ حالانکہ ان دونوں کی عمر میں کوئی بارہ برس کا فرق تھا ۔ سید حسین اس وقت31سال کے تھے جبکہ وجے لکشمی پنڈت19سال کی تھیں۔اس واقعہ کو خود وجے لکشمی پنڈت نے اپنی آپ بیتی میں اس طرح بیان کیا ہے:
‘‘میں اپنی نوجوانی کے دنوں میں ایک نوجوان سید حسین کی جانب راغب ہوتی چلی گئی ، جن کو میرے والد نے اپنے اخبار کی ادارت کے فرائض سونپے تھے ۔یہ ایک ایسا دور تھا جس کو ہندو مسلم اتحاد کے لیے سب سے سنہری دور کہا جاسکتا ہے ، اور میرے خاندان کے مسلمانوں سے بہت قریبی اور گھریلو تعلقات تھے ۔ میں نے یہ سمجھا کہ یہ قدرتی طورپر بہت اچھا ہے کہ اپنے مذہب کے باہر شادی کی جائے ، مگر اس وقت اس طرح کی شادی کے لیے ماحول حد سے زیادہ روایتی تھا ۔ مجھے یہ سمجھایا گیا کہ جومیں نے کیا وہ غلط ہے۔’’(‘سیدحسین’ ص136)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سید حسین اور وجے لکشمی کی شادی کا یہ معاملہ کئی برس قومی اور بین الاقوامی پریس کی سرخیوں میں چھایا رہا۔اس معاملے نے اس وقت سنگین رخ اختیار کرلیا جب 15؍اپریل 1920کو لندن کے ہاؤس آف کامنس میں لیفٹیننٹ کرنل جیمس نے سیکریٹری آف اسٹیٹ انڈیا سے اس شادی کے بارے میں دریافت کیا اور سید حسین پر وجے لکشمی پنڈت کو اغوا کرنے ، زبردستی شادی کرنے اور مسلمان بنانے کے بارے میں سوال کیا ۔ سید حسین جو اس وقت خلافت وفد کے رکن کی حیثیت سے پیرس میں تھے ، ذاتی طورپرکرنل جیمس کے اس سوال پر سخت نوٹس لیا اور ان سے معافی مانگنے اور ان سے اس سوال کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔’’(ایضاًص140)
سید حسین اور وجے لکشمی پنڈت کا نکاح موتی لال نہرو، گاندھی جی اور جواہرلال کو پسند نہیں آیا ۔ انھوں نے اسے ہندومسلم یکجہتی کے لیے خطرہ بتایا۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے نہ صرف ہندوستان کی تحریک آزادی کمزور ہوگی بلکہ کانگریس کو بھی اس کا سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ سیدحسین کو سمجھانے کے لیے گاندھی جی کے علاوہ ان کے دوست بیرسٹر آصف علی اور سوسانہ جوزف کی بھی مدد لی گئی۔آخر کار گاندھی جی نے دیگر ساتھیوں کی مدد سے دونوں کو سمجھا بجھا کر یہ شادی ختم کرادی ۔ اس کے بعد گاندھی جی کے حکم پر وجے لکشمی کو گاندھی جی کے سابرمتی آشرم بھیج دیا گیا ، وہیں سید حسین کو حکم ملا کہ وہ ‘‘انڈپنڈنٹ’’سے فوری استعفیٰ دیں اور خلاف وفد میں شامل ہوکر انگلستان روانہ ہوجائیں ۔
اس نکاح کی تصدیق مولانا محمدعلی جوہر کے ایک خادم محمدعبدالملک جامعی نے اپنی کتاب ‘‘مولانا محمدعلی جوہر :آنکھوں دیکھی باتیں’’میں بھی کی ہے۔وہ لکھتے ہیں
‘‘سید حسین مولانا محمدعلی کے گہرے دوستوں میں تھے۔ سید حسین وہی ہیں جن کو وفد خلافت میں مولانا محمدعلی اپنے ساتھ یوروپ لے گئے تھے اور یہی سید حسین صاحب ہیں جو جواہر لال کی بہن وجے لکشمی پنڈت کے تعلق سے مشہور ہیں ۔دونوں کا نکاح واقعی ہوا تھا ، اس میں کوئی شبہ نہیں ۔ سرعلی امام اور راجہ محمود آباد گواہ تھے ۔ عبدالباری صاحب نے نکاح پڑھایا تھا ۔ بات اس پر بگڑ گئی کہ موتی لال گھر پر موجود نہیں تھے ، جو ہوا ان کی غیر موجودگی میں ہوا۔ پھر گاندھی صاحب اڑگئے ۔’’(مولانا محمدعلی جوہر :آنکھوں دیکھی باتیں’’ص59)
اس داستان کا انجام یہ ہوا کہ سید حسین کو تقریباً پچیس برس امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنی پڑی لیکن انھوں نے دیا رغیر میں بھی ہندوستان کی تحریک آزادی کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں، جس کا اعتراف خود پنڈت نہرو نے بھی ایک موقع پر کیا تھا۔سیدحسین نے امریکہ سے نومبر 1923 میں اردو پندرہ روزہ اخبار ‘‘یادوطن ’’جاری کیا، جو ستمبر1924تک جاری رہا۔ یہ شاید امریکہ کی سرزمین سے شائع ہونے والا پہلا اردو اخبار تھا۔ سید حسین بنیادی طورپر مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے ، لیکن اپنے کلچر اور زبان سے بھی انھیں بے پناہ لگاؤ تھا۔وہ گاندھی جی کے پیرو تھے اور مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست کے شدید مخالف۔ ان کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ جدوجہدآزادی کی تحریک ہندومسلم اتحاد کے ساتھ آگیبڑھے۔مولانا برکت اللہ بھوپالی اور راجہ مہندرپرتاپ سے بھی ان کا قریبی تعلق تھا۔معروف لبنانی ادیب ،شاعر اور مصور خلیل جبران سے بھی امریکہ میں سید حسین کا خاص تعلق رہا۔انھوں نے خلیل جبران کو اپنی میگزین ‘‘نیواورینٹ ’’کے ادارتی بورڈ میں شامل کیا۔
ڈاکٹر سید حسین کا انتقال 22؍فروری 1949کو قاہرہ میں ہوا ۔ اس وقت ان کی عمر ساٹھ برس تھی۔اس عرصے میں وہ ڈھاکہ ، علی گڑھ ، کلکتہ ، الہ آباد،دہلی،لندن ،نیویارک ، لاس اینجلس ، واشنگٹن اور قاہرہ میں مقیم رہے اور ہرجگہ انھوں نے صرف ایک قوم پرست ہندوستانی کے طورپر زندگی گزاری۔ان کا خواب ایک متحدہ ہندوستان کا خواب تھا جس کے لیے انھوں نے کسی سے سمجھوتہ نہیں کیا ، اپنے قریبی دوست جناح سے بھی نہیں ، اپنے قریبی خاندان والوں مولوی فضل الحق اور حسن شہید سہروردی سے بھی نہیں۔
مجموعی طورپر اسعد فیصل فاروقی کی یہ کتاب سید حسین کی زندگی اور قومی تحریک میں ان کی بیش بہا قربانیوں کا ہی احاطہ نہیں کرتی بلکہ ان کی بے مثال صحافیانہ صلاحیتوں سے بھی روشناس کراتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دانشورانہ خصوصیا ت کا بھی احاطہ کرتی ہے۔کتاب کا نہایت عالمانہ مقدمہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے استاد پروفیسر محمد سجاد نے لکھا ہے۔یہ کتاب ہماری جدوجہد آزادی کے ایک ایسے سورما سے روشنا س کراتی ہے جس پر عرصہ دراز تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یہ ہماری جدوجہد آزادی کے ایسے بہت سے پہلوؤں پرروشنی ڈالتی ہے، جو اب تک ہماری نظروں سے اوجھل رہے ہیں۔