حمیدہ سلیم: علی گڑھ کی پہلی خاتون ماہر معاشیات

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 07-06-2022
حمیدہ سلیم: علی گڑھ کی پہلی خاتون ماہر معاشیات
حمیدہ سلیم: علی گڑھ کی پہلی خاتون ماہر معاشیات

 

 

saqib saleem


ثاقب سلیم، نئی دہلی

جب 1930 کی دہائی ختم ہو رہی تھی۔ تھوبرن کالج، لکھنؤ کی ایک مسلم گریجویٹ خاتون حمیدہ سلیم نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے شعبہ تاریخ میں ماسٹرز میں داخلے کے لیے درخواست دی۔

اس وقت تک یونیورسٹی نے طالبات کے لیےبھی اپنے دروازے کھول دیے تھے۔اگرچہ اس وقت اے ایم یو سے منسلک مرکزی کیمپس سے دو کلومیٹر دور واقع ویمنس کالج  کے علاوہ کہیں بھی خواتین طالبات کو داخلے کی اجازت نہیں تھی، حتیٰ کہ وہ یونیورسٹی کے مین کیمپس میں بھی داخل نہیں ہوسکتی تھیں۔ 

حمیدہ سلیم کی درخواست کے جواب میں یونیورسٹی انتظامیہ انہیں ایک خط لکھا۔ خط دیکھ کر حمیدہ سلیم حیران رہ گئی جب انہیں معروف مورخ پروفیسر محمد حبیب کی طرف سے جواب ملا کہ انہیں داخلہ نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ یہ شعبہ لڑکوں کے ہاسٹلوں سے گھرا ہوا ہے اور یہاں خواتین کے لیے 'مناسب پردہ' کا انتظام نہیں ہے۔ اگرچہ پروفیسر حبیب نے اس خط میں انہیں پرائیویٹ امتحان دینے کا بھی مشورہ دیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ وہی حمیدہ سلیم تھیں جن کی بڑی بہن اور جاوید اختر کی والدہ صفیہ پہلے ہی اے ایم یو میں پڑھاتی تھیں اور ان کے دونوں بھائی اسرار الحق مجاز اور انصار الحق ہروانی  ترقی پسند شاعر اور آزادی پسند رہنما تھے۔

حمیدہ سلیم ایک باہمت خاتون تھیں، وہ ہار ماننے والی خاتون میں سے نہیں تھیں۔ان کے خون میں کسی چیز کو پانے کی جدوجہد و کشمکش بھری ہوئی تھی۔

تاہم جب انہیں علم تاریخ میں داخلہ نہیں ملا تو انہوں علم معاشیات میں داخلہ لیے لیا۔اس طرح وہ اے ایم یو میں معاشیات کی پہلی خاتون پوسٹ گریجویٹ طالبہ بن گئیں۔ اس شعبہ میں داخلہ لینے کے بعد بھی ان کا سفر آسان نہیں تھا۔

اردو زبان میں تحریر کردہ اپنی خود نوشت سوانح حیات میں وہ لکھتی ہیں کہ  اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  نے اپنے ماسٹرز کے کورس میں صرف باپردہ طالبات کوہی داخلے کی اجازت دی تھی۔

باپردہ طالبات کو گھوڑا گاڑیوں میں سفر کرنا پڑتا تھا اور الگ الگ دروازوں سے کلاس رومز میں داخل ہونا پڑتا تھا، کیونکہ کلاسز کو ایک بڑے پردے کے ساتھ تقسیم کیا گیا تھا تاکہ مرد طلباء اور اساتذہ کو طالبات سے الگ کیا جا سکے۔ کلاس کی تقسیم اس قدر تھی کہ کسی کو معلوم نہ ہوپاتا تھا کہ طالبہ نے اپنی حاضری درج کرنے کے بعد کلاس رومز کو بند کیا ہے کہ نہیں۔  کیونکہ استاد سمیت کوئی بھی مرد طالبات کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔

حمیدہ سلیم نے اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ انہیں یونیورسٹی کی لائبریری یا ڈیپارٹمنٹ لائبریری جانے کی اجازت نہیں تھی۔انہوں نے خاص طور پر اپنے دو ہم جماعتوں ابو سلیم اور حمزہ علوی کا انتہائی الگ تھلگ کیمپس میں کتابیں اور رسالے لانے پر شکریہ ادا کیا۔

 انہوں نے لکھا کہ ان حالات میں بھی اگر میں معاشیات کا مطالعہ کر سکتی ہوں تو میں اپنے ہم جماعت سلیم اور حمزہ علوی کی شکر گزار ہوں۔ان کے پاس کوئی اچھی کتاب یا رسالہ ہوتا تو مجھ تک پہنچ جاتا تھا۔ میں اپنے شعبہ کے چپراسی کا بھی شکر گزار ہوں جو کبھی کبھار مجھے اطلاع دیتے تھے کہ سیمینار کی لائبریری  میں مرد طلبہ  نہیں ہیں، میں وہاں سے کتابیں لے سکتا ہوں۔

چپراسی کی اطالع کے بعد میں جلدازجلد لائبریری پہنچتی اورکتابوں کے المیرہ کے سامنے کھڑی ہوکر ان کتابوں کو دیر تک دیکھا کرتی تھی۔ حمیدہ سلیم  نے بعد میں اس مددگار ہم جماعت ابو سلیم سے شادی کرلی۔انھوں نے لکھا کہ اتنی پابندیوں کے بعد بھی میں نے اپنی پسند کے آدمی سے شادی کی۔

 علم معاشیات یا اقتصادیات میں اے ایم یو سے ایم اے کرنے کے بعد حمیدہ سلیم نے ٹیچرس ٹریننگ کا کورس کیا اور پھر کرامت حسین کالج، لکھنؤ میں بطور استادان کی تقرری ہوگئی۔ اس تعلق سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے لیے ایک خواب پورا ہونے والا لمحہ تھا۔ اب ہم مردوں کی حمایت سے آزاد رہ سکتے ہیں، جو ہمارے خیال میں خواتین کی حقیقی آزادی کے لیے ضروری شرط تھی۔

انہوں نے لکھنؤ کے علاوہ اے ایم یو، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگریونیورسٹیوں میں درس و تدریس کی خدمات انجام دی۔

سنہ 2015 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ انتقال سے قبل تک انہوں نے بہت کچھ لکھا۔