سیتا ہرن: کشمیر کا رامائن گاؤں جو سیاحوں اور ترقی کا ہے منتظر

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 28-11-2022
سیتا ہرن: کشمیر کا رامائن گاؤں جو سیاحوں اور ترقی کا ہے منتظر
سیتا ہرن: کشمیر کا رامائن گاؤں جو سیاحوں اور ترقی کا ہے منتظر

 

 

احسان فاضلی/ سری نگر

برف سے ڈھکے پہاڑوں کی گود میں ڈھلوانوں پربسا ہواایک چھوٹا سا گاؤں سیتاہرن ہے،جورامائن گاؤں ہونے کی وجہ سے اپنی پرانی تاریخ کو نہیں بھولا ہے۔ یہاں کے بزرگ  سیتاجی کے اغوا کی کہانی ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل کرتے رہتے ہیں۔

 وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے قصبے سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس گاؤں میں کشمیر کے صوفی بزرگ شیخ نور الدین نورانی یا نند ریشی کی میزبانی کی بھی چھ صدیوں پرانی تاریخ ہے، جنہوں نے 12 سال تک تنہائی میں مراقبہ کیا تھا اور عبادت کی تھیں۔ اس گاوں میں سات ہزار سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔  گاؤں نے اپنا پرانا نام 'سیتاہرن' قائم رکھا ہے۔اس نام کے ساتھ تاریخ وابستہ ہے، اس لیے گاوں والوں نے اس کے نام میں تبدیلی نہیں کی ہے۔

اس کے علاوہ اس گاوں کو سداہرن بھی کہا جاتا ہے۔  گاؤں کے سرپنچ عبدالرشید لون کے مطابق رام اور سیتا کی 14 سالہ جلاوطنی کے دوران ایک خاص مدت تک اس گاوں میں رکے تھے۔ رام اور سیتااسی گاؤں میں رکےتھےاور سیتا کو اسی مقدس مقام سے اغوا کیا گیا تھا۔ یہ  کہانی  662 خاندانوں کے گاؤں میں تقریباً ہر ایک  کو زبانی یاد ہے۔

یہاں سری رام کے نام کا ایک یادگارغار بھی ہے۔اس غار میں داخل ہونے کا صرف ایک ہی دروازہ ہے جوسال میں زیادہ تر برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ایک اور کہانی بیان کی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ  سیتاجی 'سیتا ناگ' چشمہ میں نہا رہی تھیں اور اسی جگہ سے راون نے اسے اغوا کر لیا تھا۔  ایک اور روایت کے مطابق سری رام نے ایک جگہ'ایک کنکر پھینکا' تھا، وہ پتھر چشمہ کے قریب ایک بہت بڑا پتھر بن گیا، جو آج بھی موجود ہے۔اس کی دیکھ بھال غلام محمد شیخ کرتے ہیں۔

awazthevoice

سیتاہرن گاوں کا مقدس مقام

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سری رام اور ماتا جانکی، اپنی جلاوطنی کے دوران، 'ہارا' میں ٹھہرے تھے، جو ایک پہاڑ کی چٹان کے اوپر ایک غار کی شکل  میں بنا ہوا تھا۔ راون نے سیتا جی کو اغوا کیا اور انہیں سری لنکا لے گیا۔ سرپنچ عبدالرشید لون کی عمر تیس برس کے درمیان ہے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ دیوالی کے موقع پر کچھ افسران وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی شروع ہونے کے بعد سےیہاں جشن نہیں منایا جاتا ہے۔

مقامی رہائشی غلام محمد شیخ نے بتایا کہ اس سال 24 اکتوبر کو دیوالی کے موقع پر موم بتی جلائی گئی تھی۔ بہت سے پڑوسیوں نے روشنیوں کے تہوار میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ 'سیتا ناگ' کے احاطے کو روشن کرنے کے لیے موم بتیوں کی خریداری پر ذاتی طور پر خرچ کرکےخوش ہوتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیوالی کے موقع پر شام 6 بجے سے رات 10 بجے تک یہ جگہ چار گھنٹے سے زیادہ روشن رہی تھی۔

غلام محمد شیخ نے کہا کہ یہ موقع ایسا ہی تھا جیسے ہم عید مناتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنڈت برادری کے افراد ہمارے بھائیوں کی طرح ہیں، جو پہلے ایسےموقعوں پرسائٹ کا دورہ کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں کئی پنڈت بھائی یہاں آیا کرتے تھے۔

'سیتا ناگ' ایک مشہور چشمہ ہے، جو آس پاس کے بہت سے دیہات کے مکینوں کے لیے پینے کے پانی کا واحد ذریعہ ہے۔ شیخ نے کہا کہ میں اس چشمے سے سال بھر اس گاؤں کے علاوہ 15 گاؤں کو پینے کا پانی فراہم کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جب کہ سردیوں کے مہینوں میں پانی کے بہت سے دوسرے ذرائع خشک ہو جاتے ہیں۔ یہ مقدس ذریعہ پوری آبادی کی مدد کرتا رہا ہے۔ مقامی افراد اس جگہ کے ساتھ ساتھ مین روڈ تک ایک لنک روڈ تیار کرنا چاہتے ہیں، ایک پارک اور اس کے گرد باڑ لگانا چاہتے ہیں۔

awazthevoice

عبدالرشید لون اور غلام محمد شیخ

گاؤں کے ایک سینئر رہائشی غلام محی الدین شیخ نے کہا کہ ہم نے یہ سب چیزیں نسل در نسل اپنے بزرگوں کے ذریعے سیکھی ہیں اور اس کا کوئی تحریری ریکارڈ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ باہر سے بہت سے کشمیری پنڈت وقتاً فوقتاً اس جگہ کا دورہ کرتے رہے ہیں، جب کہ کوئی پنڈت اس علاقے میں نہیں رہتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جب بھی وادی کے باہر سے کسی (ہندو) کو اس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے، وہ اس مقام کا دورہ کرنے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

جموں و کشمیر حکومت کے عہدیداروں نے کہا کہ یہ علاقہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اور حکام اسے سیاحتی علاقہ کے طور پر ترقی دے رہے ہیں۔ سیتا ناگ' کا مقام توسا میدان سے صرف 13 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، جو ایک گھاس کا میدان ہے، جسے 52 سال بعد آرمی فائرنگ رینج کے طور پر استعمال کرنے کے بعد 2014 میں ایک اہم سیاحتی مقام کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔

یہ علاقہ جموں کے علاقے پونچھ سے منسلک ہے۔ اونچے پہاڑی راستوں پر بہت سے مقامات کا دورہ کیا جاتا ہے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت مختلف مواقع پر خصوصی نماز ادا کرتی ہے۔