.jpg)
ڈاکٹر عمیر منظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
پنڈت رتن ناتھ سرشار کا شمار اردو کے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے۔وہ بیک وقت ناول نگار،مترجم،مدیر اور شاعر تھے۔افسانوی ادب کے ایک اہم ستون کے طور پر انھیں یاد کیا جاتا۔چکبست کے بقول ان کی ”جادوبیانی کا شہرہ آج ہندستان بھر میں ہے“۔زوال آمادہ لکھنؤ کے آخری ز مانے کی ہو بہو تصویر سرشارنے اس کی تمام جزئیات کے ساتھ اس طرح کھینچیی ہے کہ کوئی دوسرا ان کے ہم پلہ نہیں۔ان کی تصانیف میں ”فسانہ آزاد“ کا بہت بلند مرتبہ ہے۔یہ ناول چار جلدوں پر مشتمل ہے۔
حالات زندگی:
سرشار کشمیری پنڈتوں کے معزز گھرانے سے تھے۔ان کے والد کشمیر سے بغرض تجارت لکھنؤ آکر آباد ہوئے تھے۔سرشار لکھنؤ میں 1846میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام بیچ ناتھ در تھا۔ابھی سرشار چار برس کے ہوئے تھے کہ والد کا سایہ جاتا رہا۔ماں کے سایہئ عاطفت میں پرورش پائی۔اس دور کے عام رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں حاصل کی۔انگریزی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کنگ کالج لکھنومیں داخل ہوئے لیکن اپنے مزاج کے لاابالی پن اور لاپرواہ ہونے کی وجہ سے تعلیم مکمل نہیں کرسکے۔اسی دوران انھیں کھیری کے ضلع اسکول میں استاد کی حیثیت سے تدریسی فریضہ انجام دینے کا موقع ملا۔یہی زمانہ سرشار کی ادبی زندگی کے آغاز کا ہے۔ان کا پہلا مضمون ”مراسلہ کشمیر“فارسی زبان میں شائع ہوا۔یوپی کے سررشتہئ تعلیم کے رسالہ میں آپ نے انگریزی سے متعدد مضامین کا اردو میں ترجمہ کرکے بھیجا،جو نہ صرف شائع ہوا بلکہ محکمہ کی سالانہ روئیداد میں ان ترجموں کی ستائش کی گئی اور یہاں تک لکھا گیا کہ ”جیسا صحیح اور بامحاورہ ترجمہ پنڈت رتن ناتھ کا ہوتا ہے ایساکسی دوسرے شخص کا صوبے بھر میں نہیں ہوتا“۔اس کے علاوہ اودھ پنج،مرآۃ الہند،اور ریاض الاخبار میں بھی ان کے کئی مضامین شائع ہوئے۔اور اس طرح رفتہ رفتہ پنڈت رتن ناتھ کی شہرت ہونے لگی غالباً اسی سبب وہ بہت جلد ضلع اسکول کی ملازمت ترک کرکے لکھنؤواپس آگئے۔ لکھنؤ آنے کا فیصلہ سرشار کی ادبی زندگی کے لیے مبارک ثابت ہوا۔منشی نول کشور نے انھیں ”اودھ اخبار“کا مدیر مقرر کردیا اور یہیں انھوں نے”فسانہ آزاد“ کا سلسلہ شروع کیا۔یہ سلسلہ دسمبر 1878سے دسمبر 1879تک جاری رہا۔سرشار کا دور ادارت اخبار کے لیے بہت کامیاب رہا۔سرشار کی افتاد طبع کا معاملہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا اسی سبب وہ مرحلہ بھی آیا جب اودھ اخبار سے سبکدوش ہوگئے۔1894میں الہ آباد ہائی کورٹ میں مترجم کی حیثیت سے کام کیا مگر یہاں بھی وہ ملازمت کی پابندیوں سے بہت دنوں تک نباہ نہیں کرسکے۔1895میں وہ حیدرآباد دکن گئے، جہاں مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے دو سوروپے پر ملازم رکھ لیا۔یہاں مہاراجہ کی سرپرستی میں ایک رسالہ ”دبدبہ آصفی“ کے نام سے 1898میں جاری کیا۔مگر اس کے صرف چند ہی شمارے نکل سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرشار کی صحت گرتی جارہی تھی۔کثرت شراب نوشی نے قوی کو اندر اندر گھلا دیا تھا۔پروفیسر قمر رئیس کے بقول لکھنؤی تہذیب و ثقافت کا صاحب طرز ادیب 27،جنوری 1902کو دکن میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔
تصانیف:
رتن ناتھ سرشارکو سب سے زیادہ شہرت”فسانہ آزاد“ سے ملی مگر اس کے علاوہ بھی ان کی بہت سی کتابیں ہیں۔ناول کے علاوہ انھوں نے انگریزی کتب کو اردو کا قالب عطاکیا۔ان کی بعض کتابوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ براہ راست انگریزی سے ترجمہ تو نہیں مگر انگریزی سے بہت زیادہ استفادہ کیا گیا ہے۔اس ذیل میں ”شمس الضحی“ کا نام لیا جاتا ہے اس کتاب کا موضوع علم طبعی ہے۔اس میں زمین کی شکل،گردش،سمندر،لہریں،پانی،بجلی اور برف وغیرہ کی ہیئت و ماہیت کا ذکر ہے۔ظاہر ہے اس وقت تک اردو میں براہ راست سائنسی موضوعات پر کتابیں لکھنے کا رواج نہیں تھا۔سرشار نے کسی ماخذ کی نشاندہی نہیں کی ہے مگر خیال یہی ہے کہ اس کتاب کو تیار کرنے میں انھوں نے انگریزی کتابوں سے بہت زیادہ مدد لی ہوگی۔سرشار کی کتابوں میں ایک کتاب”رنگے سیار“کا ذکر کیا جاتا ہے۔مگر یہ ان کی باقاعدہ تصنیف نہیں ہے۔اس کے بارے میں ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب نے لکھا ہے کہ ”رنگے سیار سرشار کی کوئی علاحدہ مستقل تصنیف نہیں ہے۔بغدادی قاعدہ کے سائز پر نول کشور کے منیجر نے پندرہ صفحات پر مشتمل فسانہ آزاد جلد اول کا قصہ بعنوان”رنگے سیار“علاحدہ سے چھپوادیا ہے“۔(رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری،ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب،ص382)اس کے علاوہ ان کی دیگر کتابوں کے نام اس طرح ہیں:فسانہ آزاد(چار جلدیں)جام سرشار،سیر کہسار،کامنی۔
”خم کدہ سرشار“ کے تحت سرشار نے ناولوں کاجو نیا سلسلہ شروع کیاتھااس کے تحت ”کڑھم دھم،بچھڑی دلہن،طوفان بد تمیزی،پی کہاں اور ہشو“ کی اشاعت عمل میں آئی۔
الف لیلہ(آزاداردو ترجمہ)،خدائی فوج دار(ڈان کوئک زاٹ کا آزاد ترجمہ)،اعمال نامہ روس (ہسٹری آف رشا کا اردو ترجمہ)شاخ بنات(ہسٹری آف ایجپٹ کا اردو ترجمہ)کے علاوہ وائسرائے ہندلارڈ دفرن کے خطوط کا انھوں نے ترجمہ کیا تھا، جو 1888میں لکھنؤسے شائع ہوا۔چنچل نار،گور غریباں اور رشاان کی غیر مطبوعہ تصانیف ہیں۔حیدر آباد سے انھوں نے ”دبدبہ آصفی“کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا تھا۔چنچل نار اسی رسالے میں قسط وار شائع ہوتا تھا جوکہ مکمل نہیں ہوسکا۔
رتن ناتھ سرشار کی تصانیف کا تفصیلی مطالعہ ”رتن ناتھ سرشار کی ناول نگاری،ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب،رتن ناتھ سرشارِ،مصباح الحسن قیصر اور تاریخ ادب اردو جلد چہارم(حصہ دوم)جمیل جالبی سے کیا جاسکتا ہے۔
فسانہئ آزادکا نام:
فسانہ آزاد روزنامہ اودھ اخبار میں ظرافت کے عنوان سے مضامین کے طور پرشائع ہوتا تھا۔یعنی کبھی محرم پر کوئی مضمون تو کبھی عیش باغ کے میلے پر یاچہلم پر۔مگر اس پر نہ تو کوئی عنوان ہوتا تھا اور نہ کسی کا نام۔لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ دنوں بعد بند ہوجائے گا مگر یہ سلسلہ جاری رہا۔اس کی غیر معمولی مقبولیت اور خریداروں کی مانگ کے پیش نظر مطبع نول کشور نے اسے جب کتابی شکل میں چھاپنے کا ارادہ کیا تو اس وقت یہ مسئلہ سامنے آیا کہ اس کا نام کیا رکھا جائے۔
عظیم الشان صدیقی کے بقول:اودھ اخبار 27جنوری 1880 کے شمارے میں اس کے نام کے انتخاب اور زبان کی اغلاط کے سلسلے میں اعلان شائع کیا گیا۔چنانچہ اس سلسلہ میں مختلف لوگوں نے اپنی رائیں بھیجیں۔رانا دلیپ سنگھ نے چار تاریخی نام تجویز کیے جس میں ایک نام ”مرآت سخن داستان آزاد“بھی تھا۔ چنانچہ رانا صاحب کے مجوزہ نام کا پہلا حصہ حذف کرکے اس کانام ”فسانہئ آزاد“رکھا گیا۔لیکن جولائی ۰۸۸۱ کے اشتہار کے مطابق اس وقت اس کو”ناول آزاد فرخ نہاد“کے نام سے ہی پکارتے تھے۔اگر ناظرین کی رائے طلب نہ کی جاتی تو عین ممکن تھا کہ اس کا نام ”ناول آزاد فرخ نہاد“ہی ہوتا اور اس طرح ناقدین کو لفظ ”فسانہ“پر اعتراض کا موقع نہ ملتا۔البتہ 12،اگست 1880 کے اشتہار میں اس کا نام فسانہئ آزاد ہی لکھا ہے۔(فسانہ آزاد کی کہانی،عظیم الشان صدیقی۔نقوش لاہور ص:122)
اس طرح”فسانہ آزاد“ اس کا نام رکھا گیا۔حالانکہ قارئین نے اودھ اخبار کو مختلف خطوط لکھے تھے کہ بغیر عنوان کے مضمون اچھے نہیں ہوتے۔چونکہ اس کی مقبولیت بہت زیادہ تھی اس لیے اس کے بارے میں جو خطوط آتے تھے وہ ہر قسط کے آخر میں شائع ہوتے تھے۔
فسانہئ آزاد کی اشاعت:
فسانہ آزاد کی بے پناہ مقبولیت کے سبب اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ یہ کتاب کتنی بار شائع ہوئی۔نول کشور پریس کے علاوہ بھی یہ مختلف مطابع سے شائع ہوتی رہی۔اس لیے اس کے مختلف ایڈیشنوں کا پتا لگانا بہت آسان نہیں۔عام خیال یہی ہے کہ فسانہ آزاد جلد اول کا پہلا کتابی ایڈیشن 1880 میں شائع ہوا لیکن پروفیسر عظیم الشان صدیقی نے اودھ اخبار کے مینجر شیوپرشاد کے ایک اشتہار سے جو اخبار میں شائع ہوا تھا یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 1880 میں پہلی جلد کی کتابت و طباعت کا انتظام کیا گیا تھا۔ان کے بقول ”فسانہئ آزاد جلد اول کا پہلا کتابی ایڈیشن 12،اگست 1880 تک شائع نہیں ہوا تھا“(فسانہ آزاد کی کہانی،عظیم الشان صدیقی۔نقوش لاہور ص:124)
فسانے آزاد کی کہانی کے تحت پروفیسر عظیم الشان صدیقی نے نہایت تحقیقی انداز میں اس کی مختلف اشاعتوں کا ذکر کیا ہے۔انھوں نے فسانہ آزاد کی ابتدائی اشاعت کی تفصیل کے تحت لکھا ہے۔:
باراول میں فسانہئ آزاد از آغاز تا اختتام اودھ اخبار کے ساتھ چار سفید ورقوں پر ابتدائے دسمبر 1878تا دسمبر 1879شائع ہوا۔باردوم میں جلد اول کتابی شکل میں 9X11کے سائز میں 1880 میں طبع ہوئی۔جلد دوم ماہانہ رسائل کی صو رت میں جولائی 1880 تا دسمبر 1880شائع ہوئی۔جلد سوم ماہانہ رسائل کی صورت میں جنوری 1881تا دسمبر 1881میں شائع ہوئی جلد چہارم 11X18سائز میں طبع ہوئی۔فسانہ آزاد جلد اول کا تیسرا ایڈیشن 1891سے قبل اور چوتھا ایڈیشن 1893اور پانچواں ایڈیشن 1898میں شائع ہوا۔جلد دوم کا تیسرا ایڈیشن اکتوبر 1890 میں کتابی شکل میں شائع ہوا۔چوتھا ایڈیشن 1907میں مع تقریظ مولانا مولوی حضرت ابو ناظم محمد حامد علی خاں حامدشاہ آبادی مطبع نول کشور کان پورسے شائع ہوا۔پانچویں ایڈیشن کا متن دسمبر 1929میں بسرپرستی بشن نرائن اور باہتمام بابوکیسری داس سیٹھ میں چھپا اور سرورق ماہ اکتوبر 1930 میں لکھنؤ میں طبع ہوا۔(فسانہ آزاد کی کہانی،عظیم الشان صدیقی۔نقوش لاہور ص:127)
سطور بالا سے اس بات کی بھی صراحت ہوتی ہے کہ کتابی ایڈیشن کے ساتھ ساتھ اودھ اخبار میں بھی اسے رسالہ کی صورت میں اس کو شائع کیا جاتا رہا۔اس کی اشاعت برابر جاری رہی یہاں تک کہ نول کشور کے انتقال کے بعد جب ان کا ترکہ تقسیم کیا گیا تو اس مقبول عام کتاب کے حقوق دونوں وارثوں کے حصے میں آئے۔یعنی مطبع نول کشور کے ساتھ ساتھ اب مطبع تیج کمار بھی وجود میں آگیا۔اس نئے مطبع سے بھی اس کتاب کے سات ایڈیشن شائع ہوئے۔فسانہ آزاد کا ایک ایڈیشن پاکٹ سائز کا بھی ہے یہ راجہ رام کمار پریس مالک مطبع نول کشور نے 1961میں شائع کیا تھا۔فسانہ آزاد کی تلخیص بھی شائع ہوکر مقبول عام ہوئی۔ترقی اردو بیوروجس کی موجودہ شکل قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ہے یہاں سے بھی فسانہ آزاد کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔پہلے پہل ترقی اردو بیوروں نے اسے شائع کیا۔راقم کے پیش نظر یہی نسخہ ہے۔1986(جنوری،مارچ) میں جلد اول شائع ہوئی جبکہ حصہ دوم 1985(اپریل جون)میں منظر عام پر آئی۔جلد سوم اور جلد چہارم کے کے دونوں حصے بالترتیب 1986(اپریل،جون) 1986(جولائی۔ ستمبر)میں منظر عام پر آئے۔واضح رہے کہ جلد سوم اور جلد چہارم کے دو دو حصے ہیں۔ترقی اردو بیوروں کی اشاعت میں ہر جلد کے آخر میں مشکل الفاظ کی فرہنگ،عربی محاورات وامثال کے معنی نیز مشہورعالم وادیب اور شاعرکے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے قدیم محلوں اور عمارتوں جو نام کتاب میں آئے ہیں ان کے بارے میں جامع معلومات دی گئی ہے۔فرہنگ و امثال اور تاریخی معلومات کے لیے کے لیے جن کتابوں سے استفادہ کیا گیاہے ان کی فہرست بھی دی گئی ہے۔اس کام کو امیر حسن نورانی نے انجام دیا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے فسانہئ آزاد کاایک نیا ایڈیشن(عکسی ایڈیشن) بھی آگیا ہے۔
فسانہ آزاد کو اردو زبان و ادب میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔اس میں ہماری تہذیبی داستان کو نہایت دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔اس کے بہت سے کردار ہمارے ادبی معاشرہ میں زبان زد خاص و عام ہیں۔اسی میں سب سے توانا کردار خوجی کا ہے۔ایک عرصہ گذرجانے کے بعد بھی فسانہ آزاد کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔