صدقۂ فطر، اہم مسائل

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-05-2022
صدقۂ فطر، اہم مسائل
صدقۂ فطر، اہم مسائل

 

 

مفتی تنویر احمد 

صدقۂ فطر ادا کرنے سے جہاں ایک شرعی حکم کو پورا کرنے کا ثواب ملتا ہے وہاں اس کے کئی اور فائدے بھی ہیں جیسے صدقۂ فطر روزوں کو پاک صاف کرنے کا ذریعہ ہے۔

روزے کی حالت میں جو فضول یا بیہودہ باتیں زبان سے نکلتی ہیں اس فطرانے کی ادائی سے روزے ان چیزوں سے پاک ہوکر اﷲ تعالی کی بارگاہ میں ایسے مقبول ہوجاتے ہیں کہ ان کی قبولیت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اسی طرح صدقۂ فطر سے عید کے دن ناداروں اور مسکینوں کی خوراک و پوشاک کا انتظام ہوجاتا ہے اور عید کی خوشیوں میں ان کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔

اس کی ادائی سے اﷲ تعالی مال اور رزق میں برکت اور کام یابی عطا فرماتے ہیں۔ اس لیے بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اگر مسئلہ کی رُو سے کسی پر صدقۂ فطر واجب نہ بھی ہو تو اسے بھی صدقۂ فطر کے ٖفضائل اور فوائد کو سامنے رکھ کر ادا کرلینا چاہیے۔

صدقہ فطر کس پر واجب ہے اور کن افراد کی طرف سے واجب ہے۔۔۔؟

ہر وہ مسلمان جس کی ملکیت میں پانچ چیزوں (سونا، چاندی، نقدی رقم، مال تجارت اور ضرورت سے زاید تمام اشیاء) میں سے کوئی ایک یا ان پانچوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولا چاندی کی قیمت کے بہ قدر ہو جائے، خواہ اس نصاب پر پورا سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو، تو اس پر اپنی طرف سے اور زیر کفالت نابالغ بچوں کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے اور ایسے شخص کے لیے جو اس مذکورہ نصاب کا مالک ہو زکوٰۃ، صدقۂ فطر اور صدقات واجبہ لینا جائز نہیں۔

۔٭ اگر باپ نہ ہو یا تنگ دست ہو تو دادا باپ کے قائم مقام ہوگا یعنی اس پر واجب ہوگا کہ اپنے نابالغ پوتے اور پوتیوں کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرے، اگر نابالغ پوتے اور پوتیاں مال دار نہ ہوں اور اگر وہ مال دار ہوں تو ان کے مال سے ادا کرے گا۔

۔٭ مرد کے ذمے نابالغ اولاد کے علاوہ کسی اور رشتے دار مثلا بیوی، بالغ اولاد، بہن، بھائی غرض کسی بھی دوسرے رشتے دار کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب نہیں اگرچہ یہ اس کے زیر کفالت ہوں مثلا چھوٹے بھائی، بہن وغیرہ، البتہ بالغ اولاد اور بیوی کا فطرانہ ان سے اجازت لیے بغیر ادا کر دیا تو ادا ہو جائے گا بہ شرطے کہ بالغ اولاد اس کے عیال میں ہو۔

۔٭ اگر عورت خود صاحب نصاب ہو (جو کہ عموماً زیورات وغیرہ کی وجہ سے ہوتی ہے چاہے زیورات استعمال میں ہوں یا نہ ہوں) تو صدقۂ فطر کی ادائی کی خود ذمے دار ہے شوہر کے ذمے لازم نہیں، تاہم اگر شوہر بیوی کی طرف سے ادا کرے تو صدقۂ فطر ادا ہو جائے گا اور اگر عورت نصاب کی مالک نہیں تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں۔

۔٭ اگر کوئی مقروض ہو تو ان پانچوں قسم کے مال کی قیمت لگائے پھر اس میں سے قرض کی رقم نکال کر دیکھے اگر بقیہ رقم مذکورہ نصاب کے برابر ہے تو صدقۂ فطر واجب ہوگا ورنہ واجب نہیں اور جو قرض دوسروں پر ہو اور اس کے ملنے کی امید ہو اسے بھی نقد رقم میں شمار کیا جائے گا۔ ۔٭ جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا ویسے ہی غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، صدقۂ فطر ان پر بھی واجب ہے اگر وہ صاحب نصاب ہیں۔

۔٭ جو بچہ عید کی رات صبح صادق سے پہلے پیدا ہوا اس کا صدقۂ فطر لازم ہے اور جو عید کی رات صبح صادق سے پہلے مرگیا تو اس کا صدقۂ فطر لازم نہیں۔

۔٭ ماں کے ذمے بچوں کا صدقۂ فطر لازم نہیں، خواہ ماں مال دار ہی کیوں نہ ہو۔

 ۔٭ صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا وقت اگرچہ عید کے دن کا صبح صادق ہے لیکن اگر کوئی اس سے پہلے رمضان میں پیشگی دیدے تب بھی ادا ہو جاتا ہے۔ اگر کسی نے نہ رمضان میں ادا کیا اور نہ عید کے دن تو بعد میں بھی اد ا کرنا ذمے میں واجب رہے گا معاف نہیں ہوگا خواہ کتنا ہی زمانہ گزر جائے، عمر بھر یہ واجب اس کے ذمہ میں رہے گا اور عید کے دن سے تاخیر کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔ تاخیر ہونے پر استغفار کرنا چاہیے۔

صدقہ فطر کن چیزوں سے ادا ہوگا اور ان کی واجب مقدار

 احادیث میں صدقۂ فطر وزن کے اعتبار سے چار اقسام کی چیزوں سے ادا کرنے کا ذکر ملتا ہے۔ ایک کشمش سے، دوسرے چھوارے سے، تیسرے جو سے اور چوتھے گندم سے۔ ان میں سے کسی بھی ایک چیز کو بہ عینہ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کو ادا کرنا درست ہے۔ گندم میں صدقہ فطر کی مقدار پونے دو کلو گندم (احتیاطاً دو کلو گندم) یا اس کی قیمت ہے اور جو، کشمش اور کھجور کے ان تینوں کے اعتبار سے ساڑھے تین کلو یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت۔ مذکورہ چار اشیاء میں سے جس چیز کے ساتھ کوئی صدقۂ فطر اد اکرنا چاہتا ہے اور وہ چیز اعلی اور ادنی ہونے کے لحاظ سے مختلف مالیت کی ہے تو بہتر یہ ہے کہ اعلی یا درمیانے درجے کی چیز یا اس کی قیمت کے اعتبار سے صدقۂ فطر ادا کرے لیکن اگر ادنی قسم کی قیمت کے اعتبار سے ادا کیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔(فتاوٰ ی محمودیہ)

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدقۂ فطر صرف گندم کے ساتھ خاص ہے۔ باقی تین چیزوں کا علم بھی نہیں ہوتا حالاں کہ جن لوگوں کو اﷲ تعالٰی نے وسعت اور توفیق دی ہے ان کو چاہیے کہ وہ ان چار چیزوں میں سے جو چیز مالیت کے اعتبار سے سب سے اعلی ہو اس کے ساتھ صدقہ فطر ادا کریں تاکہ غریب کی حاجت بھی پوری ہو اور اس کو خوب ثواب حاصل بھی ہو۔

۔٭ اگر کوئی شخص قیمت سے صدقۂ فطر ادا کرنا چاہتا ہے تو جہاں وہ شخص رہتا ہے وہیں کے اعتبار سے قیمت کا لحاظ ہوگا اور اگر وہ خود کسی اور جگہ رہتا ہے اور وہ کسی دوسری جگہ اس رقم کو بھیجنا چاہتا ہے اور دونوں جگہوں کی قیمت میں فرق ہے تو افضل یہ ہے کہ جس جگہ کی قیمت کا معیار زیادہ ہو اس لحاظ سے ادا کیا جائے اگرچہ اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ وہ کسی بھی مقام کے اعتبار سے ادائی کر دے۔ (فتاوٰی محمودیہ)

صدقۂ فطر کن لوگوں کو دیا جائے؟

 صدقۂ فطر کو اس کے صحیح شرعی مصرف میں لگانا صدقۂ فطر ادا کرنے والے کی شرعی ذمے داری ہے۔ صدقۂ فطر صرف ان غریبوں کو دیا جاسکتا ہے جنہیں زکوٰۃ دینا درست ہو یعنی جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر سونا، چاندی، نقدی رقم، مال تجارت، اور ضرورت سے زیادہ سامان نہ ہو تو اسے صدقۂ فطر دیا جاسکتا ہے۔

 ۔٭ جن لوگوں سے یہ پیدا ہوا جیسے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اور اسی طرح جو اس کی اولاد ہیں جیسے بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ ان کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں، اسی طرح بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو نہیں دے سکتا۔ ان کے علاوہ باقی سب رشتہ داروں کو دیا جاسکتا ہے جب کہ وہ مستحق ہوں۔

۔٭ ایک آدمی کا صدقۂ فطر کئی غریبوں کو اور کئی آدمیوں کا فطرانہ ایک غریب کو دینا جائز ہے۔

 ۔٭ مستحق غریب رشتے دار کو دینے کا دہرا ثواب ملتا ہے ایک صلۂ رحمی کا اور دوسرا ادائی کا۔

 ۔٭ زکوٰۃ اور دوسرے واجبات کی طرح اس صدقہ کے ادا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کسی غریب کو مالکانہ طور پر دیا جائے۔