پاکستان کا دوغلا کردار: اویغور مسلمانوں پر مظالم کے معاملہ میں چین کے ساتھ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-09-2022
 پاکستان کا دوغلا کردار:  اویغور مسلمانوں  پر مظالم کے معاملہ میں چین کے ساتھ
پاکستان کا دوغلا کردار: اویغور مسلمانوں پر مظالم کے معاملہ میں چین کے ساتھ

 

 

آواز دی وائس : نئی دہلی

لیجئے! اصلیت سامنے آگئی۔ چین میں اویغور مسلمانوں پر مظالم کی بین الاقوامی برادری  چیخ رہی ہے اور اقوام متحدہ نے اس کو نسل کشی قرار دیا ہے لیکن عالم اسلام  کی واحد نیوکلیائی طاقت  کے طور پر خود کو متعارف کرانے والا پاکستان  اویغور مسلمانوں کے تعلق سے چین کے اقدام کی سراہنا کی ہے۔ یہ ہے پاکستان کا اصل چہرہ۔ جو دنیا بھر میں کشمیر کے نام پر ڈھول پیٹ رہا ہے مگر چین کی سرزمین پر اویغوروں پر ڈھائے جارہے مظالم کو نہ دیکھ پا رہا ہے اور محسوس کر پا رہا ہے۔ جس وقت دنیا چین پر تنقید کررہی ہے اور اقوامم متحدہ نسل کشی کا اعتراف کررہا ہے تو پاکستان چین کے ’’ترقیاتی اقدام ‘‘ کی حمایت کررہا ہے۔

پاکستان کا یہ موقف چین کےسنکیانگ میں انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی رپورٹ کے رد عمل میں سامنے آیا ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ  ’’ پاکستان اویغور مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی ترقی، ہم آہنگی اور امن و استحکام کے لیے کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘‘۔

 پاکستان  کا یہ موقف یقینا حیران کن نہیں کیونکہ اس سے قبل سابق وزیر اعظم عمران خان نے بھی اویغور مسلمانوں  کے معاملہ میں زبان کھولنے کی ہمت نہیں کی تھی بلکہ ایک انٹرویو میں  اس کو چین کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا۔ اب نئی حکومت بھی  اسی طرح لاچار نظر آرہی ہے۔

 جس ملک کے پیٹ میں کشمیر کا درد رہتا ہے اور جو کشمیر کے نام پر دنیاکب گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا ہے ،اسے اقوام متحدہ کی رپورٹ سے بھی کوئی سروکار نہیں ،یہ پاکستان کے دوہرے شہرے کو عیاں کرتا ہے۔

 یقینا دنیا کے سامنے پاکستان کا یہ چہرہ نیا نہیں ہے ،اس نے ہمیشہ اس قسم کی پالسی اختیار کی ہے ۔ دنیا کے سامنے یہ بات عیاں ہے کہ برے حالات میں چین کے قرضے نے پاکستان کی نبض کو ڈوبنے سے بچایا ہے،امریکہ کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد پاکستان کے سامنے ایک ہی مسیا بچا ہے اور وہ چین ہے۔ اس صورت میں چین کے خلاف آواز بلند کرنا پاکستان کے بس میں نہیں ۔

 کیا ہے بیان

دراصل منگل کی صبح اسلام آباد میں پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار احمد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا کہ 'ہم (پاکستان) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نظام کے ساتھ ساتھ او آئی سی جنرل سیکرٹیریٹ کے ساتھ چین کی تعمیری اینگیجمنٹ کو سراہتے ہیں، جو انسانی حقوق کے سابق ہائی کمشنر اور او آئی سی کے وفد کے چین کے دوروں سے ظاہر ہوتا ہے۔'

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’چین نے گزشتہ 35 سالوں میں اپنی ستر کروڑ سے زیادہ آبادی کو غربت سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی، جس سے ان لوگوں کے حالات زندگی میں بہتری آئی ہے، اور وہ بنیادی انسانی حقوق سے مستفید ہوئے‘‘۔

عاصم افتخار کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ہمیشہ سے انسانی حقوق کے عالمی احترام کو فروغ دینے کے لیے انہیں غیر سیاسی اپروچ عالمگیریت، معروضیت، مکالمہ اور تعمیری مشغولیت کو اہم ہتھیار بنانے کی ضرورت پر زور دیتا رہا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے کثیر الجہتی عزم کے ساتھ پاکستان یو این کے چارٹر کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے، جس میں سیاسی آزادی، خودمختاری اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا احترام شامل ہے۔

بیان میں ترجمان عاصم افتخار احمد نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مطابق تمام انسانی حقوق کو عالمی سطح پر آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کے مستقل عزم کا اعادہ بھی کیا۔

 رپورٹ میں کیا تھا

اس سال اگست میں سبکدوش ہونے والی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے قبل چین کے صوبہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق پہلے سے تیار رپورٹ جاری کی تھی۔

رپورٹ میں ’انسداد دہشت گردی اور انسداد انتہا پسندی کی حکمت عملیوں کی آڑ میں‘ صدر شی جن پنگ کی حکومت پر سنکیانگ صوبے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ سنکیانگ کے اویغور مسلمانوں کے خلاف چینی حکومت کی غلط حرکتیں بین الاقوامی جرائم، خاص طور پر ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے نے چین کو مسلمان اقلیت سے تعلق رکھنے والے زیر حراست افراد کو آزاد کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

بیجنگ پر صوبہ سنکیانگ میں مسلمان اقلیت سے تعلق رکھنے والے لاکھوں اویغور باشندوں کو پیشہ ورانہ تعلیم کے تربیتی مراکز، جیلوں اور دوسرے حراستی مراکز آزادی سے محروم رکھنے کا الزام ہے۔

 چین کا موقف

رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اسے امریکہ اور مغرب میں موجود ’بعض چین مخالف قوتوں کی سازش‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ مکمل طور پر غیر قانونی اور غلط ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ 60 سے زائد ممالک نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کو ایک مشترکہ خط کے ذریعے اس ’جھوٹی رپورٹ‘ کے اجرا کی مخالفت کی تھی۔