ثاقب سلیم، نئی دہلی
سوبرس قبل اردو زبان کے معروف شاعر علامہ محمد اقبال نے کہا تھا:
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
میں اس رمضان کے اپنے تجربے کے بارے میں جو کچھ لکھنے جا رہا ہوں وہ اس شعر کی توثیق کے سوا کچھ نہیں۔ جب سوشل میڈیا ہندو مسلم نفرت کی داستانوں سے بھرا ہوا ہے اور دونوں طرف کے جنونی عناصر چاہتے ہیں کہ ہم ملک میں بسنے والی دو سب سے بڑی برادریوں کے درمیان دراڑ پر یقین کرلوں۔
تاہم اپنے تجربے کی بنیاد پر میں جو درست سمجھتا ہوں یا جو میری اخلاقی، سماجی اور ذمہ داری ہے کہ میں اپنے خیال کا کھل کر اظہار کروں۔
میں اپنی بیوی کے ساتھ جنوب مغربی دہلی میں ایک ایسے علاقے میں رہتا ہوں جہاں بہت کم مسلمان آباد ہیں۔ ہم اپنےراشن کا سامان مشرقی یو پی کے رہنے والے ایک برہمن دکان دار سے خریدتے ہیں۔ وہ برہمن دکان دار بی جے پی سپورٹر ہے۔(اگرچہ یہ حقیقت کچھ لوگوں کے لیے اہم ہے)۔
رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو چاند نظرآنے کے بعد میں دودھ لینے کے لیے مذکورہ دکان پر دیر شب گیا۔ بہت سے مسلمانوں کی طرح میں بھی دودھ سے بنی ہوئی کچھ چیزیں سحری کے وقت کھانے کو ترجیح دیتا ہوں۔ مگر وہاں ایک حادثہ ہوا۔ مذکورہ دکان دار نے مجھ کو بتایا کہ دودھ ختم ہو چکا ہے اور ہمارے علاقے کی تمام دکانیں بند ہو چکی ہیں۔
وہ اس وقت اپنی دکان کو بند کر رہا تھا کیوں کہ رات کافی ہوچکی تھی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہ کیا رمضان شروع ہو گیا ہے؟ جب اسے معلوم ہوگیا رمضان شروع ہوگیا ہے تو اس نے فوراً مجھ کو دودھ کی چارتھیلیاں (دو لٹر)سحری کے لیے پیش کش کر دیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دودھ انہوں نے خود اپنےاستعمال کے لیے بچاکر رکھی تھیں۔
یہ دودھ انہوں نے اپنے دو بچوں کے لیے بچاکررکھا تھا ۔ ان کی اہلیہ بھی وہاں موجود تھیں،ان کی منظوری کے بعد وہ دودھ مجھ کوسحری کے لیے دینےلگے۔اس وقت میرے لیےاسے یہ سمجھانا مشکل ہورہا تھا کہ میں سحری میں کچھ اور بھی کھا سکتا ہوں۔ اگرچہ وہ بعد کو میرے اصرار کے بعد دکان داردودھ اپنے گھر لے جانے پر راضی ہوگیا۔
تاہم میری تکلیف کےلیےکئی باراس دکان دارنےمعذرت کردی اوروعدہ کیا کہ رمضان میں وہ میرے لیے اضافی دودھ رکھیں گے چاہےمجھ کوکتنی ہی تاخیرہوجائے۔ پھر اس دکان دار نے اپنا وعدے عمل کیا۔ اگر یہ کافی نہیں تھا۔
اس دکان دار نے مجھ سےاور میری بیوی سے پوچھا کہ ہم لوگ اپنی افطاری کا انتظام کس طرح کر رہے ہیں۔ اور وہ اِس بات پروہ بضد ہوگئےکہ ان کے گھر کا بنا ہوا سامان افطاری میں کھاوں، جس میں پکوڑا، حلوہ، فروٹ چاٹ وغیرہ ہو۔
انہیں یہ سمجھانے میں سخت مشق کرنی پڑی کہ ہم لوگ خود سے بھی یہ سب افطاری بنا سکتے ہیں۔اس برہمن دکان دار نے اپنے دعوتاوں کی قسم کھاتے ہوئے بتایا کہ ان کے آبائی گاؤں میں ہندو اور مسلمان افطار اور سحری کرتے ہیں۔ نیز انہوں نے یہ بتایا کہ گاوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کو گائوں سے دودھ لینے میں ترجیح دی جاتی ہے۔
پرانی یادیں کو یاد کرتے ہوئےانہوں نے چند لوگوں کے نام بتائے، جن کے ساتھ وہ رمضان کے کھانے کا لطف کیا کرتے تھے۔آخر میں انہوں نے موجودہ سیاست کو لوگوں میں نفرت پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور امید ظاہر کی کہ جلد لوگوں کی سوچ بدل جائے گی۔
ایک اور موقع پر میں افطاری کے لیے پھل خرید رہا تھا جس کا بل 120 روپے تھا۔ جب میں نے بل ادا کیا تو پھل فروش نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اسے اپنے روزے کے لیے خرید رہا ہوں اور یہ جان کرکہ میں واقعی افطار کے لیے پھل خرید رہا میں ہوں۔ وہ بظاہر بہت نادم ہوا اور انہوں نے میرے بل میں سے 20 فصد رقم کم کردی۔
اس نوجوان ہندو لڑکے نے بتایا کہ وہ روزےداروں سے زیادہ منافع نہیں کماتا ہے۔ حالاں کہ مجھےانہیں یہ سمجھانے میں کافی کوشش کرنی پڑی کہ وہ پیسے واپس نہیں کرنی چاہئے۔ پھل فروش ایک ایک ہندو لڑکا تھا۔ میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں؟ کیونکہ جب میں مذہب کے نام پر لڑنے والوں کی خبریں دیکھتا ہوں تو میرا دل خون کےآنسو روتا ہے۔
میں بہت زیادہ حیران ہوں کہ کس قسم کے عفریت ہمیں تنگ مذہبی کیمپوں میں بانٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مذہب محبت پھیلانے کے لیے ہوتے ہیں اور مذہب کے نام پر نفرت کا کاروبار کرنے والےانسانیت اور ہندوستان دونوں کے دشمن ہیں۔ جیسا کہ ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا:
یہ دین کے تاجر، یہ وطن بیچنے والے
انسانوں کی لاشوں کے کفن بیچنے والے
یہ محلوں میں نہ بیٹھے ہوئے قاتل، یہ لٹیرے
کانٹوں کےعوض یہ روح چمن بیچنے والے
نوٹ: یہاں دکانداروں کے نام ان کی رازداری اور حفاظت کے پیش نظر پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔