میانمار میں فوجی بغاوت: جمہوری قدروں کا تحفظ ضروری

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 10-02-2021
 فوجی بغاوت کے بعد جمہوری حلقوں میں اضطراب
فوجی بغاوت کے بعد جمہوری حلقوں میں اضطراب

 

 سہیل انجم / نئی دہلی   suhail anjum

میانمار میں یکم فروی کو ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد جمہوری حلقوں میں اضطراب پایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ اور ہندوستان سمیت متعدد ممالک اور عالمی رہنماؤں نے اس پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور ملک میں جمہوریت کی پاسداری پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اینٹونیو گوتریز نے فوجی بغاوت کو جمہوری عمل کے لیے شدید دھچکہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے گرفتار افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائڈن نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے میانمار پر ایک بار پھر پابندیاں نافذ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عوامی خواہشات کو دبایا نہیں جا سکتا اور شفاف الیکشن کے نتائج کو طاقت کے ذریعے مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان نے بھی اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے او رکہا ہے کہ وہ میانمار میں ہمیشہ جمہوری عمل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ قانون کی حکمرانی اور جمہوری عمل کو بحال کیا جائے گا۔ ہندوستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ صورت حال پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے۔ برطانیہ نے اس کارروائی اور اسٹیٹ قونصلر آنگ سان سوچی کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ یوروپی یونین نے بھی اس اقدام کی پرزور الفاظ میں مذمت کی ہے۔

قارئین اس بات سے واقف ہوں گے کہ میانمار میں نومبر میں انتخابات ہوئے تھے۔ جن میں آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت ”نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی“ (این ایل ڈی) کامیاب ہوئی تھی اور اس کو 80 فیصد ووٹ ملے تھے۔ فوج کا الزام ہے کہ سوچی کی پارٹی نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے۔ یکم فروری کو پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس ہونے والا تھا جس میں نومنتخب ارکان کو حلف دلایا جانے والا تھا۔ لیکن اس سے قبل ہی علیٰ الصباح کو فوج نے سوچی کا تختہ پلٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ آنگ سان سوچی، صدر ون مینت اور متعدد ارکان پارلیمنٹ کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ آنگ سان سوچی پر انتخابات میں بدعنوانی کے علاوہ اپنے استعمال کے لیے غیر قانونی طور پر موصلاتی آلات جیسے کہ واکی ٹاکی وغیرہ رکھنے کا الزام بھی ہے۔ حالانکہ یہ کوئی ایسا جرم نہیں کہ اس کی وجہ سے کسی حکومت کا تختہ پلٹ دیا جائے۔ برطرف صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے انتخابات کے دوران کووڈ ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہجوم میں اپنے حامیوں سے ملاقات کی۔ یہ بھی کوئی ایسا سنگین جرم نہیں کہ اس کی وجہ سے ایک جمہوری حکومت کو برطرف کرکے فوج اقتدار سنبھال لے۔

یاد رہے کہ آنگ سانگ سوچی جنرل اونگ سنگ کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے میانمار کی جنگ آزادی لڑی تھی اور بڑی جدوجہد کے بعد اسے برطانوی استعمار سے نجات دلانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ آنگ سان سوچی 1988 میں برطانیہ سے میانمار واپس لوٹیں۔ اس وقت میانمار میں فوجی آمریت تھی۔ ان کے آتے ہی ملک میں جمہوریت کے حق میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے۔فوج نے عوامی احتجاج کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ اس آپریشن میں مبینہ طور پر ہزاروں افراد مارے گئے۔ سوچی نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک سیاسی جماعت ”نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی“ کی بنیاد رکھی۔ اس کے چند ماہ بعد ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ 1990 کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے کامیابی حاصل کی مگر انہیں اقتدار منتقل نہیں کیا گیا۔ اس طرح وہ پندرہ سال تک ہاوس اریسٹ رہیں۔ وہ میانمار کی ایک مقبول رہنما ہیں۔ انھیں میانمار میں جمہوریت کی علامت اور امن کا پیامبر سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے ملک سے فوجی حکومت کے خاتمے اور جمہوری حکومت کے قیام کے لیے برسوں جدوجہد کی۔ ان کی اسی جد وجہد کی وجہ سے انھیں نوبیل امن انعام سے نوازا گیا۔ وہ 2012 میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 2015 کے عام انتخابات میں ان کی پارٹی کو کامیابی ملی۔ لیکن یہیں ان سے ایک غلطی سرزد ہو گئی یا پھر حالات سے مجبور ہو کر انھوں نے یہ قدم اٹھایا۔ انتخابات کے بعد انھوں نے فوج کے ساتھ باقاعدہ اقتدار میں شراکت داری کا معاہدہ کر لیا۔ لیکن ان کے اقتدار میں آنے کے باوجود ملک کے حالات بہت زیادہ نہیں بدلے۔ عوامی آوازوں پر کسی حد تک پابندی لگی رہی۔ سیاسی قیدی اسی طرح جیلوں میں بند رہے اور صحافیوں پر تشدد ہوتا رہا۔

اسی درمیان رخائن صوبہ میں روہنگیا برادری کی مبینہ نسل کشی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لاکھوں روہنگیا رخائن میں اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ ان کی آبادیاں کی آبادیاں تباہ و برباد کر دی گئیں۔ فوجی اہلکاروں کی جانب سے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس کے خلاف پوری دنیا میں آوازیں بلند ہوئیں۔ اقوام متحدہ سمیت متعدد عالمی اداروں نے روہنگیا برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور ظلم و ستم کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن آنگ سان سوچی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے روہنگیا برادری کے خلاف فوجی کارروائیوں کو نسل کشی تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ انھوں نے روہنگیا معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ شاید اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے یہ ان کی مجبوری تھی۔ ان کے اس رویے پر دنیا کے امن پسند طبقات نے اظہار افسوس کیا۔ یہاں تک کہ ان سے نوبیل امن انعام واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ عالمی عدالت انصاف میں میانمار کے خلاف روہنگیا برادری کی نسل کشی کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔ سوچی نے عدالت انصاف میں اس معاملے میں میانمار حکومت کا دفاع کیا تھا۔

بہر حال آنگ سان سوچی نے 1989 سے 2010 تک یعنی پندرہ سال فوج کی حراست میں گزارے تھے۔ اب ایک بار پھر فوج نے انھیں حراست میں لے لیا ہے۔ فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک سال تک اقتدار میں رہے گی۔ لیکن اس کے بعد وہ اقتدار آنگ سان سوچی کی پارٹی کو منتقل کر دے گی اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ کیونکہ وہاں ایک عرصے تک فوج برسراقتدار رہی ہے اور ملکوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں ایک بار فوج اقتدار میں آجائے تو اسے حکومت کا چسکہ لگ جاتا ہے۔ وہ جلد بیرکوں میں واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے جو الزامات عاید کیے گئے ہیں سیاسی مشاہدین کے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور پھر ان الزامات میں صداقت ہے یا نہیں یہ کون طے کرے گا۔ اگر ان پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام ہے تو آزادانہ ایجنسی سے اس کی جانچ کرائی جا سکتی تھی۔ ان کا تختہ پلٹنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس فوجی بغاوت کے خلاف جہاں دوسرے ملکوں نے اظہار تشویش کیا ہے وہیں خود میانمار میں عوامی احتجاج تیز ہوتا جا رہا ہے۔ اگر چہ فوج انٹرنیٹ خدمات پر پابندی لگا کر اور بعض شہروں میں مارشل لا نافذ کرکے اس احتجاج کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہو جائے گی یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ کیونکہ جس طرح عوام سڑکوں پر نکل پڑے ہیں اس کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ عوامی جذبات و احساسات کو دبانا آسان نہیں ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوامی اضطراب آتش فشاں بن جائے۔ لہٰذا فوج کو چاہیے کہ وہ وہاں جمہوریت بحال کرے اور منتخب حکومت کو اپنا کام کرنے کا موقع دے۔ آج جو عالمی نظام تشکیل پا رہا ہے اس میں آمریت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔