یادیں : عرفان ہونے کا مطلب

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 29-04-2021
عرفان  خان
عرفان خان

 

 

منجیت ٹھاکر / نئی دہلی

جیاں گوڈار کو عالمی سنیما میں کون نہیں جانتا؟ 1960 میں ریلیز ہونے والی فرانسیسی فلم بریڈلیس میں ان کا  ایک ڈائلاگ ہے "زندگی میں آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟" "امر بننے کی ... اور پھر مر جانے کی "۔

یہ ڈائلاگ ہندوستان کے سب سے نمایاں اداکار عرفان خان کی شخصیت پر مکمل طور پر صادق آتا ہے۔

عرفان کہاں سے چلے تھے ؟ آپ کو یاد ہے آپ نے انہیں پہلی دفعہ کہاں دیکھا تھا؟ آپ ڈاکٹر چندر پرکاش دوویدی کے ٹی وی سیریل 'چاننکیا' کا نام لیں گے جس میں وہ سیناپتی بھدربھاھو کے روپ میں نظر آئے تھے یا آپ کو نیرجا گلری کی مقبول سیریز 'چندرکانتآ ' یاد ہوسکتی ہے جس میں وہ دوہرے کردار میں تھے۔

تاہم عرفان اس سے پہلے بھی پردے پر نمودار ہوئے تھے۔ سن 1987 میں عرفان نے نیشنل ڈرامہ اسکول سے فراغت اختیار کی اور میرا نائر کی فلم 'سلام بامبے ' میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا ، یہ اور بات ہے کہ فائنل کٹ میں ان کے چھوٹے سے کردار پر بھی کینچی چل گئی ۔ وہ زمانہ دوردرشن کا تھا ، عرفان کام کی تلاش میں تھے ، تب ایک روسی مصنف میخائل شتروف کے اس ڈرامے کا ادی پرکاش نے ہندی میں ترجمہ کیا تھا جس کا نام تھا ، 'بلیو ہارس آن ریڈ گراس' اور عرفان خان لینن بنے ۔ کچھ مہینوں کے بعد ڈی ڈی پر ایک سیریل 'ڈر' نشر ہوا جس میں انہوں نے ذہنی طور پر غیر مستحکم قاتل کا کردار ادا کیا اور مرکزی ولن بنے ۔

ان دنوں ، ساس بہو کے ڈرامے ٹی وی پر مقبول نہیں تھے اور ٹی وی پر مواد مناسب طریقے سے پیش کیا جاتا تھا۔ اس میں مشہور شاعر علی سردار جعفری نے 'کہکشاں ' کے نام سے ایک سیریل بنایا اور عرفان خان اردو شاعر اور مارکسی کارکن مخدوم محی الدین کے کردار میں نظر آئے۔ نوے کی دہائی میں ، چانککیا ، بھارت ایک کھوج ، سارہ جہاں ہمارا ، بنے گی اپنی بات ، چندرکنتا ، سری کانت ، انو گنجو جیسے سیریل میں نظر آتے رہے۔

تاہم یہ امر ہونے کے لئے صرف ایک چھوٹا سا قدم تھا۔ لافانی ہونا اتنا آسان نہیں۔ لیکن نوے کی دہائی سے لے کر 2020 تک ، یہ اداکار اسٹار بھی بن گیا۔ لافانی بھی۔ جس کی نظر میں ایسا حیرت انگیز جلوا تھا کہ جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ عرفان کی آنکھیں بولتی ہیں تو پھر یہ تعریف بہت چھوٹی لگتی ہے۔ عرفان بین الاقوامی اسٹار بن گیۓ ، جس کے سامنے شاہ رخ کا قد چھوٹا ہونا شروع ہوا۔ آپ 'لائف آف پائی' یاد کریں ، آپ 'امیزنگ اسپائیڈرمین' یاد کریں, آپ 'سلم ڈگ ملنیئر' یاد کریں جس نے آسکر میں جھنڈے گاڑے تھے۔

بہرحال کیا جے پور میں اپنے دقیانوس گھرانے سے بھاگ کر دہلی کے این ایس ڈی تک پہنچنے والے عرفان کے لئے امر ہونے کی تعریف یہی رہی ہوگی ؟ جس شخص نے فلموں میں کام حاصل کرنے کے لئے ٹی وی اداکار مکیش کھنا سے مشورہ کیا تھا اس کے لئے کامیابی کا پیمانہ کیا رہا ہوگا ؟ بعدازاں انڈیا ٹوڈے میگزین میں کاویری بامزائی کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں عرفان نے کہا تھا کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ جو کچھ کر رہے ہو اسے جاری رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایک دن آپ ٹی وی سے بڑے ہوجائیں گے۔

کھنا کے اس مشورے کے وقت تک عرفان نے 'بنے گی آپ بات' کی 200 اقساط مکمل کی تھیں اور یہ سیریل 1994 سے 1998 کے درمیان نشر ہوتا رہا ۔ عرفان 'چندرکانتا ' کی کئی اقساط میں اور 'اسٹار بیسٹ سیلرز' میں بھی نمودار ہو چکے ہیں ۔ عرفان نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ میں بور ہو رہا تھا۔ میں اپنی نوکری چھوڑنے کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔

تب آصف کپاڑیا کی نظر ان پر پڑی۔ اور 2001 میں ریلیز ہونے والی برطانوی فلم دی واریر ، جس نے عرفان کو بین الاقوامی شہرت بخشی اور ان کی صلاحیتوں نے بین الاقوامی فلم بینوں کی توجہ مبذول کرلی۔ مائیکل ونٹربٹوم نے انہیں 2007 میں 'اے مائٹی ہارٹ' میں بطور پاکستانی پولیس مین کاسٹ کیا اور ویس اینڈرسن نے 'دارجیلنگ لمیٹڈ' میں ان کے لئے ایک خاص چھوٹا کردار لکھا تاکہ وہ مل کر کام کرسکیں۔

تو کیا اتنے سارے سفر میں انہیں وہ کامیابی مل گئی جس کا تذکرہ 'بریڈلیس' کے ڈائلاگ میں کیا گیا ہے؟

نہیں

عرفان ایک قابل اعتماد اداکار بننا چاہتے تھے۔ سفر باقی تھا۔ تاکہ لوگوں کو ان کی فلم ریلیز کرتے وقت سوچنے کی ضرورت نہ پڑے۔

این ایس ڈی میں انہیں سکھایا گیا تھا کہ ہمت بہت ضروری ہے۔ عرفان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ایک اداکار کا ہمت کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ لیکن اس کے بعد وشال بھاردواج کی فلم 'سات خون معاف ' آیی جس میں عرفان نے اپنے اداس شاعر کے کردار کو قدرے تبدیل کیا ، تھوڑا سا عورت کی طرح۔ سر ہلانا اور ہاتھ جھٹکنے کی ادائیں ڈالیں ۔ یہ این ایس ڈی میں انکو سکھائے گیے ہمت کے پاتھ کا اثر تھا ۔

اور پھر ایک اور مہم جوئی کی بات ہوئی۔ وشال بھردواج نے انہیں 2003 میں 'مقبول' میں ایک رومانوی کردار دیا تھا۔ یہ بھی ہمت تھی۔ اور اس کے ساتھ ہی عرفان کمرشل سنیما میں نئے کردار بناتے رہے ، پہلے ولن کے ذریعہ اور بعد میں 'ہندی میڈیم' کے ذریعے اور کبھی کبھی 'انگلش میڈیم' کے توسط سے۔ اس عرصے کے دوران ، وہ پان سنگھ تومر ، پیکو ، قریب قریب سنگل ، لائف ان میٹرو جیسی فلموں میں نظر آتے رہے۔

پھر جیسے ہی عرفان کے نام کا ذکر آتا ہے تو ہمارے سامنے اس اداکار کی تصویر ابھرتی ہے جس نے اداکاری کے دوران اپنے پٹھوں کو ایک ملی میٹر تک بھی بلا وجہ حرکت نہیں دی ، جس نے اپنے پٹھوں پر زبردست کنٹرول حاصل کیا تھا اور جس نے کبھی ڈرامائی انداز میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کیا ۔ تب میرے ایک سنیما دوست وکاس سراٹھی نے مجھے بتایا تھا کہ جیسے ہی یہ نام لینے پر ذہن میں اس طرح کی تصویر  سامنے آ جائے تو یہی امر ہے ، لافانی ہے۔ عرفان نے لافانی حیثیت حاصل کی اور پھر اس کا جسم ایک اور دائمی سفر پر گامزن ہوا۔