مولانا آزاد: فہم و ادراک کے انفرادی پہلو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 19-02-2021
کانگریس کے بڑے لوگوں میں آزاد واحد شخص تھے جن میں مہاتما گاندھی سے کھلے عام اختلاف رائے کی جرأت تھی
کانگریس کے بڑے لوگوں میں آزاد واحد شخص تھے جن میں مہاتما گاندھی سے کھلے عام اختلاف رائے کی جرأت تھی

 

 

  یوم وفات پرخصوصی پیشکش

      پروفیسر اختر الواسع   ak

مولانا ابوالکام آزاد بہ یک وقت ایک بے پناہ عالم دین، دیدہ ور اور نکتہ رس مفسر قرآن، انسان شناس مفکر، سماجی و سیاسی ادراک کے منتہی، نہایت جری و بے باک صحافی، عربی و فارسی شعر و ادب کے پارکھ، اردو کے منفرد انشاء پرداز، سحر طراز خطیب، سیاست داں مدبر، منتظم، ادارہ ساز اور سب سے بڑھ کر نفیس ترین انسانی و اخلاقی اقدار کی حامل ایک ایسی تہذیبی شخصیت تھے جسے قدرت کی طرف سے اشیا اور افکار و حالات کی ماہیت کی گہرائیوں تک نہایت برق رفتاری سے پہنچ سکنے والی نورانی ذہانت اور بصیرت بخشی گئی تھی۔ ان کی عبقری شخصیت کے ان تمام پہلوؤں پر الگ الگ اور مجموعی اعتبار سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔

یہاں ہمارا مقصداس تمام وسعت کا احاطہ کرنا نہیں ہے۔ ہماری دلچسپی یہاں مولانا آزاد کی تخلیقی انفرادیت اور حرکی توانائی کے اس وفور سے ہے جو بہت کم عمری میں ہی ان کی ذات کے آئینے میں منعکس ہونے لگی تھی اور جس نے ان کے زمیں گیر اور آسماں پیماتخیل اور دانش کو فکر و عمل کے ان سانچوں میں ڈھالا جن کی یکجائی کو آج ہم مولانا ابو الکلام آزاد کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک نہایت کرب ناک روحانی جستجو کے انجام پر آزاد نے اسلام پر اپنے عقیدے کے جس روحانی موقف پر قیام کیا اس پر وہ تادم آخر برقرار رہے کیوں کہ اب یہ ان کے اپنے وجود کی بنیادی شرط بن چکا تھا۔

اس عقیدے کی روشنی میں انہوں نے اسلام کے قرون اولیٰ کی وہ تاب ناک تصویر دیکھی جس کی آنچ نے انسانوں کو دوسرے انسانوں کی غلامی کی زنجیر کو پگھلا کر ایک ایسی آزادی کا پیغام دیا تھا جو اپنے رب کے سوا کسی اورکی محکومی قبول نہیں کر سکتی اور جس کے نور میں تمام انسان ایک کنبے کے افراد بن گئے۔ وحدت الٰہ اور وحدت انسان پر اسی گہرے ایمان کی روشنی میں مولانا آزاد نے ہندوستان کی متحدہ قومیت پر یقین کا اپنا وہ مذہبی اور سیاسی موقف حاصل کیا جو ایک مدبّر اور قومی سیاسی داں کی حیثیت سے ان کی شناخت کا محور بن گیا۔

ان کے لفظوں میں ”میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں، میں تیار نہیں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا عنصر ہوں۔ اس متحدہ قومیت کا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں اس کی تکوین کا ایک ناگزیر عامل ہوں ……میں اپنے اس دعوے سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا“۔ اپنے اسی مذہبی اور سیاسی موقف کی بنیاد پر مولانا آزاد نے 1908ء میں، جب وہ صرف 20 سال کے تھے، مسلم لیگ کے خلاف ایک مضبوط رائے قائم کی جس کی صحت آج پاکستان کے قیام کے 73 سال بعد بھی برقرار ہے۔

مسلم لیگ کے قیام کے صرف دو سال بعد(1908ء میں) ایک گفتگو کے دوران آزاد نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا تھا”ہر چیز لائق تسلیم ہے سوائے مسلم لیگ کے“۔ بعد کی تاریخ نے ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے شور شرابے کے باوجود ان کی یہ تحریر ہی در اصل دیوار کی تحریرتھی جس سے ظاہر ہوا کہ ملک کی تقسیم برصغیر کے مسلمانوں کی کتنی بڑی شکست تھی۔

انہوں نے واضح لفظوں میں اس حقیقت کا اعادہ کچھ یوں کیا: ”اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے تو پاکستان کی اصطلاح ہی متضاد معلوم ہو تی ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک ہیں اور دوسرے ناپاک۔ پاک اور ناپاکی کی یہ ارضی تقسیم نہ صرف یہ کہ غیر اسلامی ہے بلکہ اسلام کی روح کے منافی بھی۔ اسلام کسی ایسی تقسیم کو تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ خود پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ خدا نے پوری دنیا کو میرے لیے مسجد بنا دیا ہے۔مزید برآں پاکستان کی تجویز شکست خوردگی کی علامت نظر آتی ہے اور ایک قومی وطن کے قیام کے متعلق یہودیوں کے مطالبے سے مماثلت رکھتی ہے، یہ اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان پورے ہندوستان پر اپنا حق نہ سمجھ کر محض اس کے ایک گوشے میں خود کو محدود کرکے مطمئن ہوجانا چاہتے ہیں ……“۔

کانگریس میں بھی مولانا آزاد اپنی تمام تر انفرادیت اور اپنی مخصوص تہذیبی شناخت کے ساتھ رہے۔ کانگریس کے بڑے لوگوں میں آزاد واحد شخص تھے جن میں مہاتما گاندھی سے کھلے عام اختلاف رائے کی جرأت تھی۔ 1940ء میں جب مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے دوسری عالمی جنگ میں حکومت کے ساتھ اشتراک و تعاون کے سوال پر مہاتما گاندھی کے ساتھ ان کا شدید اختلاف رائے سامنے آیا اور اگرچہ گاندھی جی اس معاملے میں بالآخر غالب آئے مگر مولانا بھی اپنے موقف پر اٹل رہے۔ لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے اجتماعی فیصلے کا احترام کیا۔

مولانا در اصل شعر و ادب اور فلسفے کے آدمی تھے مگرانہیں وقت کی مصلحتیں سیاست کے خارزار میں لے آئیں۔ اس کے باوجود ان کے اندر کا شاعر اور فلسفیانہ تخیل طراز ذہن اور ان کے احساسات و جذبات کی ہوش ربا کلکاریوں سے روشن روح کبھی سرد نہیں ہوئی۔ ان کے اندر کاا لاؤ ہمیشہ دہکتا رہا۔’غبار خاطر‘ ہی میں ایک خط میں انہوں نے اپنی اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے کہ ”در اصل میں صرف گرمی ہی کے لیے آتش دان کا شیدائی نہیں ہوں۔ مجھے شعلوں کا منظر چاہئے۔ جب تک شعلے بھڑکتے نظر نہ آئیں دل کی پیاس نہیں بجھتی۔ بے دردوں کو جو دل کی جگہ برف کی سل سینے میں چھپائے پھرتے ہیں ان معاملات کی کیا خبر……“۔مولانا کا روحانی منظر نامہ اسی آتش دان اور انہی لپکتے ہوئے شعلوں سے عبارت ہے۔

(مصنف مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور، راجستھان کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)