مولانا آزاداوراروند گھوش کے انوکھے رشتے کی کہانی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-11-2021
مولانا ابوالکلام آزاداورسری اروند گھوش
مولانا ابوالکلام آزاداورسری اروند گھوش

 

 

awaz

ثاقب سلیم،نئی دہلی

پوری انسانی تاریخ میں حکمرانوں نے لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کرکے سیاسی طاقت کو کنٹرول کیا ہے۔ وہ جتنے مؤثر طریقے سے تقسیم کرتے تھے، سیاست پران کا کنٹرول اتنا ہی مضبوط ہوتا تھا۔

ہندوستان پر حکومت کرنے والے انگریز لوگوں کو تقسیم کرنے میں ماہر تھے۔ دو صدیوں تک اپنی حکومت کے دوران انہوں نے ہندوستان کو مذہب، ذات، زبان اور رنگ ونسل کے درمیان تقسیم کیا۔

تاہم میں یہاں یہ بحث کرنے کی کوشش نہیں کررہا ہوں کہ اس قسم کےگروہ پہلے سےموجود نہیں تھےاگرچہ وہ اتنے مضبوط نہیں تھے۔

جب ہم 'مولانا' کوابوالکلام آزاد کے نام سے پہلے دیکھتے ہیں توموجودہ سیاست کے بارے میں ہماری سمجھ کے مطابق، داڑھی والے مسلمان عدم برداشت کی تصویر ہمارے ذہن میں گھومتی ہے اور اروبندو گھوش ایک راسخ العقیدہ ہندو رہنما کا تاثر پیدا کرتے ہیں۔

ہمیں ہندوستانی قومی تحریک کی تاریخ اور موجودہ سماجی ڈھانچے کے بارے میں یہی دیکھنے کا یہی زاویہ سکھایا گیا ہے۔

موجودہ دورکےمغرب زدہ ذہنوں کےمطابق لوگ یا توہندوہیں یامسلمان، وہ ہندوستانی نہیں ہو سکتے۔

اب اگرمیں آپ کو بتاؤں کہ قیاس آرائی کے طور پر ایک ہندوقوم پرست اروند گھوش وہ شخص تھے،جنھوں نےآزادی ہند کی طرف مولاناابوالکلام آزاد کو راغب کیا، یہاں تک کہ وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ تاہم یہ سچ ہے۔

مولانا ابوالکلام آزاد کا تعلق ایک راسخ العقیدہ مسلمان گھرانےسےتھا۔ان کے والد مولانا خیرالدین ایک ناموراسلامی اسکالرتھےاوردنیابھرمیں ان کا احترام کیاجاتا تھا۔ آزاد نے اپنےوالد کی رہنمائی میں گھر پر فارسی، عربی، اسلامی علوم اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔

مولانا ابوالکلام آزاد 16 سال کی عمر میں ایک مستندعالم دین بن چکے تھے،انہوں نے مسلمانوں میں موجود مروجہ پرانی روایات ورسومات پرتنقید کی۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب انہوں نے ان مسائل پرغورکرنا شروع کیا اوراپنے والد کےمذہبی اورسماجی نظریات کے پرانے بندھنوں سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔

انہوں 'آزاد' کو قلمی نام کے طور پر اپنانا یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ دقیانوسی روایات کی سرعام مذمت کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔

آزاد کولکاتہ میں رہا کرتے تھے۔ اس وقت بنگال کی تقسیم کی وجہ سے پورا بنگال انگریز مخالف جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ یہ 1905 کا زمانہ تھا۔ جب کہ بنگال میں مسلح انقلابیوں کا ایک طبقہ جوگانتر(Jugantar)اورانشیلان سمیتی(Anushilan Samiti) جیسی خفیہ تنظیموں کے جھنڈے تلے غیر ملکی حکمرانوں سے لڑ رہا تھا۔

اس انقلابی گروہ کی قیادت اروبند گھوش جیسے رہنما کر رہے تھے، وہ ہندو تھے اور ’مسلم مخالف‘ سوچ رکھتےتھے۔ مولاناابوالکلام آزاد کے الفاظ میں'اس وقت تمام انقلابی گروہ سرگرم طور پر مسلم مخالف تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ برطانوی حکومت مسلمانوں کو ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور مسلمان حکومت کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

مشرقی بنگال ایک الگ صوبہ بن گیا تھا اور بام فیلڈ فلر(Bamfield Fuller) اس وقت بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر(Lieutenant-Governor)تھے۔ وہ کھلےعام کہہ رہے تھے کہ حکومت 'مسلم کمیونٹی' کو اپنی 'پسندیدہ بیوی' کے طور پر دیکھتی ہے۔ انقلابیوں نے محسوس کیا کہ مسلمان ہندوستان کی آزادی کے حصول میں ایک رکاوٹ ہیں اور دیگر رکاوٹوں کی طرح انہیں بھی ہٹایا جانا چاہیے۔

آزاد کولکاتہ میں رہا کرتے تھے۔ اس وقت بنگال کی تقسیم کی وجہ سے پورا بنگال انگریز مخالف جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ آزاد کا یہ ماننا تھا کہ انگریزوں نے یوپی سے مسلمان افسروں کو انقلابیوں کے خلاف کارروائی کے لیے درآمد کیا تاکہ یہ تاثر گہرا ہوجائے کہ مسلمان قومی جدوجہد کے خلاف ہیں۔

دریں اثنا ان کی ملاقات شیام سندر چکرورتی سے ہوئی، جو ایک مشہور انقلابی اور اروند گھوش کے قریبی ساتھی تھے۔

آزاد کی چکرورتی سے دوستی ہو گئی، جو انہیں اروند گھوش کے پاس لے گئے۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ کچھ ایسا نکلا جس نے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا رخ موڑ دیا اور قوم کو اس کا ایک نامور خادم عطا کیا۔

اروند گھوش سے متاثر ہو کر مولانا ابوالکلام آزاد جو کہ ایک اسلامی سکالر تھے،ایک مسلح انقلابی گروہ میں شامل ہو گئے۔

آزاد نے لکھا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ میں شری اروند گھوش سے دو یا تین بارملا۔ تاہم اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں انقلابی سیاست کی طرف راغب ہوا اور اس گروہ میں شامل ہو گیا۔

آزاد نے لکھا کہ شروع میں ان انقلابیوں کو شک تھا کہ ان کی صفوں میں ایک مسلمان شامل ہو رہا ہےمگر جلد ہی وہ یہ سمجھ گئےکہ چند ایک کے علاوہ ہندوستانی مسلمان بھی اتنے ہی انگریز مخالف ہیں جتنے ہندو تھے۔

جلد ہی بہت سے دوسرے مسلمان آزاد کے زیر اثران مسلح انقلابی گروہوں میں شامل ہو گئے۔ یہ تنظیمیں اس وقت تک صوبہ بنگال تک محدود تھیں۔ آزاد کی کوششوں سے ان تنظیموں نے یو پی، مہاراشٹر، گجرات اور دیگر صوبوں میں بھی پھیل گئیں۔

اسی دوران آزاد نے مختلف ممالک کا دورہ کیا اور ہندوستانی قومی تحریک کے حق میں بین الاقوامی رائے عامہ تشکیل دی۔ 1912 میں انہوں نے اردو کے قارئین میں قوم پرستی کے پیغام کو مقبول بنانے کے لیے ایک اردو ہفتہ وار اخبار 'الہلال' شروع کیا۔

اس پرانگریزحکومت نے پابندی لگا دی گئی اوراس کا پرنٹنگ پریس ضبط کر لیا گیا۔ سی آئی ڈی نے رپورٹ کیا کہ کولکاتہ میں آزاد کی طرف سے قائم کردہ الہلال اور مدرسہ برطانوی سلطنت کے لیے خطرناک ہے۔

آزاد نےمسلمانوں کا ایک انقلابی گروہ 'حزب اللہ' قائم کیا، جن میں زیادہ تر بنگالی تھے۔ سی آئی ڈی کے مطابق اس گروہ کے کم از کم 1700 ارکان تھے جنہوں نے آزادی کی خاطر جان دینے کا حلف اٹھایا تھا۔

آزاد کو پہلی جنگ عظیم کے دوران قید کیا گیا تھا کیونکہ وہ ’سلطنت کے خلاف جنگ چھیڑنے‘ کی سازش کر رہے تھے۔

سن 1920 میں اپنی رہائی کے بعد انہوں نے جدوجہد آزادی کی طرف عدم تشدد کا طریقہ اپنایا۔ ان کا ماننا تھا کہ قوم مسلح جدوجہد کے لیے تیار نہیں ہے۔

لہٰذا عدم تشدد کی جدوجہد بہترین دکھ رہی تھی۔ آزاد نے لکھا کہ میرے لیے عدم تشدد پالیسی کا معاملہ تھا، مسلک کا نہیں۔ میرا خیال تھا کہ ہندوستانیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہیں تو تلوار اٹھا سکتے ہیں لیکن ملک میں جو حالات ہیں ان میں گاندھی کا طریقہ درست تھا۔اس لیےہم نےحالات کےتحت عدم تشدد کوآزادی کے لیے اپنا ہتھیار بنایا ہے۔ یہ میرے لیے اور بہت سے دوسرے ہندوستانیوں کے لیے مذہب کا معاملہ نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر جنگ لڑ کر آزادی مل سکتی ہے تو ہم جنگ میں ضرور حصہ لیں گے۔

اس دور میں جب تاریخ کو تنگ نظر سیاسی مفادات کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے، ہمیں ہندوستان، ہندوستانیت اور اتحاد کو دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ وہ ہندوستان ہے جہاں ایک مذہبی ہندو نے مولانا کو قومی تحریک میں شمولیت کی شروعات کرائی تھی۔ آئیے ہم ہندوستانی سیاست کو قومی دھارے میں واپس لائیں اور فرقہ وارانہ مفادات کو شکست دیں۔