حضرت نظام الدین اولیاکے عرس کے موقع پر خاص
خالد بہزاد ہاشمی
حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء سلسلہ چشتیہ کے چوتھے ماہ تاباں ہیں جو دلی کو اپنی روحانی کرنوں سے روشن و منور کر رہے ہیں انہیں پاکپتن شریف کے درویش اور ان کے مرشد شیخ العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر نے خلافت عطا فرمائی تھی جب کہ حضرت بابا جی کو ان کے مرشد اور دہلی میں آسودہ خواب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے خلافت مرحمت فرمائی جب کہ حضرت خواجہ قطب صاحب کو حضرت خواجہ غریب نواز، سلطان الہند، بزرگ خواجہ، خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے خلافت کا تاج عطا فرمایا تھا۔
حضرت محبوب الٰہی بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور نانا سید علی اور سید عرب دونوں بھائی بخارا میں میں مقیم تھے اور مغلوں کے حملے میں ہجرت کرکے لاہور آگئے اور یہیں حضرت خواجہ سید علی کے ہاں صاحبزادے سید احمد اور حضرت خواجہ سید عرب کے ہاں صاحبزادی زلیخا پیدا ہوئیں بعدازاں سایہ خاندان بدایوں آباد ہوگیا اور وہیں سید احمد اور بی بی زلیخا کی شادی ہوئی جن سے سید محمد پیدا ہوئے جو سطان المشائخ، محبوب الٰہی، سلطان جی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے نام سے مشہور ہیں آپ پانچ برس کی عمر میں یتیم ہوئے، والدہ نے جس طرح سے آپ کی تعلیم و تربیت کی وہ آج کی مائوں کے لئے روشن مثال ہے۔
دہلی میں حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے بھائی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رہتے تھے آپ کی والدہ نے آپ کو اس کے پاس بھیجا جنہوں نے انہیں اپنے بھائی شیخ العالم حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر کے پاس اجودھن و پاکپتن شریف بھیجا یہ حضرت بابا جی کے روحانی کمالات میں سب سے بڑا کمال حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء ہیں جنہوں نے ہندوستان کو نورولایت سے منور فرما کر رشد و ہدایت کا ذریعہ بنایا اور تاج کرامت آپ کے سر پرانوار پر رکھا۔ یہ حضرت بابا جی کی دعا کا فیض تھا کہ انہوں نے حق تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ تو جو خدا سے چاہے گا وہ پائے گا حضرت بابا جی نے ان کے لنگر میں روزانہ ستر من نمک استعمال ہونے کی دعا دی تھی ان دنوں ایک من چالیس سیر کی بجائے بارہ تیرہ سیر کے برابر ہوتا تھا اور پھر ایک عالم نے دیکھا کہ حضرت بابا جی کی یہ دعا کیسے پوری ہوئی۔
حضرت محبوب الٰہی کو شب عبادت میں حق تعالیٰ نے یہ دکھا دیا تھا کہ نظام جس مومن نے تیری زیارت کی یا کرے گا۔ ہم اسے بخش دیں گے تیرہویں صدی کے آخر اور چودھویں صدی کے اوائل کی دہلی میں آپ سے سے منفرد کردار کے حامل ہیں آپ کو سلسلہ چشتیہ کے عدم تشدد کے تصور کو ثقافتی مذہبی رواداری اور امن پسندی کی شکل دینے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دور میں درجن بھر بادشاہ آئے لیکن ولی کے اس روحانی سلطان اور امن کار نے شہنشاہوں اور بادشاہوں کی توسیع پسندانہ پالیسی کا ساتھ دینے سے مکمل انکار کیا اور کبھی کسی بادشاہ کے دربار میں(ماسوائے سماع پر مناظرہ کے) کبھی حاضر نہ ہوئے۔
ایک محبوب سبحانی دوسرا محبوب الٰہی
ایک کا لنگر اہلِ بغداد اور دوسرے کا اہلِ دہلی تناول کرتے
آپ کے سالانہ مبارک کی تقریبات سے قبل حضرت غوث الاعظم محبوب سبحانی، شیخ عبدالقادر جیلانی کے سالانہ عرس مبارک کی تقریبات کا آغاز درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء پر باتزک و احتشام شروع ہو جاتا ہے اور بستی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء بقۂ نور بن جاتی ہے۔ یہ بھی کیا خوبصورت حسنِ اتفاق اور قدر مشترک ہے کہ ان میں سے ایک محبوب سبحانی اور دوسرا محبوب الٰہی ہے۔ ایک کا لنگر پورا بغداد شریف اور گردو نواح کے لوگ اور دوسرے کا لنگر پوری دہلی تناول کرتی تھی اور دونوں کا روحانی فیض صدیوں بعد بھی اسی طرح جاری و ساری ہے۔
شیخ فرید کی قسم
حضرت محبوب الٰہی فرماتے ہیں کہ ایک شخص جو مختلف بزرگوں کا تذکرہ کر رہا تھا تو وہ مرید ہونے کے لئے حاضر ہوئے۔ دوسرے واقعات کے علاوہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کا ذکر کرنے لگا تو خود بخود ان کے دل میں ان کی عقیدت بڑھتی ہی چل گئی اور یہ عقیدت اتنی بڑھی کہ ہر نماز کے بعد حضرت دس دفعہ شیخ فرید اور دس دفعہ مولانا فرید کہا کرتے، دوست احباب کو بھی اس عقیدت اور محبت کا پتہ چل گیا تھا۔ جب کبھی قسم کھانے کا موقع آتا تو دوست ان سے کہا کرتے کہ شیخ فرید کی قسم کھائو۔ یہ جان کر ان کے دل میں بابا صاحب کی محبت اور بھی پکی ہوگئی۔
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
جب حضرت محبوب الٰہی اجودھن پہنچے ہیں تو حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر انہیں دیکھ کر یہ شہرہ آفاق شعر پڑھتے ہیں۔
اے آتش فراقت دلہا کباب کردہ
سیلاب اشتیاقت جانہا خراب کردہ
(تیری جدائی کی آگ نے بہت دلوں کو کباب کر رکھا تھا اور تیرے اشتیاق کے سیلاب نے بہت سی جانوں کو خراب کر رکھا تھا) بعدازاں حضرت بابا جی نے اپنے داماد اور خلیفہ حضرت بدرالدین اسحاق جن کا تعلق بھی دلی سے تھا حضرت نظام الدین اولیاء کو ان کا مہمان بنایا اور پیر کے ادب و آداب سکھانے کی ہدایت فرمائی۔ حضرت بدر الدین اسحاق حضرت خواجہ حسن نظامی کی فیملی اور موجودہ دیوان و سجادہ نشین سید طاہر نظامی کے جدامجد اور حضرت محبوب الٰہی کے تعلیمی مرشد بھی ہیں۔
چشم حیراں ہے
حضرت نظام الدین اولیاء حضرت شیخ العالم
حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کی زیارت کے لئے اجودھن پہنچتے ہیں تو حضرت بابا فرید گنج شکر نو عمر نظام الدین کو دیکھتے ہی بے اختیار کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ کو سینے سے لگاتے ہیں جہاں تمام درویش اور مریدین حیران وہیں چشم فلک بھی محو حیرت ہے لیکن ابھی مزید حیرانی باقی ہے شب ہوتی ہے خانقاہ فرید پر سینکڑوں درویش، خدام فرش اور چٹائیوں پر محو خواب ہیں اور حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے حکم سے نو عمر نظام الدین کے لئے چار پائی کا اہتمام ہوتا ہے لیکن حیرانی ابھی باقی ہے حضرت بابا فرید گنج شکر انہیں بیعت کرتے ہیں لیکن ان کی نکلتی رنگت پر خوبصورت گھنگریالے بالوں کو منڈوانے سے مستثنی قرار دیتے ہیں۔
نظام الدین کا احترام کرنے والوں پر خدا کی رحمت
اب حضرت شیخ العالم بابا فرید گنج شکر کا حضرت نظام الدین اولیاء پر اعتماد اور ان کی جملہ خوبیوں پر ان کی نظر کرم واضح ہو، جب انہیں خلافت نامہ عطا کرتے ہیں تو تحریر فرماتے ہیں دوران تدریس میں نے اسے قابل، اہل خوش اطوار اور خوش سلیقہ شخص پایا نظام الدین دنیاوی اور دینی معاملات میں میرا حقیقی جانشین اور خلیفہ ہے اور اس کی اطاعت میری اطاعت ہے نظام الدین کا عزت و احترام کرنے والوں پر خدا کی رحمت ہو، جس کی میں بھی عزت کرتا ہوں اس کی عزت نہ کرنے والے کو خدا’’بے توقیر کرے، یہ سب الفاظ فقیر مسعود کے ہیں‘‘۔
حضرت بابا جی یہ بھی فرمایا کرتے کہ جب سے نظام الدین مجھ سے بیعت ہوئے ہیں جس طرح چاہتے تھے اسی طرح چاہتے ہیں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔
خلافت نامہ کی تصدیق موتی قدر دان کو سونپا گیا
خلافت نامہ مل گیا تو اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی ہوا کہ دہلی جاتے ہوئے ہانسی میں خلافت نامہ مولانا جمال الدین کو دکھا لینا۔ چنانچہ حضرت ہانسی میں راقم الحروف کے جد امجد حضرت جمال الدین ہانسوی کی خدمت میں گئے اور انہوں نے ان تاریخی الفاظ کے ساتھ اس کی تصدیق فرمائی۔
خدائے جہاں راہزراں سپاس
کہ گوہر سپر وہ بہ گوہر شناس
(خدا کا ہزاروں ہزار شکر موتی اس کو سونپا گیا جو موتی کی قدر جانتا ہے)
حسن گنگوہی کو دکن میں بہمنی سلطنت کی بشارت
شاہی افسر حسن گنگوہی آپ کا مرید تھا آپ نے اسے نئی اور طاقتور سلطنت کی بنیاد رکھنے کی نوید سنائی اور روٹی کا ایک ٹکڑا اپنی انگلی کے ساتھ لگاکر دیا اور فرمایا کہ وہ اسے اپنی سلطنت کے نشان کے طور پر محفوظ رکھے اور پھر حضرت کے فرمان کے مطابق1347 میں حسن گنگوہی نے دکن میں ہہمنی سلطنت قائم کی اور وہ حسن گنگو علاؤالدین حسن بہن شاہ کے نام سے بادشاہ بن کر تخت نشین ہوا۔ وہ تاحیات اپنی بادشاہت کو حضرت کی عطا کہا کرتا اس نے تخت نشین ہو کر حضرت نظام الدین اولیاء کے نام پر چار سو طلائی اور ایک ہزار سونے کی اشرفیاں خیرات کیں۔
باولی کا پانی روشن ہو گیا
بادشاہ غیاث الدین تغلق جو حضرت سے عداوت رکھتا تھا اس نے اپنا عالی شان قلعہ اور محل بنانے کا حکم دیا جس پر سونے کے پتر چڑھائے جا رہے تھے اسی دوران حضرت نے درگاہ میں باولی بنانے کی ہدایت کی قلعے کے قیام مزدور باولی بنانے کے لئے آگئے جنہیں بادشاہ نے حکم کے ذریعے منع کر دیا۔ جب مزدوروں نے رات کو چراغ جلا کر باولی بنانا چاہی تو منادی کر کے انہیں تیل دینے سے منع کیا۔ حضرت نے یہ صورتحال دیکھ کر حضرت نصیرالدین کو باولی کا پانی کونڈوں میں بھر کر ان میں بڑی بتیاں ڈال کر جلانے کا حکم دیا جو اللہ کے حکم سے روشن ہوگئیں اور حضرت نصیرالدین محمود کا لقب ’’چراغ دہلی‘‘ دہلی کا چراغ مشہور ہو گیا۔
والدہ محترمہ سر سے دامنی اتار کر پانچ سو بار درود شریف پڑھتیں اور مسئلہ حل ہو جاتا
آپ کی قابل فخر والدہ ماجدہ حضرت بی بی زلیخا مستجاب الدعا تھیں اور ان کی دعائیں بارگاہ ایزدی میں قبول ہوتیں وہ کسی بھی مشکل کے وقت جاہ نماز پر سر مبارک سے دامنی اتار کر آگے رکھ لیتیں اور پانچ سو بار درود شریف پڑھتیں۔ ابھی درود شریف ختم نہ ہونے پاتا کہ و ہ مشکل حل اور آ سان ہو جاتی۔ ایک مرتبہ انکی خدمت پر مامور کنیز جو باہر کے کام کاج بھی کرتی تھیں اچانک غائب ہو گئی۔ حضرت بی بی زلیخا از حد پریشان تھیں وہ معمول کے مطابق مصلیٰ بچھا کر بیٹھ گئیں اور سر سے دامنی اتاری اور درود پاک پڑھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ سے گزارش کی کہ اے مسب الاسباب اور مالک کل جہاں جب تک میری کنیز واپس نہیں آئے گی سر پر دامنی نہیں رکھوں گی۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ دروازے پر ایک مرد غیب نے دستک اور آواز دی کہ آپ کی کھوئی ہوئی کنیز مل گئی ہے۔ آواز سن کر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء باہر تشریف لائے اور اس مرد غیب نے کھوئی ہوئی کنیز ان کے حوالے کر دی۔
شہزادی جہاں آراء کی کروڑوں کا ترکہ درگاہ کو دینے کی وصیت، قدموں میں دفن ہوئی
شہنشاہ شاہ جہاں اور ممتاز محل کی لخت جگر شہزادی جہاں آراء کو حضرت محبوب الٰہی سے اس قدر عقیدت تھی کہ اپنی زندگی میں ہی ایک قطعہ زمین پر جالی دار کٹہرہ اور تربت بمعہ لوح تیار کرائی۔ شہزادی اپنے والد کے زریں عہد کی سب سے مالدار اور بااثر خاتون تھی اس نے وصیت کی اس کا ترکہ جو تین، چار کروڑ تھا تمام کا تمام درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء کے لئے دے دیا جائے لیکن بدقسمتی سے اس کے حکمران بھائی اورنگزیب عالمگیر نے اس کی وصیت پوری نہیں کی تھی شہزادی آج بھی آپ کے قدموں میں پردہ دار جالی میں محو خواب اپنی قسمت پر نازاں ہے
۔۔66برس ہندوستان کی روحانی شہنشاہی کا تاج سر کی زینت
حضرت محبوب الٰہی 20برس کی عمر میں حضرت بابا فرید گنج شکر کے مرید ہوئے اور 24 سال کی عمر میں تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور 66 سال تک ہندوستان کی روحانی شہنشاہی کا منصب آپ کے سر مبارک کی زینت رہا۔
حضرت محبوب الٰہی نے ایام جوانی میں تیس برس سخت مجاہدے کئے اور عمر عزیز کے آخری حصہ میں ان مجاہدوں کی تعداد کہیں بڑھ گئی۔ 80 برس کی عمر میں بھی دائمی روزہ سے رہتے۔ اس ضعیفی میں بھی بلندی پر واقع بالا خانہ سے نیچے مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرتے۔
بہشتی دروازہ
مشہور ہے کہ حضرت بابا صاحب کا وصال ہوا تو حضرت سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء دہلی میں تھے، حضرت بابا صاحب نے وصیت فرمائی تھی میرا خرقہ، عصا، کھڑاویں اور تبرکات مولانا نظام الدین دہلی سے آئیں تو ان کو دے دینا اور وہی میری قبر بھی بنوائیں گے چنانچہ حضرت کو بطور امانت کے ایک جگہ دفن کر دیا اور جب حضرت سلطان المشائخ اجودھن(پاک پتن شریف) حاضر ہوئے تو انہوں نے حضرت کو اس جگہ دوبارہ دفن کیا جہاں آج کل مزار ہے اور اس پر ایک چھوٹا قبہ بنایا جس کے دو دروازے رکھے ایک مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف جنوبی دروازے کے پاس حضرت کھڑے تھے یکا یک ایک جوش اور وجد اور بے خودی کی حالت حضرت پر طاری ہوئی اور حضرت نے تالیاں بجا کر فرمایا لو دیکھو رسول اللہ تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جو اس دروازے سے داخل ہوگا امن پائے گا
حضرت بابا فرید کی لحد کی ایک ایک اینٹ پر قرآن پڑھوایا
آج سے آٹھ صدیاں قبل دریائے ستلج اپنی تمام ترطغیانیوں کے ساتھ حضرت شیخ العالم بابا فرید مسعود گنج شکر کے بلند ٹیلے پر موجود خانقاہ کے نیچے رواں دواں تھا۔ اس ٹیلے کی بلندی آج بھی تین منزلہ ہے۔ میری گنہگار آنکھیں چشم تصور سے مبہوت ہو کر وہ منظر دیکھ رہی ہیں کہ حضرت بابا جی کے وصال کے بعد حضرت محبوب الٰہی دہلی سے اجودھن تشریف لاتے ہیں اور آپ کے جسد مبارک کو خانقاہ پر پہلے سے دفن شدہ مقام سے نکال کر موجودہ مقام پر اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارتے ہیں خانقاہ درویشوں، مریدوں اور عقیدت مندوں سے بھری ہوئی ہے اور حضرت محبوب الٰہی تمام حفاظ کرام کو بٹے سے نیچے ستلج کے کنارے لے جاتے ہیں اور ان سب کو اینٹیں دے دی جاتی ہیں جو ستلج کے پانی میں دھو کر اس پر مکمل قرآن پاک پڑھتے ہیں یوں مزار مبارک کی تمام اینٹوں پر ایک ایک قرآن پاک پڑھا گیا اور یہ تمام اینٹیں حضرت محبوب الٰہی نے اپنے ہاتھوں سے اور اپنے زیر نگرانی لگوائیں یہی وجہ ہے کہ آج سے آٹھ صدیوں بعد بھی آپ کے روضہ مبارک کی توسیع نہیں کی گئی کیونکہ حضرت محبوب الٰہی کے ہاتھ سے لگائی متبرک اینٹوں پر جن پر قرآن پاک پڑھا گیا ہے۔ انہیں اکھاڑنا اور بدلنا ممکن نہیں۔
ابھی دلی دور ہے
غیاث الدین تغلق بھی اپنے پیش رو قطب الدین م بارک کی طرح حضرت محبوب الٰہی کی دشمنی میں مبتلا تھا اس نے بنگال کی مہم پر جانے سے قبل حضرت کو فرمان بھیجا کہ میرے آنے سے قبل دہلی سے رخصت ہو جاؤ جس پر آپ نے وہ تاریخی جملہ ادا فرمایا کہ ’’ہنود دلی است‘‘ (ابھی دلی دور ہے) وہ بنگال کی مہم سے واپس لوٹا تو اس کے ولی عہد شہزادہ ملک جونا نے باپ کے استقبال کے لئے شہرسے باہر لکڑی کی نئی بارہ دری بنوائی۔ باپ کو ہاتھوں کی نذر کے ساتھ سلامی کے لئے پیش کی تو نئی چوبی بارہ دری زمین بوس ہوگئی اور تغلق اس کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا اور آپ کا فرمان کہ ہنوز دلی دور است حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔
دس مرتبہ اجودھن تشریف لائے
حضرت محبوب الٰہی اپنی حیات مبارک میں دس مرتبہ اجودھن (پاک پتن) تشریف لائے۔ وہ اپنے مرشد حضرت بابا فرید الدین مسعود الدین گنج شکر کی حیات مبارکہ میں تین مرتبہ جب کہ ان کے وصال کے بعد سات مرتبہ اجودھن آئے۔
حضرت نے اپنے وصال سے چالیس روز پہلے سے کھانا چھوڑ دیا تھا اور رونے کی یہ حالت تھی کہ ذرا سی دیر کو بھی آنسو نہ تھمتے تھے کمزوری بڑھتی رہی ایک بزرگ نے عرض کیا، حضرت اگر آپ کھانا نوش نہیں فرمائیں گے تو طاقت کیسے قائم رہے گی؟ جواب دیا کہ جو شخص جناب سرور کائنات کا مشتاق ہو اس کو دنیا کا کھانا کیسے بھائے۔ حضرت شیخ رکن الدین سہروردی اپنے وقت کے زبردست بزرگ تھے وہ مزاج پرسی کو تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ جب تک چاہیں دنیا میں رہیں آپ بھی اللہ کے محبوب ہیں۔ آپ سے اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچ رہا ہے آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کچھ دن اور دنیا میں رکھے! حضرت یہ سن کر آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت رسالت مآبؐ فرماتے ہیں کہ نظام ہم کو تمہارا بڑا اشتیاق ہے، پس جس کا رسول اللہؐ انتظار فرمائیں وہ کیسے دنیا میں رہ سکتا ہے۔
حضرت پر غشی طاری ہو جاتی تھی ہوشیار ہوتے تھے تو دریافت فرماتے تھے کوئی مہمان آیا؟ میں نے نماز پڑھ لی؟ لوگ کہتے تھے کہ سرکار نے ابھی نماز پڑھی ہے مگر حضرت دوبارہ نماز پڑھتے ہیں اس طرح ایک ایک نماز کو کئی کئی دفعہ ادا فرماتے اور کہتے
میردیم و میردیم و میردیم
(ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں ہم جاتے ہیں)
اسی حال میں تمام خدمت گاروں، مریدوں اور عزیزوں کو بلا کر فرمایا کہ تم گواہ رہنا، اقبال خادم کوئی چیز جماعت خانے میں بچا کر نہ رکھے سب کچھ خیرات کر دیا جائے ورنہ قیامت کے دن حساب دینا ہوگا عرض کیا گیا کہ خواجہ اقبال نے حکم کی تعمیل کی ہے اور سب کچھ تقسیم کر دیا ہے صرف درویشوں کے لئے چند دن کے لائق غلہ باقی رکھا ہے حضرت اس پر ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ زمین کی اس ریت کو کیوں باقی رکھا ہے گوداموں کے دروازے کھول دو اور غریبوں سے کہو کہ ان کو لوٹ لیں اور کچھ باقی نہ چھوڑیں۔
18 ربیع الثانی 725ھ کو سورج نکلنے کے بعد یہ آفتاب طریقت غروب ہوگیا حضرت کی وصیت کے موافق تدفین عمل میں آئی جہاں آج کل حضرت کا روضہ ہے یہاں کسی زمانے میں جنگل میں تھا حضرت شیخ رکن الدین سہروردی نے نماز جنازہ پڑھائی کہتے ہیں حضرت نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ جنازے کے سامنے حضرت شیخ سعدی کی وہ غزل گائی جائے جس کا ایک شعر یہ ہے۔
اے تماشا گاہے عالم روئے تو
(اے کہ تیرا چہرہ(مبارک) دنیا کے دیدار کی چیز ہے تو کس کے دیدار کو چلا؟)
قوال یہ شعر گاتے جاتے تے اور بے شمار مخلوق دھاروں دھار روتی تھی۔