مسلمانوں کی کرشن بھکتی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 17-08-2022
رزم نامہ کی ایک تصویر:کرشن اور ارجن کی ہستیناپور آمد
رزم نامہ کی ایک تصویر:کرشن اور ارجن کی ہستیناپور آمد

 

 

کرشن جنم اشٹمی پر خاص تحریر

غوث سیوانی، نئی دہلی

کچھ ہم کو بھی عطا ہو کہ اے حضرتِ کرشن

اِقلیمِ عشق آپ کے زیرِ قدم ہے خاص

رادھا اورکرشن کی داستان، ہندوستان کے گوشے گوشے میں مشہور ہے۔کرشن جی کوہندو اوتار مانتے ہیں اور ان کی داستان کو نجی اور عوامی محفلوں میں دہراتے ہیں۔ ان کی تعلیمات کا مجموعہ ’بھاگوت گیتا‘ اپنی گوناں گوں خوبیوں کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ حالانکہ کرشن بھکتی ہندووں تک محدود نہیں، بلکہ مسلمان بھی ان کا احترام کرتے رہےہیں، ان کی داستان کی اشاعت اور ان کی تعلیمات کے نشر میں حصہ دار رہے ہیں۔

اکبراور مہابھارت

کرشن جی کی داستان کا سرچشمہ قدیم رزمیہ داستان ’مہابھارت‘ ہے جس کی اصل زبان سنسکرت تھی۔ اس کا پہلا ترجمہ، فارسی زبان میں ہوا اور اس وقت ہوا جب قرآن کا ترجمہ بھی کسی دوسری زبان میں نہیں ہوا تھا۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے حکم پر ہوا اور اسے انجام دینے والوں میں بیشتر مسلمان تھے۔ اس داستان سے پہلی بار دنیا مسلمانوں کی کوششوں سے واقف ہوئی۔

awaz

رزم نامہ:مہابھارت کی جنگ کا ایک منظر

 اکبر کو علم پروری کے لئے جاناجاتا ہے مگر اس نے علمی کتابیں کم اور آرٹ کی کتابوں کی طرف زیادہ توجہ دی تھی۔ مہابھارت، کورووں اور پانڈووں کے درمیان کی لڑائی کی کہانی ہے، جو پُشتہاپُشت سے عوامی زبان پر رائج ہے اور یہ جنگ ضرب المثل کے طور پر بیان کی جاتی ہے۔ جنگ کے دوران شری کرشن نے ارجن کی رتھ بانی کی خدمت انجام دی تھی اور اس بیچ کرشن نے ارجن کو بہت سی نصیحتیں کی تھیں جن کامجموعہ’’ بھگوت گیتا‘‘ ہے۔’’ بھگوت گیتا‘‘ کا ترجمہ سنسکرت سے فارسی میں فیضی نے کیا تھا۔

مہابھارت کی جنگ حقیقتاً ہوئی تھی یا نہیں اور اگر ہوئی تھی تو کب ہوئی تھی ،اس بارے میں کسی کو پتہ نہیں ،کیونکہ اس کے تاریخی شواہد اب تک نہیں مل پائے ہیں مگر ممکن ہے کوئی بڑی جنگ قبل تاریخ ہوئی ہوجس کی داستان لوگوں کی زبان پر آگئی ہو۔ ہندو عقیدے میں مہابھارت کو ایک مقدس کتاب مانا جاتا ہے او ر اکبر چونکہ مذہبی رواداری کا قائل تھا اور ہندووں کو بھی خوش رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے سیاسی مقصد کے پیش نظر اس کتاب کا ترجمہ کرایا ہوگا اور یہ بھی ممکن ہے کہ قصے کہانیوں کو اس نے حرم سرا کی خواتین اور امراء کی ضیافت طبع کے لئے فارسی کا روپ دیا ہو، کیونکہ بیشتر امراء سنسکرت سے واقف نہیں تھے ۔ اس نے جن کتابوں کے تراجم سنسکرت سے فارسی میں کرائے تھے ان میں مہابھارت، رامائن اور اپنیشد بھی شامل تھیں۔ایک محقق شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:

’’اکبر نے ادبیات کی سرپرستی کی۔ سنسکرت،عربی، ترکی، یونانی سے فارسی میں کتابیں ترجمہ کرائیں۔ سنسکرت سے جوکتابیں ترجمہ ہوئیں، ان میں رامائن، مہابھارت، بھاگوت گیتا، اتھروید اور ریاضی کی کتاب لیلاوتی مشہور ہیں۔‘‘ (رودکوثر،صفحہ 164)

awaz

رزم نامہ:وشنو کے ذریعے دانو کاقتل

ہندووں کی مذہبی کتابوں کے تراجم عہد اکبری میں

اکبر کے حکم سے جن کتابوں کا سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کیا گیا تھا ان کی تعداد مورخین نے پندرہ بتائی ہے۔

اکبر نے مہابھارت کا جو فارسی ترجمہ کرایا تھا، اس میں ماہر خطاطوں سے خطاطی کرائی گئی تھی اور ماہر فن مصوروں سے خوبصورت وجاذب نظر تصویریں بنوائی گئی تھیں۔

۔1582ء میں اکبر نے بدایونی کو ترجمہ کرنے کا حکم دیا تھا اور اس نے 1584ء سے اس کام کو شروع کردیا۔1586ء میں یہ ترجمہ مکمل ہوگیا اور خطاطی وآرائش بھی۔پہلی کاپی میں مصور مشفق نے تصویریں بنائی تھیں بعد میں اس کی بہت سی کاپیاں تیار کرائی گئی تھیں جن میں سے ایک کاپی بعد میں جے پور کے راجہ سوائی مان سنگھ دوئم کے پاس پائی گئی تھی، یہ اب بھی سیٹی پیلس میوزیم، جے پور میں موجود ہے۔ اکبر نے ایک کاپی اپنے درباری عبدالرحیم خان خاناں کو بھیجی تھی اور دوسرے درباریوں اور امراء کو بھی رزم نامہ کی کاپیاں تحفے کے طور پر بھیجی گئی تھیں۔ خانِ خاناں، عالم وعلم دوست انسان تھا اور اس کی لائبریری میں تمام اہم کتابیں موجود ہوتی تھیں لہٰذا بادشاہ بھی ہر کتاب کی ایک کاپی محفوظ رکھنے کے لئے ضرور بھیج دیتا تھا۔

ایک مغل شاعر اور کرشن

خانِ خاناں ایک وسیع النظرمسلمان تھے اور شری کرشن جی سے خصوصی عقیدت رکھتے تھے جس کا اظہار انھوں نےاپنے ہندی دوہوں میں بھی کیاہے۔رحیم نے مہابھارت، رامائن اور دیگرہندومذہبی کتب کامطالعہ کیاتھا۔رحیم کا تعلق بھکتی دور سے تھاجس میں آرٹ پربھی ہندومت اور اسلام کا اثر دکھائی پڑتاہے۔انھوں نے اپنے دوہوں میں تمثیلات اور استعارات کے لئے ہندواساطیریامیتھولوجی سے مددلی ہے۔نیزجگہ جگہ کرشن جی کے تعلق سے بھی اظہارعقیدت کیاہے۔وہ کہتے ہیں:

جوغریب پر ہِت کریں ہے رحیم بڑ لوگ

کہاسداما باپوروکرشن متائی جوگ

(یعنی غریب کی مدد کرتے ہیں وہ بڑے لوگ ہوتے ہیں جیسے سداما کہتے ہیں کہ کرشن کی دوستی بھی ایک سادھناہے۔)

بڑے کام اوچھوکرےتونہ بڑائی ہوئے

جیوں رحیم ہنومنت کو گردھرکہےنہ کوئے

(جب اوچھے مقصد کے لئے لوگ بڑے کام کرتے ہیں تو کوئی بڑائی نہیں ہوتی ہےجب ہنومان جی نے پربت اٹھایاتھا تو ان کا نام گردھر نہیں پڑا کیونکہ انھوں نے پربت راج کو نقصان پہنچایاتھاجب کرشن جی نے پربت اٹھایاتو ان کا نام گردھرپڑاکیونکہ انھوں نے سب کے تحفظ کے لئے پربت اٹھایا۔

عربی میں کرشن کی داستان

بعض مورخین کا خیال ہے کہ فارسی میں مہابھارت کے ترجمہ سے قبل، اس کا عربی زبان میں ترجمہ ہوچکا تھا۔ عربی ترجمہ گیارہویں صدی عیسوی میں موجو دتھا اور یہ فرانس کے ایک کتب خانے میں دستیاب ہوا ہے۔ یہ 1026 میں کسی شہزادی کے حکم سے کیا گیا تھا اور مترجم کا نام ابوصالح تھا۔ اصل میں عربی ترجمہ وسط ایشیا کے شہر جرجان میں دستیاب ہوا تھا، جس کی جانکاری وہاں کے لائبریرین ابوالحسن علی نے دی تھی۔1845 میں پہلی بار فرنچ میں مہابھارت کا ترجمہ شائع ہوا جو سنسکرت نہیں بلکہ عربی کے اسی نسخے سے کیا گیا تھا۔

مہابھارت کا عربی ترجمہ گیارہویں صدی عیسوی میں کیسے ہوگیا، جب کہ دلی میں مسلم سلطنت کا قیام بھی اس وقت تک نہیں ہوا تھا؟ اس سوال کا بالکل ٹھیک ٹھیک جواب ملنا مشکل ہے مگر اس عہد میں سندھ میں مسلمانوں کی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں اور جاٹو ں کا ایک بڑا طبقہ عرب وایران میں آباد تھا ، ایسے میں سنسکرت سے عربی میں ترجمہ ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔مورخین نے لکھا ہے کہ اہل عرب اکثر سمندری راستے سے ہندوستان، چین، لنکا وغیرہ کے سفر پر قدیم دور سے آرہے ہیں، ایسے میں ان کی مہابھارت تک رسائی ناممکن نہیں لگتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مہابھارت کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ بغداد کے ان ترجمہ گاہوں میں ہوا ہوجو خلفاء بنو عباسیہ کے عہد میں قائم کی گئی  تھیں اوروہاں کی حکومت ان کی سرپرستی کیا کرتی تھی۔

دارا شکوہ اور بھگوت گیتا کا ترجمہ

 مغل شہزادہ دارا شکوہ کے بارے میں مورخین کا عام خیال ہے کہ وہ صوفی منش انسان تھا اور ہندووں کے علوم و فنون سے خاص لگائو رکھتا تھا۔ دارا شکوہ کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ اس نے بھاگوت گیتا کا ترجمہ فارسی زبان میں کرایا تھا۔ شہزادہ نے یوگ وششٹھ، اپنشد اور رامائن کا ترجمہ بھی فارسی میں کروایا تھا۔ اس نے’’ سیرِاکبر‘‘کے نام سے 52 اپنشدوں کا ترجمہ کرایا تھا۔

فنکاروں کا کرشن سے لگائو

اردو زبان کے شاعروں اور فنکاروں کو خاص طور پر کرشن جی سے لگائو رہا ہے۔ شاہ محمدکاظم قلندرکاکوروی اور شاہ تراب علی قلندر صوفی تھے اورشاعر بھی۔ انھوں نے شری کرشن کا بیان اپنی شاعری میں کیا۔ محسن کاکوروی نعت گوشاعروں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے استعارے کے طور پر اپنے نعتیہ کلام میں کرشن جی کی جنم بھومی متھرا کا ذکر کیا ہے۔

نظیراکبرآبادی نے کرشن جی کی داستان اور اس تعلق سے رسم ورواج کو پوری تفصیل سے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے۔

 ایسے شاعروں میں ایک نمایاں نام مولانا حسرت موہانی کا ہے جو ایک بڑے شاعر کے ساتھ ساتھ مجاہد آزادی اور ممبر پارلیمنٹ بھی رہے ہیں۔ انھوں نے کرشن جی کو احتراماً حضرت کرشن کہا ہے۔

۔