کشمیریت : مشترکہ ہندو مسلم ثقافت کی امین

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 20-05-2021
کشمیر کے وجود کی خصوصیات ہے کشمیریت
کشمیر کے وجود کی خصوصیات ہے کشمیریت

 

 

 اختر الواسع

کشمیریت وادی کشمیر میں مشترکہ ہندو مسلم ثقافت، تہوار اور زبان کی مثال پیش کرتی ہے۔ کشمیریت کی روح میں ہندو مذہب اور اسلام کے تہوار دونوں عقائد کے پیروکار مناتے ہیں۔ کشمیریت جس کی حوصلہ افزائی ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ ہوتی ہے اسے سلطان زین العابدین نے ترقی دی۔ کشمیری صوفی للّہ دیدکی کہانی جس میں اس کا جسم پھولوں کے ایک ٹیلے میں بدل گیا، جسے ہندو اور مسلمان دونوں نے دفن کیا تھا، کشمیریت کے ایک شان کی حیثیت رکھتا ہے جو آج بھی اسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔

سال  2007 میں ہوئے ایک سروے کے تحت سرینگر میں 84 فیصد لوگ کشمیری پنڈتوں کی واپسی چاہتے ہیں۔جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کشمیریوں کے دل آج بھی ہندو بھائیوں کے لئے دھڑکتے ہیں۔ متنازعہ کشمیر کا علاقہ اہم نسلی، ثقافتی اور مذہبی تنوع سے دوچار ہے۔ یہ خطہ تاریخی طور پر ہندو مت اور بدھ مت کے لئے اہم مرکز رہا ہے۔ قرون وسطی کی صدیوں میں اسلام کا تعارف ہوا تھا اور سکھ مذہب بھی اٹھارویں صدی میں سکھ سلطنت کی حکمرانی کے تحت اس خطہ میں پھیل گیا۔

کشمیر کے وجود کی خصوصیات اس کے اندرونی ہمالئی جغرافیائی اور سخت سردی کی آب و ہوا اور معاشی اور سیاسی لحاظ سے الگ تھلگ ہے۔ خطے میں تنازعہ کے باوجود اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر یکجہتی لچک اور حب الوطنی کا اظہار ہے۔ کشمیریت ہم آہنگی، اخوت، عزت افزائی، امن و استقامت اور برداشت کا نام ہے جس کو ہندو اور مسلمان دونوں طبقے کے لوگوں نے قبول کیا ہے، برعکس اس کے کہ ان کے مذاہب مختلف ہیں انہوں نے اپنے رسم و رواج، عادات و اطوار اور شادیاں ایک جیسے ماحول میں انجام دی ہیں۔

مختلف مذاہب کی ہم آہنگی کی مثال اس بات سے سمجھی جاسکتی ہے کہ جو صوفیائے کرام یہاں تشریف لائے ان کے مقبرے نہ صرف مسلمانوں نے تعمیر کیے بلکہ مختلف مذاہب کے لوگوں نے بھی اس میں شرکت کی اور آج بھی ان مقبروں اور آستانوں پر ہر مذہب کے لوگ اپنی حاضری دیتے ہیں اور یہ ایک ایسی مثال ہے جہاں کوئی بھی انسان کسی بھی مقبرے پر جاکر دیکھ سکتا ہے۔ کشمیری تہذیب کا ایک حصہ یہاں کے کھانے ہیں۔ کشمیری وازوان یہاں کے لوگوں میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے چاہے کسی بھی مذہب سے وابستہ لوگ ہوں، کشمیری وازوان ایک اہم جگہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے۔ نہ صرف وازوان بلکہ مختلف اور کھانے بھی کشمیر کی ملی جلی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں جیسے نمک والی چائے، کشمیری وازوان اور یہاں کی ثقافت اس کا ایک اہم حصہ ہے۔

مختلف مذاہب کے باوجود کشمیر کے لوگ کچھ کپڑے یکساں پہنتے ہیں جن میں سے کشمیری فیرن سب سے مشہور ہے۔ یہاں کی عورتیں جس میں ہندو اور مسلم دونوں شمار ہوتے ہیں اس ثقافتی فیرن کو استعمال کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کپڑوں میں کچھ فرق بھی ہوتا ہے مگر اصل میں ان کا رہن سہن بھی ایک جیسا ہے۔ ان کے رہن سہن میں زیادہ فرق نہیں، وہ مذہب کو اپنے رہن سہن کے بیچ آنے نہیں دیتے۔ برصغیر ہندو پاک میں کشمیر ہی وہ واحد جگہ ہے جہاں یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آیا سامنے والا فرد ہندو ہے یا مسلم۔ نہ صرف یہ بلکہ جب اسلام کشمیر کی وادی میں داخل ہوا تو وہاں کے لوگوں نے اپنے آخری نام نہیں بدلے بلکہ اسی ذات سے آج بھی جانے جاتے ہیں۔

- کشمیریت اور تصوف کا آپس میں بڑا ربط ہے یا اگر میں یوں کہوں کہ یہ ایک ہی سکہ کے دو پہلو ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ جہاں صوفیائے کرام نے دین و مذہب کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہیں ان صوفیائے کرام نے کبھی بھی آپسی بھائی چارے اور ہم آہنگی کو خطرے میں پڑنے نہ دیا۔ انہوں نے آپسی میل ملاپ اور بھائی چارے کی طرف اہم اور خصوصی توجہ دیں اور لوگوں کو بھی یہ درس دیا کہ وہ کسی بھی صورت میں تفریق اور تناؤ کو بڑھاوا نہ دیں۔ نیز ان کی انہی کاوشوں سے وہ اسلام کو دنیا کے مختلف اطراف تک لے جانے میں کامیاب رہے۔ ہر مذہب کے لوگ ان کی عزت کرتے اور ان کی کاوشوں کی داد دیتے ہیں۔

کشمیر یت بھی صوفیت کی طرح ایک نعرہ ہے۔ چونکہ کشمیر کے لوگ فطرتاً شریف النفس ہیں۔ ہر مذہب کی عزت اور ہر فرد کی تکریم ان کے خون میں بھری ہے۔ مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس آپسی میل ملاپ کو برباد کرنے کی کوشش کی گئی، چاہے وہ مذہب کے نام پر ہو یا علاقائی تعصب کے نام پر، مگر کشمیر اور کشمیریت ان سب مشکلات کے باوجود زندہ اور جاوید ہے۔چاہے کیسے بھی حالات ہوں، کچھ بھی پریشانی ہو، کشمیریوں نے کشمیریت کو کبھی الوداع نہ کہا۔ کشمیر میں چونکہ دین انہی صوفیائے کرام کے ذریعے سے آیا۔ لہذا ان کی دی ہوئی تعلیمات کا یہاں آج بھی گہرا اثر پایا جاتا ہے۔ جناب بابا نصیب فرماتے ہیں ”مذہب کا شمع جو صوفیائے کرام نے روشن کیا تھا وہی تو رہبر مذہب ہیں انہوں نے مذہب کی جامع اور وسیع تعلیمات لوگوں کو دیں اور کسی بھی مذہب کے خلاف الف معرکہ آرا نہ ہوئے بلکہ اس جنت کو صحیح معنوں میں جنت بنا دیا“۔

 مختصراً کہیں، کشمیر اور صوفیت ایک ہی چیز ہے اور دونوں کا طریقہ کار یکساں ہیں۔ کشمیر کے ایک اہم مورخ محمد اسحاق خان لکھتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کا ایک دوسرے کے تہواروں اور شادیوں میں شرکت کرنا ہمارے کشمیر کی پہچان ہے۔ اختصار ا ًیہ کہا جاسکتا ہے کہ کشمیریت اور صوفیت ایک ہی سکے کے دو طرف ہیں اور مختلف مذاہب کے لیے آپسی بھائی چارے میں انہی کے لیے یہ ایک قابل تکریم اور قابل تقلید مثال ہے۔ کشمیری لوگ آج تک جتنے بھی آلام و مصائب کا شکار ہوئے۔ ہر بار انہوں نے آپسی بھائی چارے کا خیال رکھا ہے۔ آئے روز ہم دیکھتے ہیں کہ کسی جگہ کسی ہندو کی موت واقع ہوئی تو اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے لیے اس کے پڑوس میں بسنے والے مسلمان آتے ہیں۔ ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ مسجد کے لئے راستے کی ضرورت ہو اور ایک سکھ اپنی زمین میں سے مسجد کے لیے راستہ فراہم کرتا ہے۔ ہم آہنگی اور بھائی چارگی کی جو مثال کشمیر میں ملتی ہے کسی اور جگہ نہ مل سکے گی۔

چنانچہ 2014کا سیلاب ہو ہو یا پھر 2016کا خراب حالات، کشمیریوں نے ایک دوسرے کا خیال رکھ کر بہت ہمت والا جو کام کیا ہے وہ میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہی ہیں۔ کیسے دور دراز دیہات سے مال سے بھری ہوئی گاڑیاں دوسرے علاقوں تک راشن لے کے جاتے تھے، اس سب کے بیچ کبھی یہ نہ سوچا گیا کہ کون مسلمان ہے کون ہندو۔ بلکہ بس انسانیت کے نام پر ایک دوسرے کا بھرپور خیال رکھا گیا۔ یہی تو وہ خوبی ہے جس سے کشمیر مشہور ہے اور اسی کا نام ہی تو کشمیریت ہے۔

کشمیریت کسی سیاسی لیڈر کی دین نہیں ہے۔ ہاں مختلف لوگوں نے اس کو سیاست کا رنگ دینے کی کوشش ضرور کی مگر کشمیریت سیاست کا اعلان نہیں بلکہ فطرت ہے۔ شریف النفس کشمیریوں کی چاہے باہر سے آنے والے زائرین ہوں یا پھر امرناتھ جی کے درشن پر آنے والے لوگ، کشمیری ہر فرد اور ہر بشر کے لئے اپنا مال و جان لے کے حاضر ہوتے ہیں۔ حال میں ان کا کئی بار استحصال بھی ہوا مگر ایک کشمیری ہے کہ وہ اپنے ان صفات اعلیٰ کو خود سے دور نہیں ہونے دیتا۔ اس نے خود کا نقصان تو کیا مگر کبھی بھی دوسروں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتا رہا۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)