جموں وکشمیر:پھر سیاسی موسم بہار

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 26-06-2021
بدلتا کشمیر
بدلتا کشمیر

 

 

awazurdu

ایم ودود ساجد ۔ نئی دہلی 

کم وبیش 20ماہ کے وقفہ کے بعد جموں وکشمیرمیں پھر سیاسی موسم بہار نے کروٹ لی ہے۔اس کی ابتدا گزشتہ 24جون 2021کو وزیر اعظم نے جموں وکشمیر کے تمام بڑے سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہونے والی ایک خصوصی میٹنگ سے کی۔وزیر اعظم نے اس میٹنگ میں واضح کردیا ہے کہ جموں وکشمیرکی مکمل ریاست والی حیثیت مناسب وقت پر پھر بحال کردی جائے گی۔انہوں نے جموں وکشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈی لمٹیشن یا ازسر نو طے کی جانے والی حد بندی کے عمل میں شامل ہوں تاکہ وہاں جلد سے جلد الیکشن ہوسکیں۔اس میٹنگ میں نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ‘ پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی‘کانگریس کے غلام نبی آزاد اور بائیں محاذ کے یوسف تاریگامی سمیت دوسرے بہت سے لیڈروں نے شرکت کی۔

یہ ڈی لمٹیشن کیا ہے؟

دراصل وقفہ وقفہ سے ہندوستان کی تمام ریاستوں میں ووٹوں کی تعداد‘آبادی کے تناسب اورلوک سبھاکے حلقوں کے حجم کے اعتبار سے نشستوں کی از سر نوحد بندی کی جاتی ہے اور پارلیمنٹ کی سیٹیں بڑھائی یا گھٹائی جاتی ہیں۔یہ کام ایک خصوصی کمیشن انجام دیتا ہے۔آزادی کے بعد 1952 سے 2002تک ایسے چار کمیشن قائم کئے گئے۔تاہم آخر ی کمیشن نے لوک سبھا کے حلقوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ڈی لمٹیشن کا ایک بڑا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ریاستیں جو فیملی پلاننگ پر عمل کر رہی ہیں لوک سبھا میں ان کی سیٹیوں کا تناسب کم نہ ہوجائے۔ لیکن اس وقت جموں وکشمیر میں ڈی لمٹیشن کا عمل اسمبلی کو ذہن میں رکھ کر انجام دیا جارہا ہے۔اب تک یہ ہوتا تھا کہ دفعہ 370کے سبب جموں وکشمیر اسمبلی کودوسری ریاستوں میں ہونے والے ڈی لمٹیشن کے عمل سے باہر رکھا جاتا تھا۔اس سلسلہ میں جموں وکشمیر کے ریاستی آئین کے مطابق ہی حد بندی کی جاتی تھی۔لیکن اب چونکہ دفعہ 370کی وہ خصوصی شقیں کالعدم کر دی گئی ہیں جن کے سبب جموں وکشمیر کو ایک خصوصی درجہ حاصل تھا اس لئے اب وہاں کی اسمبلی نشستوں کی نئی حد بندی ضروری ہوگئی ہے۔دفعہ 370کے سبب ہی 2002-08 کے درمیان پورے ملک میں ہونے والی حد بندی میں جموں وکشمیر شامل نہیں ہوسکا تھا۔

وزیر اعظم نے اسی لئے جموں وکشمیر کے لیڈروں سے خصوصی طورپر اپیل کی کہ وہ نئی حد بندی کے عمل میں سرگرمی کے ساتھ شریک ہوں تاکہ اس عمل کے بعد انتخابی سرگرمی شروع کی جاسکے۔یہ یاد رکھنا چاہئے کہ محبوبہ مفتی کی حکومت کے گرنے کے بعد 19جون 2018سے ریاست براہ راست مرکز ی حکومت کے زیر انتظام ہے۔اس دوران مرکزی حکومت نے اور خاص طورپر وزیر اعظم نے کئی بار اس خواہش کا اظہار کیا کہ ریاست میں جلد سے جلد سیاسی عمل کا آغاز ہونا چاہئے۔اس سلسلہ میں نومبر 2020میں جے اینڈ کے کی ترقیاتی کونسلوں کے آٹھ مرحلوں میں انتخابات ہوئے اور مقامی لیڈروں کو کونسل میں شامل ہونے کا موقعہ ملا۔ابھی لوک سبھا کے انتخابات میں کم وبیش تین سال باقی ہیں۔لہذانئی حد بندی کا عمل اسمبلی الیکشن کو ہی نظر میں رکھ کر انجام دیا جارہا ہے۔اسمبلی کے انتخابات کا دارومدار اسی امر پر ہوگا کہ کتنی جلدی ڈی لمٹیشن کا عمل پورا ہوتا ہے۔

مرکزی حکومت نے جموں وکشمیر میں صدر راج کے دوران ریاست کے خصوصی درجہ کا خاتمہ کرکے غلط کیا یا صحیح اس پر بہت بحث ہوچکی ہے۔مجھے ایک طرف جہاں اس فیصلہ کی حمایت کی کوئی جلدی نہیں ہے وہیں دوسری طرف اس فیصلہ سے اختلاف کا اب کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔5 اگست 2019کے بعد سے اب تک جہلم اور چناب میں بہت پانی بہہ چکا ہے۔ سر دست دوسوالوں کا جواب آنا بہت ضروری ہے۔

پہلا: جموں وکشمیر کے خصوصی درجہ سے کشمیری عوام اور خاص طورپر کشمیری نوجوانوں کو فائدہ کیا ہوا اوردوسرا: خصوصی درجہ چھننے کے بعد ان کا نقصان کیا ہوا۔

میرا خیال یہ ہے کہ ان دونوں سوالوں کا جواب ریاست کے ان لیڈروں سے حاصل کیا جانا چاہئے جو آزادی کے بعد سے نومبر 2018تک یہاں حکومت کرتے رہے۔اگر وہ ان سوالوں کا درست جواب نہ دے سکیں تو پھر انہیں ریاست کے عوام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہے۔ میرا موقف یہ ہے کہ کشمیری عوام کے مسائل کے حل میں کشمیری لیڈر نہ صرف یہ کہ بری طرح ناکام رہے بلکہ بیشتر مسائل انہوں نے ہی پیدا کئے۔کسی بھی ریاست کی خوشحالی کا پیمانہ وہاں کے لوگوں کی فی کس آمدنی‘ نوجوانوں کا باروزگار ہونا اور انڈسٹری کی آزادانہ سرگرمیاں ہوتا ہے۔کشمیر میں جغرافیائی مسائل کے سبب انڈسٹری نہیں لگائی جاسکی لیکن وادی کی سب سے بڑی قدرتی انڈسٹری وہاں کی سیاحت ہے۔اب یہ دیکھاجانا چاہئے کہ وہاں کے نوجوانوں کی بے روزگاری کا فیصد کیا ہے۔

اس ضمن میں ممبئی کے سینٹر فار مانیٹرنگ آف انڈین اکانومی  کے 19اپریل 2021کے سروے کے مطابق وہاں کا بے روزگاری فیصد16.01ہے۔جبکہ پورے ملک کا مجموعی فیصد محض 6 ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کے احوال پر ڈاکٹر عاصمہ حسن نے ایک ریسرچ کی ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ یہاں نوجوانوں میں نشہ کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔انہوں نے بے روزگاری کو اس کا بڑا سبب قرار دیا ہے۔بے روزگاری کی وجہ سے ان کی شادیوں میں تاخیر ہورہی ہے اور مناسب وقت پر ان کی شادیاں نہیں ہورہی ہیں۔اس کی وجہ سے نوجوان ذہنی الجھنوں میں گرفتار ہورہے ہیں۔بے روزگاری کا معاشرہ پر برا اثر پڑتا ہے۔وزیر اعظم نے خصوصی درجہ کے خاتمہ کے فوری بعد اعلان کیا تھا کہ جلد سے جلد ریاست کی خالی اسامیوں پر بھرتی کا عمل شروع کیاجائے گا۔لہذا 2020کے اوائل میں جموں وکشمیرسروس سلیکشن بورڈنے چوتھے درجہ کی 8ہزار اسامیوں پر بھرتی کیلئے اشتہار جاری کیا۔اورمحض 8ہزار نوکریوں کیلئے 5لاکھ 40ہزار نوجوانوں کی درخواستیں آگئیں۔

بہت سے بے روزگار نوجوان سمجھتے ہیں کہ حکمرانوں کی غفلت‘ بدانتظامی اور حکمراں خاندانوں کی بدعنوانی ریاست کے سب سے بڑے مسائل ہیں۔اب تک یہی ہوتا آیا ہے کہ سرکاری نوکریاں وزیروں‘ نوکر شاہوں اور اعلی افسروں نے نے اپنے اعزاء واقربا کو بانٹ دی ہیں۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ریاست کا خصوصی درجہ ختم ہونے کے بعد پانچ لاکھ روزگار ختم ہوگئے ہیں۔اس پر کورونا اور لاک ڈاؤن نے بھی بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے۔2011کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ 25لاکھ تھی۔اس میں 70فیصد سے زیادہ آبادی 35برس سے کم عمر کے لوگوں پر مشتمل تھی۔ایسے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کی 70فیصدآبادی بے روزگاری کے ’دائمی مرض‘ کا شکار ہے۔خصوصی درجہ کے خاتمہ کے 12مہینوں کے اندر اندر ریاست کے تین لاکھ اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں نے خود کوبے روزگار کے طورپر رجسٹر ڈ کرایا تھا۔ان میں پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی کے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعدادشامل ہے۔یہاں تک کہ خصوصی درجہ کے خاتمہ سے پہلے بھی بے روزگاری کے معاملہ میں جموں وکشمیر ملک کی ان 6ریاستوں میں شامل تھا جہاں بے روزگاری عروج پر تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ بے روزگاری اور اس سے پیدا ہونے والے دوسرے معاشرتی مسائل اچانک تو پیدا نہیں ہوگئے۔آزادی کے بعد سے وہاں ایک لمبے عرصہ تک شیخ عبداللہ خاندان کی ہی حکومت رہی ہے۔اس خاندان سے بڑے پیمانے پر لوگ ناراض بھی رہتے ہیں۔اس کے باوجود سیاسی طورپر یہی خاندان غالب رہا۔لیکن اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ دوسری پارٹیاں اس صورتحال سے بری ہیں۔کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف سب اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔لیکن وزیر اعظم نے ریاست میں جمہوری اقدارکی واپسی کا جو وعدہ کیا تھا اس کی روشنی میں ریاست کی انہی سیاسی پارٹیوں سے گفتگو لازم تھی۔یہ ذمہ داری ریاست کے عوام کی ہے کہ وہ ایک صاف ستھرا سیاسی ماحول قائم کریں اور بدعنوان سیاستدانوں کو ان کا اصل مقام دکھاکر ایک صالح اور نوجوان قیادت پیدا کریں۔اس کے لئے جس پر امن سیاسی فضا کی ضرورت ہے وہ قائم کرنا اب مرکز کی ذمہ داری ہوگئی ہے۔ایک عرصہ سے اقتدار اوراپوزیشن کے گلیاروں میں بیٹھنے والی سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ آخر کب تک کشمیری عوام کو ان کے شہری حقوق سے محروم رکھ کر اپنی سیاست کی دوکانیں چلاتے رہیں گے۔

ریاست کے خصوصی درجہ کے خاتمہ سے کیا فائدہ ہوا اس پر ابھی ایک طویل عرصہ تک تجزیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ 5اگست 2019کے بعد سیاستدانوں کی آزادانہ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پرلگنے والی قدغن پرعالمی سطح پر مختلف آراء کا اظہار کیا گیا لیکن ایک نکتہ پر سب متفق نظر آتے ہیں کہ ریاست میں دہشت گردانہ واقعات میں زبردست کمی آئی ہے۔ظاہر ہے کہ سیاسی آزادی کا ماحول قائم کرنے اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کیلئے جس پر سکون فضا کی ضرورت ہے وہ دہشت گردی کی فضا ختم کرکے ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ اور اس سلسلہ میں مرکزی حکومت بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ریاست کے وہی بدعنوان سیاستداں‘جنہوں نے کشمیر کو اس حال تک پہنچایا ہے نئی صورتحال سے کوئی سبق لیتے ہیں یا نہیں؟