جامعہ ملیہ اسلامیہ: دیار شوق اور شہر آرزو

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 27-01-2021
جامعہ ملیہ اسلامیہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ

 

پروفیسر اخترالواسع
جامعہ ملیہ اسلامیہ شیخ الہند مولانا محمود حسن کی دعاؤں، مہاتما گاندھی کے آشیرواد، رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوہر کے جذبہئ صادق، مسیح الملک حکیم اجمل خاں،ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور اے ایم خواجہ کی ایثارپیشگی کا نتیجہ ہے۔ اسے ذاکر صاحب نے جو اس کے قیام میں علی گڑھ میں پیش پیش تھے اور بعد ازاں اپنے دو رفقاء محمد مجیب اور ڈاکٹر سید عابد حسین کے ذریعہ نہ صرف نئی زندگی دی بلکہ نئی بلندیوں اور علمی رفعتوں کا حامل ادارہ بنا دیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وہ سفر جو علی گڑھ میں خیموں میں شروع ہوا تھا وہ 1925میں) قرول باغ میں کرایے کے مکانوں میں جاری رہا۔ 1935کے آس پاس سے جنوبی دہلی میں دریائے جمنا کے کنارے اوکھلا گاؤں میں نئی عمارتوں کی تعمیر کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ صرف ایک درس گاہ نہیں بلکہ ایک تحریک کا نام تھی جس میں رہبرانِ وطن نے یہ سوچا کہ اگر ہم وطن عزیز کو مکمل آزادی نہیں دلا سکتے تو کم سے کم اپنی تعلیم کو تو سامراجی تسلط سے آزاد کرا لیں۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد یہ بھی تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی نئی نسل میں ایسے مسلمان نوجوان ذہنی اور فکری طور پر تیار کیے جائیں جو اسلامیت اور ہندوستانیت کا بہترین نمونہ ہوں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ حصول آزادی کیا بلکہ اس کے بعد بھی ایک عرصے تک پیمبری دور سے گزری لیکن اس کے چاہنے اور چلانے والوں نے ہمت نہیں ہاری۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے۔ انہوں نے خود اپنے گھروں کو چاہے نیم روشن رکھا مگر ہمارے گھروں اور مستقبل کو منور رکھنے کے لیے کسی قربانی سے کبھی گریز نہیں کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر ذاکر حسین واردھا ایجوکیشن اسکیم کے سربراہ کی حیثیت سے گاندھی جی کی پہلی پسند تھے اور واردھا ایجوکیشن اسکیم کے لیے جامعہ کا اسکول پہلی تجربہ گاہ بھی قرار پایا۔ جامعہ برادری کا تصور تھا، کوئی چھوٹا اور بڑا نہیں تھا بلکہ ایثار، قربانی، قناعت،توکل اور استغنا جامعہ والوں کی پہچان تھی۔ جامعہ پر جب پیغمبری وقت تھا تو کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دے ڈالا کہ اگر اس کے نام سے اسلامیہ ہٹا دیا جائے تو شاید مالی امداد حاصل کرنے میں سہولت ہو۔ مہاتما گاندھی کو جب اس مشورے کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ جامعہ سے اپنا رشتہ ختم کر لیں گے۔ ان کا جامعہ سے تعلق اور رشتہ اسی وقت تک ہے جب تک وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نے جہاں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کو ایک نئی معنویت بخشی تو شفیق الرحمن قدوائی مرحوم کی رہنمائی میں ادارہئ تعلیم وترقی نے تعلیم کے غیررسمی طور پر نئے امکانات کو فروغ دیا۔ استادوں کا مدرسہ یعنی ٹیچرس ٹریننگ کالج سعید انصاری اور سلامت اللہ صاحبان کی قیادت میں صرف دلّی ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ادارہ قرار پایا۔ رورل انسٹی ٹیوٹ نے زمینی سطح پر خاص طور پر جامعہ سے ملحق دیہی علاقوں میں وہ غیرمعمولی کام کیے اور ایسے لوگ تیار کیے جس سے جامعہ کی قدرومنزلت اور افادیت کا لوہا سب نے مانا۔ جامعہ کو شاید اکیلے یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنی سِلور جبلی تقریبات میں ایک ہی اسٹیج پر قوم پرور، جداگانہ قومیت کے ماننے والوں اور دیسی ریاستوں کے نمائندہ سمیت سب کو جمع کر دیا تھا اور وہ ایک طرح سے آخری کوشش تھی ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم سے بچانے کی۔
آزادی کے بعد جامعہ والوں کو بجا طور پر، فوری طور پر ایک یونیورسٹی کے طور پر وہ سب کچھ مل جانا چاہیے تھا جس سے انگریزی سامراج نے اسے اس کے قیام سے اب تک محروم کر رکھا تھا لیکن اس وقت شاید جواہر لال نہرو ہوں یا مولانا ابوالکلام آزاد، ان کی ترجیحات میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا تحفظ تھا جس کے لیے دونوں نے ذاکر صاحب کو جو کل علی گڑھ کے باغی کے طور پر جانے جاتے تھے اب اس کی حفاظت کے لیے جامعہ سے وہاں بھیج دیے گیے۔ 1963کے آس پاس جامعہ کو ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ عطا ہوا۔ مجیب صاحب جو 1948سے ذاکر صاحب کے بعد شیخ الجامعہ تھے وہی اس کے پہلے وائس چانسلر بنے اور 1973تک اس منصب پر فائز رہے۔ مجیب صاحب کی صحت اچانک خراب ہونے کی وجہ سے پروفیسر مسعود حسین خاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر ہوئے۔ ان کے بعد انور جمال قدوائی، پروفیسر علی اشرف، ڈاکٹر سید ظہور قاسم، پروفیسر بشیرالدین احمد، لیفٹیننٹ جنرل ایم اے ذکی، سید شاہد مہدی، پروفیسر مشیرالحسن، نجیب جنگ، طلعت احمد اور ڈاکٹر نجمہ اختر نے جامعہ کی کمان سنبھالی۔ ڈاکٹر نجمہ اختر کو یہ امتیاز حاصل ہے اور جامعہ اس پر جتنا فخر
کرے کم ہے کہ پہلی بار ہندوستان میں کسی مرکزی یونیورسٹی کی وہ پہلی خاتون وائس چانسلر ہیں۔
 
جامعہ ملیہ اسلامیہ کا یہ اختصاص بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہاں کے شعبہئ اردو کے پروفیسر و صدر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ تھے اور شعبہئ ہندی کے پروفیسر و صدر ڈاکٹر مجیب رضوی تھے۔ ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر جو جامعہ کو انور جمال قدوائی صاحب کی دین تھا
اگر ایشیا میں نہیں تو جنوبی ایشیا میں ضرور پوسٹ گریجویٹ ڈگری دینے والا پہلا ادارہ تھا جس کے فارغین نے الیکٹرانک میڈیا، فلم اور ان سے جڑے ہوئے میدانوں میں غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ اسی طرح علی اشرف کے زمانے میں انجینئر نگ کالج، اکیڈمی آف تھرڈ ورلڈ اسٹڈیز اور اسی طرح پروفیسر مشیرالحسن کے زمانے میں جامعہ کی مختلف علوم کے میدان میں توسیع ہوئی، سینٹرس کھلے، ڈینٹل کالج شروع ہوا، وہ سب غیرمعمولی اہمیت کی چیزیں ہیں۔

آج جامعہ جب اپنے قیام کے سو سال پورے کر چکی ہے تو وہ اپنے ملک کی وزارتِ تعلیم کے پیمانوں کے مطابق تمام مرکزی یونیورسٹی میں نمبر ایک کے منصب پر فائز ہے۔ اسٹین فورڈ یونیورسٹی امریکہ کی رینکنگ میں کیمسٹری میں نمبر ایک کا سائنس داں جامعہ کے پروفیسر عمران علی کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی لِسٹ میں آدھے درجن کے قریب جامعہ کے اساتذہ ممتاز سائنس دانوں کی حیثیت سے شمار کیے گیے ہیں۔ جامعہ کا یہ شاندار، تابناک علمی سفر اسی طرح جاری رہے یہی ہماری دعا ہے۔
(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)