عراق: سعودی عرب کا امتحان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 31-07-2021
عرب سیاست اور عرب دنیا
عرب سیاست اور عرب دنیا

 

 

awazurdu

 ایم ودود ساجد  

افغانستان کے بعد اب عراق سے بھی امریکی افواج اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی ہیں۔صدر جوئے بائیڈن نے اعلان کردیا ہے کہ امریکہ اس سال کے آخر تک عراق کی سرزمین چھوڑ دے گا۔افغانستان اور عراق کے پڑوسی ممالک کیلئے ان دونوں ممالک کی صورتحال میں زمین وآسمان کا فرق ہے لیکن امریکہ کیلئے دونوں ممالک میں فوجی موجودگی بڑی مہنگی پڑگئی۔بلکہ عراق کی جنگ نے افغانستان سے کہیں زیادہ امریکہ کو مالی اور انسانی خسارہ پہنچایا۔

 امریکہ نے افغانستان میں 20سال میں 144ملین ڈالر خرچ کئے۔جبکہ عراق میں 17-18سال میں 757 بلین ڈالر خرچ کئے۔یعنی دونوں ممالک کے خرچ کے درمیان کوئی موازنہ ہی نہیں۔یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ افغانستان اور عراق میں کل سات ہزارامریکی فوجی اور 8ہزار غیر فوجی کنٹریکٹرس ہلاک ہوئے۔اس کے علاوہ 9/11کے بعد سے اب تک 30ہزار177 سروس ممبرس اور ریٹائرڈ فوجیوں نے خود کشی کی۔ افغانستان‘پاکستان‘عراق اور شام کے توایک لاکھ 77ہزار فوجی مارے گئے۔عراق میں امریکی افواج کی چڑھائی کے بعد سے اب تک دو لاکھ سات ہزار 156 عراقی شہری براہ راست تشدد میں ہلاک ہوئے۔

 افغانستان میں امریکی انخلاء کے بعد بر صغیراوروسط ایشیا کا جو نقصان ہوگا عراق میں امریکی موجودگی کا اس سے کہیں زیادہ نقصان خلیج کوپہلے ہی پہنچ چکا ہے۔خطہ کی سیاسی صف بندی الٹ پلٹ ہوگئی ہے اور عراق کے عرب ملک ہونے کے باوجود وہاں ایران اثر انداز ہورہا ہے۔عرب ملکوں کیلئے اور خاص طورپر سعودی عرب کیلئے یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔

 یہ ہر جگہ ہوتا ہے۔کمزور ملک میں پڑوسی طاقتورملک اپنا اثر ورسوخ رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے راستے وہ دوسرے طاقتورملک پر کنٹرول رکھ سکے۔آج کی مہذب دنیا کی یہ ایک حقیقت ہے۔لیکن ایران اور عراق کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ایران ایک غیر عرب شیعہ ملک ہے۔جبکہ عراق بڑی شیعہ آبادی والا ایک عرب ملک ہے۔عراق کے دوسرے سرے پر سعودی عرب ہے۔ایران اور سعودی عرب مسلکی اور سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ایسے میں عراق میں ایران کی موجودگی کو عرب ممالک اور خاص طورپر سعودی عرب اپنی سلامتی اوربقاء کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے۔

 یہ بات شاید قارئین کو عجیب سی لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سعودی عرب اس حق میں نہیں تھا کہ امریکہ عراق کے صدر صدام حسین کے اقتدار کا خاتمہ کردے۔کم سے کم سعودی حکمراں یہ تو بالکل نہیں چاہتے تھے کہ امریکی فوجیں عراق میں دیر تک قیام کریں۔صدام حسین کے خاتمہ کے بعد عراق میں جو حکومت وجود میں آئی باہر کی دنیا نے اسے امریکی کٹھ پتلی کا نام دیا۔لیکن سعودی عرب نے اسے امریکہ کی نہیں ایران کی ایجنٹ قرار دیا۔

عراق کے سابق شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی نے حلف لینے کے بعد پہلا دورہ سعودی عرب کا کیا تھا۔انہوں نے سعودی عرب کے شاہ عبداللہ سے ملاقات کرکے ان سے تعاون مانگا تھا لیکن شاہ عبداللہ نے ان سے ملاقات کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ نوری المالکی خالصتاً ایرانی ایجنٹ ہیں۔شاہ عبداللہ نے نوری المالکی پر اعتماد نہیں کیا اور عراق کے ذریعہ کویت پر چڑھائی کے بعد سعودی عرب نے عراق سے جو سفارتی رشتے توڑ لئے تھے شاہ عبداللہ نے انہیں جوڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہاں تک کہ خود امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے شاہ عبداللہ کو قائل کرنے کی بڑی کوشش کی کہ وہ نوری المالکی کے سر پر دست شفقت رکھ دیں لیکن یہ خیال شاہ عبداللہ کے دل میں جاگزیں ہوچکا تھا کہ نوری المالکی پکے ایرانی ایجنٹ ہیں۔

 مبصرین کا خیال ہے کہ شاہ عبداللہ کے اس سخت موقف کے سبب ہی ایران کو عراق میں سیاسی طورپر اپنی برتری قائم کرنے کا موقع ملا۔یہ بات درست ہے کہ شاہ عبداللہ سخت گیر تھے لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ نوری المالکی نے مسلکی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عراق کے سنیوں کے خلاف بعض سخت فیصلے کئے تھے۔گوکہ مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ نوری المالکی شاہ عبداللہ کے رویہ کے سبب ایران کے قریب ہوگئے تھے ورنہ وہ شیعہ ہونے کے باوجود ایک قوم پرست عراقی بھی ثابت ہوئے۔

 لیکن نوری المالکی ایک قوم پرست عراقی ہونے کے باوجود ایران کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کو نہ روک سکے۔ایران سے تعلیم پاکر لوٹنے والے سخت گیر نوجوان مقتدی الصدر نے جو (دہشت گرد) ملیشیا بنائی تھی ابتدا میں اسے ایران نے ہی تعاون دیا تھا۔مقتدی الصدر ایک طرف اگر امریکی فورسز پر حملے کر رہا تھا تو دوسری طرف وہ عراق کے سنیوں کے خلاف بھی جارحانہ رویہ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔یہی نہیں اس نے ان عراقی شیعہ پیشواؤں تک کو نشانہ بنایا جو شیعہ سنی اتحاد کی وکالت کرتے تھے۔یعنی مقتدی الصدر امریکی فوجیوں کے ساتھ ساتھ سنی آبادی کو بھی عراق بدر کرنا چاہتا تھا۔

 ایسے میں ایران سے نوری المالکی کے مضبوط تعلقات ضروری ہوگئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ایران کو مقتدی الصدر کو مزید عسکری اور مادی مدد دینے سے باز رکھ سکے۔مقتدی الصدر نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا تھا اگر اسے جاری رہنے دیا جاتا تو عراق کی سنی آبادی کو بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا۔سعودی عرب کی موجودہ قیادت نے اس نکتہ کو سمجھ لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب سعودی عرب اپنے پڑوسی ملک عراق سے مراسم استوار کر رہا ہے۔پہلے امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر اور اب سعوی وزیر خارجہ کے دورہ عراق نے دونوں ملکوں کو اور قریب کردیا ہے۔سعودی عرب میں یہ خیال تقویت پارہا ہے کہ ہرچند کہ عراق میں شیعہ اکثریت اقتدار میں ہے پھر بھی عراق کو عرب ممالک کی صفوں میں رکھنا ضروری ہے۔بصورت دیگر ایران اس خطہ میں مزید مضبوطی حاصل کرلے گا۔یمن میں وہ پہلے ہی حوثیوں کو سعودی عرب کے خلاف مدد دے رہا ہے۔

 اب یہاں ایک مشکل یہ کھڑی ہوگی کہ جب اس سال کے آخر تک امریکہ عراق سے نکل جائے گا تو مقتدی الصدر کی ملیشیا پھر سر ابھارسکتی ہے۔خاص طورپر ایسے میں کہ جب عراقی حکومت سعودی عرب سے مراسم بڑھا رہی ہے ایران مقتدی الصدر کی ملیشیا کو آگے بڑھانے کے متبادل پر غور کرسکتا ہے۔ویسے بھی صحیح معنی میں ایران کا اگر کوئی بہترین ایجنٹ ہوسکتا ہے تو وہ مقتدی ہی ہے۔صدام کے خاتمہ کے فوراً بعد وہ ایران سے لوٹ آیا تھااوراس نے مہدی آرمی بنالی تھی۔کہتے ہیں کہ اپریل 2003 میں مشہور شیعہ لیڈر آیت اللہ عبدالمجیدالخوئی پر بھی اسی نے حملہ کرایا تھا۔آیت اللہ اس وقت نجف میں امام علی کی درگاہ کے اندرموجود تھے۔

 مقتدی کے خلاف عراقی عدلیہ نے گرفتاری وارنٹ جاری کردیا تھا لیکن وہ ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکا۔ابھی تک مقتدی کا پتہ بھی نہیں چل سکا ہے کہ وہ کہاں ہے۔اندازہ یہی ہے کہ وہ پھر ایرا ن چلا گیا ہے اور ایران ضرورت پڑنے پر اسے عراق میں اتارکرپھر سرگرم کرسکتا ہے۔ایسے میں سعودی عرب کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے۔ عراق کے ساتھ سعودی عرب کے روابط ایسا لگتا ہے کہ جلد ہی مزید آگے بڑھیں گے۔بغداد میں 25سال کے بعد سعودی عرب کا سفارتخانہ پھر کھل گیا ہے۔

 ایران نے شام کی خانہ جنگی میں بشار الاسد کی خونی سرگرمیوں کا ساتھ دے کر عربوں پر واضح کردیا تھا کہ اسے عدل وانصاف سے کوئی غرض نہیں بلکہ وہ ہر اس طاقت کا ساتھ دے گا جو عرب معاشرہ کے اتحاد کا دشمن ہو۔ایران کی نیوکلیائی پیش رفت بھی خطہ کے امن کیلئے کم خطرناک نہیں ہے۔ادھر اسرائیل بھی یہ نہیں چاہے گا کہ عراق میں ایران کا عمل دخل رہے اور وہ عربوں کیلئے حقیقی خطرہ بن جائے۔عرب معاشرہ میں نہ سہی لیکن عرب حکمرانوں کے دلوں میں اسرائیل کے تئیں نرم روی میں اضافہ ہورہا ہے۔لہذا ایران کی عراق میں بڑھتی ہوئی مداخلت پر اسرائیل بھی نظر رکھے گا۔

ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی بہت زیادہ سخت گیر بتائے جاتے ہیں۔جون میں منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن میں ایران کی گارجین کونسل نے جس طرح رئیسی کے حریفوں کی نامزدگیاں مسترد کیں اورجس طرح 13فیصد سے زیادہ ووٹوں کوکالعدم قرار دیااس سے ایران کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔رئیسی ایران کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں اور ان کے زمانے میں ہزاروں سیاسی حریفوں کو پھانسی پر چڑھایا گیا ہے۔یہاں تک کہ جب وہ خمینی کے زمانے میں 1988میں چار رکنی ٹریبونل کے ممبر بنائے گئے تھے وہ محض 28سال کے تھے۔انہوں نے محض چند مہینوں میں پانچ ہزار سے زیادہ سیاسی قیدیوں کو پھانسی کی سزا دلوائی تھی۔

 جنہیں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا انہیں احترام کے ساتھ انفرادی قبروں میں دفن نہیں کیا گیا اور اجتماعی قبروں میں دفن کئے جانے والوں کے نام تک نہیں بتائے گئے۔ایسے سخت گیر صدر کے حلف لینے کے بعد حالات میں مزید ابتری کا اندیشہ ہے۔اس کے امکانات بہت کم ہیں کہ نیوکلیائی پیش رفت پر امریکہ ایران سے کوئی صلح کرسکے گا۔نومنتخب صدر نے پہلے ہی اس سلسلہ میں امریکہ کو برگشتہ کرنے والے بیانات جاری کردئے ہیں۔ اگلے چند مہینے خلیج کی عالمی سیاست کیلئے بڑے نازک ہوں گے۔