ہندوستان میں بین المذاہب مکالمہ: گفتگو ختم نہ ہو

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-07-2021
ہندوستان میں بین المذاہب مکالمہ
ہندوستان میں بین المذاہب مکالمہ

 

 

awazurdu

 پروفیسر اخترالواسع

کثرت میں وحدت، ہندوستان کی سب سے بڑی خوبی ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے مذہب اور ان کے مذہبی صحیفوں کو جاننے اور سمجھنے کا ایک تجسس بھی پیدا ہوتا ہے۔ اِدھر سیاست ہو یا معیشت، دونوں نے جو فیصلے اور دوریاں پیدا کی ہیں اس کے لئے بڑی آسانی سے مذہبی روایات و اقدار کو ذمہ دار قرار دے دیا ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ مذہب کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

اللہ بھلا کرے پروفیسر مولانا سعود عالم قاسمی، ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا، جنہوں نے مذاہب کے نام پر جو دیواریں اٹھائی جا رہی ہیں، مختلف مذاہب کے صحیفوں کی تعلیمات کو جس طرح سے توڑ مروڑ کے پیش کیا جا رہا ہے، جس طرح مختلف مذاہبکے پیشواؤں کو مطعون کیا جا رہا ہے۔

اس سب کے پیش نظر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور کی سرپرستی اور رہنمائی نے ایک دو روزہ بین الاقوامی ویبینار منعقد کیا اور جس میں اس بات کی اپنی جیسی بھرپور کوشش کی کہ جن جن مذاہب کے پیشوا، اپنے اپنے مذاہب اور ان سے جڑی ہوئی کتابوں کو متعارف کرانے کے لئے جمع ہو سکتے ہیں، انہیں مدعو کیا جائے۔

اس ویبینار کا افتتاح پروفیسر طارق منصور نے کیا اور موضوع کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم ایک تکثیری سماج میں رہتے ہیں اور ہماری بہت ساری قدریں باہمی طور پر مشترک ہیں۔ ان مشترک قدروں پر ہم کو سنجیدگی اور مرکزیت کے ساتھ عمل کرناہوگا۔ اس کے نتیجے میں ایک صحت مند اور صالح معاشرے کی تشکیل عمل میں آ سکے گی۔ مذاہب کے سلسلے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کے لئے ان کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا مقدس کتابوں کے مطالعے کے علاوہ ایک دوسرے کی تہذیب اور زبان کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس ویبینار کے محرک اور ڈائریکٹر پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی نے کہا کہ پرامن بقائے باہم کے لئے دوسرے مذاہب اور ان کی مقدس کتابوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

عموماً لوگ اس بات سے واقف نہیں ہوتے کہ مذہبی کتابوں میں کس طرح کی درجہ بندی ہے۔ کون سی مذہبی کتابیں اساسی طور پر قانونی درجہ رکھتی ہیں اور کون سی کتابیں ہر مذہب میں ثانوی اہمیت کی حامل ہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ تمام مذاہب میں جو مشترکہ اقدار ہیں وہ تمام انسانوں کا مشترکہ سرمایہ ہے اور اس لئے ان تمام روشن قدروں کو گہرائی سے سمجھنے اور فروغ دینے کے لئے مختلف مذاہب کی آسمانی اور دیگر مذہبی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔

راقم الحروف کو اس ویبینار میں مہمان خصوصی کے طور پر یاد کیا گیا تھا اور دراصل یہ ایک سعادت تھی جو میرے حصے میں آئی۔ میں ہمیشہ سے اس بات کا حامی رہا ہوں کہ ہم صرف کلمہ طیبہ پڑھ کر ہی مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم اللہ کی توحید و کبریائی اور جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی آخری رسول کی حیثیت سے تائید اور توثیق نہ کریں، ان پر ایمان نہ لائیں اور ایسا کرتے ہی ہم فوراً ایمانِ مفصل پر اپنے اس ایمان و یقین کا اعلان نہ کر دیں جو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ہونا لازمی ہے۔ قرآن کے لفظوں میں ”ہم صرف رسولوں پر ایمان ہی نہیں لاتے بلکہ ان میں سے کسی میں فرق بھی نہیں کرتے۔“میری نظر میں اس ویبینار کا علی گڑھ میں ہونا غیر فطری نہیں تھا۔اس لئے کہ عہد اکبری میں رامائن اور مہابھارت کے جو فارسی تراجم ہوئے تھے ان کو سب سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پبلی کیشنز دویژن نے ہی زیورِ طبع سے آراستہ کرایا تھا۔

یہ علی گڑھ کے پیردانا سرسید ہی تھے جنہوں نے قرآن کریم کے علاوہ انجیل مقدس کی بھی تفسیر لکھی تھی۔ یہ مسلمانوں کا فرض بھی ہے کہ وہ ابو ریحان البیرونی سے داراشکوہ کی طرح ہندوستانی کی دینی و علمی روایات کو ایک بار پھر زندہ کریں۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ مذہبی عقائد میں اختلاف قیامت تک باقی رہیں گے۔ اصل چیز یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے اور ایک دوسرے کے مذہب و ثقافت کا احترام کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں مختلف مذاہب کی تفہیم کے لئے ادارہ سازی کرنی چاہیے تاکہ سماج میں ایک مثبت رویہ پروان چڑھ سکے۔

اس موقعہ پر میتھو ڈِسٹ چرچ کی نمائندگی کرتے ہوئے فادر جوناتھن لال نے کہا کہ ہندوستان کی خوبی یہ ہے کہ اس کی زیبائش تکثیریت سے عبارت ہے اور یہ تکثیریت مختلف مذاہب کے آئینے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدیوں سے ہندوستان میں مذہبی اقدار، تہذیبی روایات، ایک دوسرے کے ساتھ پرامن بقائے باہم کے اصول کے تحت فروغ پاتے رہے ہیں۔ بھوٹان سے تعلق رکھنے والے بدھسٹ رہنما ڈاکٹر سمدھو چیتری نے بدھ مذہب کے عدم تشدد کے فلسفے پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کے جمالیاتی پہلوؤں کو نمایاں کیا۔

ہندو مذہب کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے سوامی پرمانند پوری جی مہاراج، صدر، وشو کلیان سیوا سنستھان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو اسلام سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہیے تاکہ اسلام کے بارے جو غلط باتیں لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ دور ہو سکیں۔

آنند فاؤنڈیشن نئی دہلی کے بانی پروفیسر بھائی بلدیپ سنگھ نے کہا کہ کس طرح سے سکھ گروؤں نے ہماری سماجی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار سے روشنی لیتے ہوئے سکھ مذہب کو توانائی بخشی۔ اپنے صدارتی خطاب میں مشہور مذہبی دانشور اور سرسید اکیڈمی کے سیکریٹری پروفیسر سید محمد نقوی نے کہا کہ آج ساری دنیا میں مذہبی رواداری کی ضرورت ہے اور مذاہب کی مشترکہ اقدار کو فروغ دینے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے سربراہ پروفیسر طارق منصور کی رہنمائی میں افہام و تفہیم، خیرسگالی اور مذہبی مکالمے کی جو نئی سبیل نکالی ہے وہ انتہائی مستحسن ہے۔ کیوں کہ ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں وہ نہ مجادلے کا ہے نہ مناظرے کا بلکہ مکالمے کا ہے۔ آج اسلام اور مسلمانوں کی جو گھیرا بندی ہو رہی ہے اس سے نجات پانے کا یہی واحد راستہ ہے کہ: (مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس ہیں)