کیاسالم پہچان ہے اس کی : پروفیسر نجمہ رحمانی کی یاد میں :

Story by  عمیر منظر | Posted by  [email protected] | Date 08-04-2025
 کیاسالم پہچان ہے اس کی : پروفیسر نجمہ رحمانی کی یاد میں
کیاسالم پہچان ہے اس کی : پروفیسر نجمہ رحمانی کی یاد میں

 



    ڈاکٹر عمیر منظر
          شعبہ اردو 
          مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس۔لکھنؤ
 
نجمہ رحمانی بھی خدا کے جوار رحمت میں چلی گئیں،یقین نہیں آتا مگر یقین کرنا پڑتا ہے۔ جب بیماری کی خبر ملی تو ایک کھٹکاسا تھا لیکن خدا کی ذات سے قوی امید تھی کہ وہ جلد صحت یاب ہوکر حسب معمول زندگی کی سرگرمیوں کا حصہ بن جائیں گی مگر ایساممکن نہ ہوسکا۔انتقال سے چند روز پہلے پروفیسر سراج اجملی نے ان کے بارے میں جو کچھ بتایا تو پھر دھڑکا بڑھتا ہی چلا گیا اور بالآخر وہ ساعت آگئی جو مقرر تھی۔شدنی کو کوئی ٹال نہیں سکتا مگر یہ ایک بہت افسوس ناک موت تھی۔
موت نے اس کو گلے لگایا جس نے ایک بے لوث اور بے خوف زندگی گزاری تھی۔جس کی زندگی حوصلہ مندیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس میں بہت کچھ اپنی شرطوں پر تھا، جس کی قیمت اس کے سوا کوئی دوسراچکا نہیں سکتاتھا۔ یہ کام بھی انھوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ کیا۔زندگی کے نشیب و فراز میں نجمہ رحمانی کا حوصلہ اور ان کا عزم ایساتھا کہ عام ادبی معاشرہ اس حوصلہ کی داد کا جوکھم کبھی نہیں اٹھاسکا  ؎
انھیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد
 واقعہ یہ ہے کہ ان کے پاس کھونے کے لیے زیادہ تھا اور پانے کی تمنا ان کے یہاں کم تھی۔اس کے باوجود انھیں بہت کچھ ملا۔دلی یونی ورسٹی کی مختلف ذمہ داریوں کو انھوں نے نہایت اہتمام اور شان سے انجام دیا۔ بنی بنائی لکیر سے آگے اک لکیر بنانے کی کوشش کی اور اپنے انداز و رنگ کا ایک نقش قائم کرنے کے لیے جو سعی کی وہ قابل قدر تھی۔ان کی شخصیت کی تعمیر میں یک گونہ بے اعتنائی اور بے ریائی کو دخل تھا۔خواہش دنیا ان کے قدم سے نہیں لپٹ سکی۔قدم قدم پر بکھری ہوئی ہوسناکیوں اور چالاکیوں کوانھوں نے ترقی کا زینہ نہیں بنایا۔جہان کہنہ سے جلدی گذرجانے کے باوجود ان کی شخصیت کی تابانی میں کوئی کمی نہیں واقع ہوئی۔بقول اختر الایمان  ؎
دیکھوں ہم نے کیسے بسر کی اس آباد خرابے میں 
نجمہ رحمانی نے دلی میں آنکھیں کھولیں یہیں پلی بڑھیں۔یہاں کے عام ادبی معاشرہ کو بہت قریب سے انھو ں نے دیکھا۔شعروادب سے والہانہ تعلق تھا۔مطالعہ بھی خوب تھا اور پڑھنے کا اک جنون بھی رکھتی تھیں مگر ان خوبیوں کے علاوہ ان کی ایک بڑی خوبی اظہار رائے بھی تھی۔ادب و سماج دونوں کے بارے میں ان کی رائے بالکل دوٹوک اور واضح رہتی تھی۔انھوں نے اختلاف بھی کیا اور اختلاف نظر کو برداشت بھی کیا۔بالعموم ادبی معاشرہ میں یہ چیزیں اتنے اہتمام کے ساتھ رائج نہیں ہیں۔جبکہ نجمہ رحمانی کے یہاں یہ دونوں چیزیں واضح تھیں۔مارچ 2024میں دلی یونی ورسٹی نے ”اردو میں حاشیائی ادب“ کے عنوان سے ایک سمینار کا اہتمام کیا اس میں مقالہ پڑھنے کے لیے لکھنؤ سے جناب سہیل وحید کو بھی مدعو کیا گیا۔انھیں یہ موضوع پسند نہیں آیا۔اس عنوان سے انھوں نے جو کچھ سمجھا اسے ایک تفصیلی مضمون کی شکل میں قلم بند کرکے منتظمین کو بھیج دیا۔بعد میں یہی مضمون  مختلف رسالوں میں شائع بھی ہوا۔لیکن سب سے اہم بات یہ رہی کہ اس ادبی اختلاف نظر نے دوونوں کے تعلقات پر آنچ نہیں آنے دی۔ اختلاف اپنی جگہ اور اخلاق کی پاس داری اپنی جگہ۔ دراصل یہی نجمہ رحمانی کا امتیاز رہا ہے۔بہت بے باک خاتون تھیں اور انھیں جو کہنا ہوتا اسے صاف صاف کہہ دیتی تھیں اور سننے کا حوصلہ بھی رکھتی تھیں۔بہت پہلے ریختہ پر زمرد مغل نے ایک انٹرویو کے دوران میں ان سے جب اچھے ادب کے بارے میں سوال کیا تو اس کاجواب سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا۔
 مضمون نگار  پروفیسر نجمہ رحمانی کے ساتھ ایک یادگار تصویر 
اچھے ادب کو جاننے کے لیے برے ادب کا ہونا ضروری ہے جو لوگ چور دروازے سے ہمارے یہاں آئے ہیں ان کا آنا بھی ہمارے لیے نعمت ہے۔ کم از کم اس حوالے سے ہم اچھے اور برے ادب کے درمیان فرق کرپارہے ہیں۔ اچھا ادب جذبات اور ذہن کی تربیت کرتا ہے اور اچھاادب وہ بھی ہے جو صرف رپورٹنگ نہ کرے بلکہ ان واقعات سے پیدا ہونے والے تاثر کو اگر آپ قاری تک پہنچانے میں کام یاب ہیں تو وہ اچھاادب ہے۔بہت سے افسانوں میں صرف رپورٹنگ ہوتی ہے جذبے کا رس اگر شامل نہ ہوتو تحریر کی تازگی کا احساس نہیں ہوگا۔ 
اسی طرح ان کے یہاں انسانیت نوازی کا بھی ایک ہنر تھا۔جب وہ کلاس سے باہر ہوتیں تو پوری دنیا ان کے نزدیک ایک کلاس روم بن جاتی جس میں سب ایک انسان ہونے کے ناتے برابر ہوتے۔ایسے میں سب کی تکلیف اور سب کا دکھ نجمہ صاحبہ کا دکھ بن جانا اور ان کی مدد میں ان کی فعالیت کا دریا رواں رہتا۔نہ کبھی کسی سے نام پوچھا اور نہ چہرہ دیکھا۔ان کی یہ ایسی خوبی تھی جس سے بالعمو م ادبی معاشرہ بے خبر تھا۔وہ اس مسئلہ پر کم لوگوں سے گفتگو کرتیں۔انسانیت کی یہ ایک خاموش خدمت تھی جو ایک لمبے عرصے سے وہ انجام دے رہی تھیں۔
پروفیسر نجمہ رحمانی سے ملاقات کا ذریعہ پروفیسر سراج اجملی تھے۔غالباً گریجویشن کا زمانہ تھا۔دلی میں ادبی جلسوں کی ہما ہمی تھی۔زیادہ تر پروگرام غالب اکیڈمی(بستی حضرت نظام الدین) میں ہی ہوتے تھے۔کچھ مخصوص پروگرام غالب انسٹی ٹیوٹ (ایوان غالب۔نئی دہلی)میں ہوا کرتے تھے۔ان پرو گراموں میں جن لوگوں سے ملاقات میرے لیے سرمایہ افتخار ثابت ہوئی ان میں پروفیسر مظہر احمد،پروفیسر نجمہ رحمانی،پروفیسر احمد محفوظ،جناب خالد بن سہیل اور کبھی کبھی رحیل صدیقی بھی ملاقات کا شرف بخشتے۔خالد بن سہیل بہت جلد اللہ کو پیارے ہوگئے۔وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ان کی وجہ سے محفل کے کیف و رنگ کے کیا کہنے۔اپنی جامہ زیبی کے سبب بھی مرکز مجلس ہوا کرتے تھے۔میر و غالب سے متعلق مقالوں پر چائے کی چسکی کے دوران میں ان کے تبصرے محفل کو زعفران زار بنادیتے تھے۔بے لاگ تبصرہ کرنے والوں میں نجمہ رحمانی صاحبہ سب سے منفرد تھیں۔ان سے ایک دوبار یہ بھی سننے کا اتفاق ہوا کہ وقت خراب کیاآکر۔نہیں معلوم کس وجہ سے ایسے لوگوں کو مدعو کرتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔کبھی کبھی یہ بھی کہتی کہ اب چلتے ہیں موڈ خراب ہوگیا۔
 دلی کی یہ ابتدائی ادبی دوستیاں تھیں جن کے توسط سے میں پروفیسر احمد محفوظ،نجمہ رحمانی اور خالد بن سہیل تک پہنچ سکا۔یہ بھی عرض کرتا چلو ں کہ پروفیسر سراج اجملی سے پہلی ملاقات ڈاکٹر تابش مہدی نے ایک شعری نشست میں کرائی تھی اور ان کا چند لفظوں میں تعارف پیش کیا تھا۔اس وقت بھی ان کی شخصیت پر بہت رشک آیا تھا اور آج بھی رشک کی یہ کیفیت برقرار ہے۔اللہ انھیں اپنے حفظ وامان میں رکھے۔
شعرو ادب کے شیدائیوں کا یہ ایک الگ ہی گروہ تھا جو صرف ہنسی مذاق تک محدود نہیں تھا بلکہ شعرو ادب کے بہت سے پہلوؤں پر ان کے درمیان مباحثے ہوتے۔اختلاف رائے ہونالازمی تھامگر اس کی کسی نے کبھی پروا نہیں کی۔ادبی دنیا کے مسائل و معاملات ایک الگ حیثیت رکھتے تھے اور تعلق و دوست داری کے مسائل اپنی جگہ۔بہت سے ادبی معاملات میں سخت سے سخت رائے دینے کے باوجود تعلقات پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ان لوگوں کی شخصیت کا یہی حسن ان کی طویل رفاقت کا سبب ہے۔ان لوگوں سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔سمیناروں میں اور ادبی جلسوں میں جب کبھی یہ لوگ جمع ہوتے توان کی گفتگواور بذلہ سنجی دیکھنے اور سننے کے لائق ہوتی۔نجمہ رحمانی کے انتقال سے اس نوع کی مجلسوں کا ایک توانا کردار چلا گیا۔
نجمہ رحمانی بنیادی طور پر ایک استاد تھیں،طلبہ کا خیال کرنے والی،ان کے مسائل کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والی،ان سے شفقت و محبت سے پیش آنے والی لیکن اس کا مطلب کبھی یہ نہیں تھاکہ وہ ہر طرح کے جائز و ناجائز کام کو روا رکھیں۔ان کی اصول پسندی اور معاملات کی صفائی کا معیار ہی الگ تھا۔ اس میں انھوں نے کبھی کسی کا خیال نہیں کیا۔اپنے دور صدارت میں انھوں نے کوشش کی کہ طلبہ و ریسرچ اسکالر کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔انھیں موقع فراہم کیا جائے اور مختلف انداز میں ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔استاد سے زیادہ طلبہ کی ترقیوں پر کون خوش ہوسکتا ہے۔ 
پروفیسر نجمہ رحمانی سے گفتگو اور ملاقات کااکثر وبیشتر موقع ملتا رہتا۔ان کے ساتھ مختلف ورکشاپ اور ادبی جلسوں میں شریک رہا۔جب وہ صدر شعبہ ہوئیں تو شعبے کے پروگرام میں مدعو کیا۔اس دوران میں ان سے گفتگو کرکے اندازہ ہوا کہ وہ نئے لوگوں کو مو قع دینے میں زیادہ یقین رکھتی ہیں اور یہ موقع انھوں نے بہت سے لوگوں کو فراہم کیا۔کووڈ کے فوراً بعد4 فروری 2022کو ہمارے شعبے کے رفقا نے طے کیا کہ  ”جدید اردو غزل“کے عنوان سے ایک آن لائن لیکچر کا اہتمام کیا جائے اس کے لیے باہمی مشورہ سے نجمہ صاحبہ سے درخواست کی گئی جسے انھوں نے قبول کرلیا۔کیمپس کے یوٹیوب چینل پر یہ لیکچر آج بھی موجود ہے اورسننے والوں کے لیے افادیت سے بھرپور ہے۔ 
اب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کی باتیں اور ان کی تحریریں پڑھنے والوں کو ان کی سرگرم زندگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔