حجاب کیس: فیصلہ میں اختلاف رائے سے انصاف کی امید بنی، مولانا ارشدمدنی

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 13-10-2022
حجاب کیس: فیصلہ میں اختلاف رائے سے انصاف کی امید بنی، مولانا ارشدمدنی
حجاب کیس: فیصلہ میں اختلاف رائے سے انصاف کی امید بنی، مولانا ارشدمدنی

 

 

نئی دہلی: جمعیۃعلماء ہند کے قومی صدر مولاناسید ارشدمدنی نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آئینی بینچ اس اہم مسئلہ پر سماعت کرکے مسلمانوں بالخصوص ان مسلم بچیوں کو راحت دے گی جو اپنی مذہبی شناخت کی حفاظت کرتے ہوئے حجاب پہن کراسکول وکالج میں پڑھائی کرنا چاہتی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ میں دوججوں کی بینچ نے اس پر سماعت کی تھی، اوران میں سے ایک جج نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ کودرست ٹھہرایاوہیں دوسرے جج جسٹس دھولیہ نے یہ کہہ کر مذکورہ فیصلے سے عدم اتفاق کا اظہارکیا ہے کہ سب کی اپنی اپنی پسندہے اورلڑکیوں کی تعلیم کے معاملہ میں انہیں ہر طرح کی اجازت دینی چاہئے، چنانچہ اس معاملہ کو اب تین ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کے حوالہ کردیا گیا ہے.جسٹس دھولیہ کا یہ کہنامثبت ہے کہ سب کی اپنی اپنی پسندہے، ہم لڑکیوں کی تعلیم کے معاملہ میں انہیں مذہبی سطح پرہرطرح کی اجازت دینے کے حق میں ہیں اوراس کو دستوری حق سمجھتے ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کافیصلہ حجاب کے سلسلہ میں اسلامی تعلیمات اور شرعی حکم کے مطابق نہیں تھا، جو احکام فرض یا واجب ہوتے ہیں وہ ضروری ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنا گناہ ہے، اس لحاظ سے حجاب ایک ضروری حکم ہے، اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام سے خارج نہیں ہوتا، لیکن وہ گنہگارہوکر اللہ کے عذاب کا مستحق ہوتاہے، اس وجہ سے یہ کہنا کہ پردہ اسلام کا لازمی جزنہیں ہے شرعاغلط ہے یہ لوگ ضروری کامطلب یہ سمجھ رہے ہیں کہ جس کے نہ کرنے پر وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا حالانکہ ایسا نہیں ہے،کیونکہ اسلامی اصول یہ ہے کہ اسلام میں کسی بھی ضروری کام کرنے نہ کرنے سے آدمی اسلام سے باہر نہیں ہوجاتا، بلکہ کسی بھی ضروری کام کے جو قرآن سے یاحدیث سے ثابت اورفرض ہے نہ ماننے سے اسلام سے خارج ہوجاتاہے، اسی لئے اسلام میں شراب کی حرمت اورمناہی قرآن وحدیث سے ثابت ہے لیکن شراب پینے والااسلام سے خارج نہیں ہوجاتا،ہاں اگر اس کی حرمت کو نہیں مانتاتووہ مسلمان نہیں رہے گا اوراسلام سے خارج ہوجائے گا۔

مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتے، روزہ نہیں رکھتے تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نمازاورروزہ لازم اورضروری نہیں ہے مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ یونیفارم مقررکرنے کا حق اسکولوں کی حدتک محدودہے جو معاملہ ہائی کورٹ میں زیرسماعت تھا وہ اسکول کا نہیں کالج کا تھا، رہا دستوری مسئلہ تو اقلیتوں کے حقوق کے لئے دستورکے آرٹیکل 25اور اس کی ذیلی شقوں کے تحت جو اختیارات حاصل ہیں، وہ دستورمیں اس بات کی ضمانت دیتاہے کہ ملک کے ہر شہری کو مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے، مذہبی قوانین پر عمل کرنے اور عبادت کی مکمل آزادی ہے۔

ہندوستانی حکومت کا اپنا کوئی سرکاری ریاستی مذہب نہیں ہے، لیکن یہ تمام شہریوں کو مکمل آزادی دیتاہے کہ وہ اپنے عقیدہ کے مطابق کسی بھی مذہب پرچلیں اورعبادت کریں، مولانا مدنی نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی فردیاگروہ اپنی مذہبی پہچان ظاہر نہ کرے ہاں یہ بات سیکولرازم میں ضرورداخل ہے کہ حکومت کسی خاص مذہب کی پہچان کو تمام شہریوں پر مسلط نہ کرے کیونکہ دستوری اعتبارسے حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے، حجاب ایک مذہبی فریضہ ہے جس کی بنیادقرآن وحدیث ہے۔اس لئے ہم بحیثیت ایک مسلمان کے اس کے پابند ہیں۔