جیل میں چکی پیستے ہوئے حب الوطنی کے نغمے گانے والے حسرت موہانی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 31-12-2021
انقلاب زندہ آبادکانعرہ دینے والے حسرت موہانی
انقلاب زندہ آبادکانعرہ دینے والے حسرت موہانی

 

 

یکم جنوری مولاناحسرت موہانی کے یوم پیدائش پرخاص پیشکش

غوث سیوانی،نئی دہلی

دل کو خیال یارنے مخمورکردیا

ساغر کورنگِ بادہ نے پرنورکردیا

مانوس ہوچلاتھا تسلی سے حال دل

پھر تو نے یاد آکے بدستور کردیا

حسرتؔ، مجاہد آزادی کے ساتھ ساتھ صف اول کے غزل گو تھے، اگر چہ انھوں نے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی مگربنیادی طور پر وہ غزل سے ہی جڑے رہے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جن شاعروں نے اردوغزل کونئی طاقت وتوانائی بخشی ان میں حسرت کانام سرفہرست ہے۔ وہ منفرد لب ولہجے کے شاعر تھے۔

ان کے کلام میں حسن پرستی کے عناصر کے بھرے پڑے ہیں۔ حالانکہ وہ خودانتہائی سادگی پسند، درویشانہ صفت کے حامل اور صوفی منش بزرگ تھے۔ ان کا کلام ان کی شخصیت کے بالکل برعکس نظرآتا ہے۔ مولانا حسرت موہانی ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم رہنما بھی تھے اگر وہ ایک طرف ملک کو آزاد کرانے کی جدوجہد کررہے تھے تودوسری طرف وہ ملک کے عام لوگوں کو بیدارکرنے کی کوشش بھی کررہے تھے۔ ان کے نظریات کی جھلک ان کی غزلوں میں جابجاملتی ہے۔

روح آزادہے، خیال آزاد

جسم حسرتؔ کی قیدہے بیکار

وہ دوسری جگہ فرماتے ہیں

ہم قول کے صادق ہیں اگر جان بھی جائے

واللہ کبھی خدمت انگریز نہ ہوگی

awaz

ڈاکٹربھیم رائوامبیڈکر کے ساتھ حسرت موہانی

حسرتؔ کے کلام میں ان کے سیاسی خیالات کی جھلک ضرور مل جاتی ہے، مگر ادبی اعتبار سے یہ کم درجے کے اشعار ہیں۔ ان کاجہاد آزادی صرف خیالات اورجلسے جلوسوں تک محدود نہیںرہابلکہ وہ عملی طور پر تن من دھن کے ساتھ ملک کی آزادی کے لیے لڑتے رہے۔انھوں نے کانگریس، مسلم لیگ اور جمعیت علماء کی رکنیت حاصل کی اورپھر سب سے الگ بھی ہوگئے۔

انھوں نے مکمل آزادی کاریزولیوشن اس وقت پیش کیا جب اس کاتصور بھی محال تھا۔ اسی کے ساتھے وہ صحافی بھی تھے اور اپنے قلم کو ملک کی آزادی کے لیے وقف کررکھاتھا۔جنگ آزادی میں حصہ لینے کے سبب انہیں متعدد بار جیل جانا پڑا اور قیدبامشقت کاٹنی پڑی ، مگر اس کے باوجود ان کے خیالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشہ ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

حسرتؔ موہانی اپنے اصولوں کے پکے اورانتہائی سادگی پسندتھے۔ وہ کانگریس اور مسلم لیگ میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اترپردیش اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اورملک کی پارلیمنٹ میں بھی پہنچے، مگر کبھی سرکاری رعایت کوقبول نہیں کیا۔ ممبران پارلیمنٹ کوملنے والی تنخواہ اورالائونس کوانھوں نے کبھی نہیں لیا۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے وہ دلی آئے تو ایک ٹوٹے ہوئے ٹین کے بکس کے ساتھ آئے۔ جامع مسجد دہلی میں ٹھہرتے اور اپنے ہاتھ سے کچھڑی ابال کر کھاتے۔ اجلاس کے خاتمے پر ریلوے کے تھرڈ کلاس میںسفر کرکے کانپور واپس چلے جاتے۔ اس قسم کی سادگی ساری عمران میں دیکھی گئی۔

حسرتؔ کا دل آئینہ ہے اک صورت حق کا

گو اس کی نظر شیفتہ ٔحسن بتاں ہے

حسرتؔ کا مزاج صوفیانہ تھا ،ان کے خاندان صاحب نسبت بزرگوں سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ خود عرسوں میں شرکت کرنا پسند کرتے تھے اور کئی میل پیدل چل کرردولی کے عرس میں حاضری دینے آتے تھے۔ ان کی شخصیت اورشاعری میں کوئی نسبت اورتعلق نہیں محسوس ہوتا۔ وہ خودکہتے ہیں:

دیار شوق میں برپا ہے ماتم مرگ حسرتؔ کا

وہ وضعِ پارسا اس کی وہ عشقِ پاکباز اس کا

مجھ کو خبر نہیں کہ مرا مرتبہ ہے کیا

یہ تیرے التفات نے آخر کیاہے کیا

حسرت موہانی کی زندگی کچھ اسی قسم کی بے خبری میں گزری۔ان کاکلام شمارسے زیادہ ہے۔ ان کی کلیات میں تیرہ دیوان ہیں ان میں سے بعض بیگم حسرتؔ کے مرتب کردہ ہیں۔ یہ وہ کلام ہے جوانھوں نے جیل میں لکھاتھااور بذریعہ خط بھیج دیا کرتے تھے۔

ان کی شاعری کا بڑاحصہ جیل کاہے۔ کچھ غزلیں دور طالب علمی میں کہی گئی تھیں توکچھ علی گڑھ میں دور ان تعلیم۔وہ کئی جیلوں میں قیدرہے۔ علی گڑھ ڈسٹرکٹ جیل ، نینی سینٹرل جیل ، فیض آباد جیل، بردواسینٹرل جیل کے علاوہ موہان اور کٹھور میں بھی ان کی نظربندی رہی۔ اس دوران ملنے والا وقت شاعری میں ہی گزرتاتھا۔

حالانکہ قیدبامشقت کے سبب انہیں ایک ایک من آٹا بھی پیسنا پڑتاتھا۔ قیاس ہے کہ حسرتؔ موہانی کی غزلوں کی تعداد ۷۷؍ہے، جن میں بیشتر غزلیں قیدبانظربندی کی حالات میں تحریرکی گئیں۔

حسرت موہانی یکم جنوری ۱۸۷۵ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے جدوجہدسے بھری ہوئی ایک درویشانہ زندگی گزاری اور۱۳؍مئی ۱۹۵۱ء کو اس عالم فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف رخصت ہوئے۔

توڑ کرعہد کرم ناآشنا ہوجائیے

بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہوجائیے

کشمکشہائے الم سے اب یہ حسرتؔ جی میں ہے

چھٹ کے ان جھگڑوں سے مہمانِ قضاہوجائیے

حسرت کے کچھ مشہور اشعار درج ذیل ہیں:

روشن جمال یار سے ہے انجمن تمام

دہکا ہوا ہے آتشِ گل سے چمن تمام

حیرت غرور حسن سے، شوخی سے اضطراب

دل نے بھی تیرے سیکھ لئے ہیں چلن تمام

اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھاہے

اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھاہے

سخت بے درد ہے تاثیرمحبت کہ انھیں

بستر ناز پہ سونے سے جگارکھا ہے

مجبورِ وفا کرکے محروم کرم کرنا

بھولیں گی نہ یہ باتیں اے عہدشکن تیری

باطن میں وہ بے مہری، ظاہر میں یہ دل جوئی

ہم خوب سمجھتے ہیں ترکیب سخن تیری