امریکہ میں عید کی روایات

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 02-05-2022
امریکہ میں عید کی روایات
امریکہ میں عید کی روایات

 

 

نیویارک: امریکہ میں رہنے والے لاکھوں مسلمان امریکیوں میں سے بہت سے عید الفطر منانے کے لیے خصوصی عبادت اور دعوتوں کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ عید الفطر ماہ رمضان کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔

رمضان کے ایک مہینے کے روزوں کے بعد مسلمان امریکی، خاندان، دوستوں اور بالآخر دن کے وقت کھانے پینے کے ساتھ عید سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

اسلام امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈرسٹینڈنگ کے مطابق امریکہ میں مساجد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ پورے ملک میں تقریباً 3,000 مساجد ہیں۔ مساجد کی سب سے زیادہ تعداد والی ریاستیں مندرجہ ذیل ہیں:

نیویارک:343

کیلی فورنیا:304

ٹیکساس:224

فلوریڈا:157

نیو جرسی:141

 امریکہ میں رہنے والے لاکھوں مسلمان امریکیوں میں سے بہت سے عید الفطر منانے کے لیے خصوصی عبادت اور دعوتوں کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ عید الفطر ماہ رمضان کے اختتام پر منائی جاتی ہے۔

بہار گوڈانی اور عسرہ غازی دونوں ہی واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے مسلمان وفاقی ملازمین کے موزیک نامی احباب کے ایک گروپ کے رکن ہیں۔ اُن کی عید کی پسندیدہ تقریبات کا مرکز خاندان اور دوست ہوتے ہیں۔

گوڈانی نے شیئر امریکہ کو بتایا، “میں ہر سال اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ورجینیا میں عید کی نماز کے لیے اپنی مقامی مسجد میں جاتا ہوں۔ ہمارے لیے بہت سارے مختلف لوگوں اور ثقافتوں کو عید مناتے ہوئے ایک جگہ اکٹھا دیکھنا اور سب کو خوبصورت روایتی لباس پہنے دیکھنا ہمیشہ کی طرح واقعی ایک خوبصورت منظر ہوتا ہے۔ آپ کو ہمیشہ کی طرح بہت سارے مسکراتے ہوئے چہرے اور ادھر ادھر بھاگتے بچے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بہت ہی پیارا ماحول ہوتا ہے۔

awazurdu

بچے عید کے دن پارک  میں خوشیاں بناتے ہوئے


غازی بچپن کی عیدوں کو یاد کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ وہ اپنے والدین سے روایتی “عیدی” وصول کرنا پسند کرتی تھیں۔ جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئیں تو اُن کے بقول “یہ [دن] حقیقت میں دوستوں اور اپنے اہل خانہ کو دیکھنے کا ایک موقع بن گیا جن سے میں سب سے زیادہ پیار کرتی ہوں۔”

اصلاح عطر فوٹوگرافر ہیں۔ انہوں نے این پی آر کو دیئے جانے والے ایک انٹرویو میں اس سالانہ تہوار کو کچھ یوں بیان کیا، “دوپہر 2 بجے کا وقت ہے۔ میں اور میرے بہن بھائی اپنے اوہائیو کے گھر کے سن روم میں ایک لائن کھڑے فلافل سینڈوچ تیار کر رہے ہیں۔ ہم انہیں صبح عید کی نماز کے لیے تیار کر رہے ہیں اور انہیں نمازیوں میں تقسیم کریں گے۔ اب یہ ہمارے خاندان کی ایک سالانہ روایت بن گئی ہے۔ اگرچہ یہ کام تھکا دینے والا ہوتا ہے مگر اس میں ہم اجروثواب محسوس کرتے ہیں۔”

کھانے پکانے کی خاندانی ترکیبوں سے خود لطف اندوز ہونے اور دوسروں کو اِن کے بارے میں بتانے کے علاوہ، مسلمان امریکی عید پر نئے کپڑے پہننے کے بھی منتظر ہوتے ہیں۔ میلانی الترک، لینا الجہیم اور عینارا میڈائنا جیسی فیشن ڈیزائنرز عید کے خصوصی ڈیزائن لے کر آتی ہیں۔

اُن کا شمار مسلم امریکی کاروباری مالکان کے ایک ابھرتے ہوئے اور ترقی پزیر گروپ میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کاربن کی آلودگی کو کو کم کرنے کے لیے ان کے برانڈوں میں شامل حجاب شفُون کے ہوتے ہیں جنہیں ری سائیکل شدہ پلاسٹک کی بوتلوں سے بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح بُنے ہوئے حجاب قابل تجدید بانس سے تیار کیے جاتے ہیں۔

awazurdu

میڈائنا کہتی ہیں، “اسلامی نقطہ نظر سے ہمیں زمین کا خیال رکھنے اور اس کی دیکھ بھال کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماحولیاتی حوالے سے ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور ماحولیات اور اس کے بعد اس پر رہنے والی کسی بھی مخلوق کو نقصان نہ پہنچائیں۔” الجہیم بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ کام کرنے کے پائیدار اور اخلاقی طریقے ہمیشہ “اور خاص طور پر عید کے موقعوں پر” اہم ہوتے ہیں۔