کشمیر میں تصوف کی ابتدائی کرنیں اور بلبل شاہ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 03-04-2021
مسجدودرگاہ شرف الدین بلال شاہ
مسجدودرگاہ شرف الدین بلال شاہ

 

عرس کے موقع پرخاص تحریر

غوث سیوانی،نئی دہلی

تشدد کی عمر مختصر ہوتی ہے اور عدم تشدد کی طویل۔تصوف کی ابتدا ہی عدمِ تشدد اور اہنسا کے فلسفے کے ساتھ ہوئی تھی لہٰذا اسے ساری دنیا میں مقبولیت حاصل ہوئی۔کشمیر میں اسلام اور تصوف کا آغاز تقریباً ایک ساتھ ہوااور صوفیہ کو یہاں اس لئے قبولیت حاصل ہوئی کہ وہ عدم تشددکے حامی اور پیام امن کے علمبردار تھے۔ وہ دلوں کو جوڑنے کا کام کرتے تھے، انسانیت میں یقین رکھتے تھے اور ہردکھی انسان کی مدد کرنا اپنا فریضہ سمجھتے تھے،خواہ وہ کسی بھی مذہب ومسلک اور ذات ونسل یازبان وتہذیب سے تعلق رکھنے والا ہو۔

کشمیر میں تصوف کی ابتدا چودھویں صدی عیسوی سے ہوئی یعنی برصغیر کے دوسرے خطوں کے مقابلے یہاں اہل سلوک تاخیر سے پہنچے مگر حیرت انگیز طور پر بڑی تیزی سے ان کے نظریات کو مقبولیت حاصل ہوئی ۔

کشمیر کا پہلا صوفی

راجہ رنجن دیو یا سلطان صدرالدین کے عہد سے قبل کشمیر میں مسلمان لائقِ اعتنا تعداد میں نہیں تھے اور نہ ہی کسی صوفی کے یہاں آنے کے تاریخی شواہد ملتے ہیں۔ہوسکتاہے ایک دو صوفیہ پہلے بھی آئے ہوں مگر ان کا ذکر کتابوں میں نہیں ملتا لہٰذا حضرت بلبل شاہ کو ہی کشمیر کا پہلا صوفی سمجھنا چاہئے۔آپ کے ذریعے جو کشمیر میں تصوف کی بنیاد پڑی وہ اتنی پختہ ثابت ہوئی کہ بعد میں اسی پر شاندار عمارت تیار ہوئی۔ایسی عمارت جوآج بھی قائم ودائم ہے اور انشاءللہ صبح قیامت تک قائم رہے گی۔کشمیری آج بھی اہل تصوف سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں اور ان کی خانقاہوں اور مزارات کو نگاہِ احترام سے دیکھتے ہیں۔بزرگان دین کے مزارات آج بھی کشمیر میں عوام کی عقیدت کا مرکز ہیں۔

بلبل شاہ کون؟

بلبل شاہ کے بارے میں تاریخ وسوانح کی کتابوں میں بہت کم تفصیلات ملتی ہیں۔ ان کا پورانام شرف الدین عبدالرحمٰن تھا اور بلال شاہ کے نام سے مشہورتھے جو بعد میں کثرت استعمال کے سبب عوامی زبان میں بلبل شاہ ہوگیا۔ ایک خیال یہ ہے کہ وہ سنٹرل ایشیاسے تھے اورمنگولوں کے حملوں سے بچنے کے لئے ادھر آئے تھے جب کہ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ وہ قدیم ایران کے کسی علاقے سے آئے تھے۔بعض انھیں بغدادکا باشندہ قراردیتے ہیں توکچھ کے خیال میں وہ ترکستان سے آئے تھے۔ روایات کے مطابق وہ اپنے دوست ملااحمد کے ساتھ کشمیر پہنچے تھے تو کچھ دوسری روایتوں کے مطابق ان کے ساتھ کچھ اوربھی مہاجرین تھے۔

کشمیرکی پہلی خانقاہ

۔ 1324 کے آس پاس وہ کشمیر آئے تھے۔ بعض کتابوں میں لکھاہے کہ وہ اپنے مرشد کے حکم سے کشمیر آئے تھے۔ ان کے مریدوں نےاپنے مرشد کے حکم پر دریا کے کنارے ایک خانقاہ تعمیر کی۔ یہ کشمیر میں تعمیر ہونے والی پہلی خانقاہ ہے۔ اس خانقاہ میں محتاجوں اور فقرا کے لئے لنگر بھی جاری کیاگیا۔خانقاہ کے پاس ہی ایک جامع مسجد بھی تعمیرکی گئی تھی۔ان کا آستانہ سری نگر کے نواکدل علاقے میں ہے۔ بلبل شاہ 1327 یا 1326ء مین اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔

قبرمبارک شرف الدین بلال شاہ

تہذیبی انقلاب

کشمیرمیں تصوف کی آمدنے حالات کے دھارے کو بدل ڈالااور لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا۔اس کے بعد کشمیر کی تہذیب بدلنے لگی اور ہر شئے پر روحانی اثرات مرتب ہونے لگے۔یہ محض روحانی نہیں بلکہ ثقافتی،معاشرتی اور لسانی انقلاب بھی تھا۔اس کے بعد کشمیرکے حالات جس رفتار سے بدلے وہ بھی کم حیران کن نہ تھے۔

اسلام کشمیر میں قلندرانہ لباس میں پہنچااور اسے یہاں تک لانے والے بلبل شاہ جیسے وہ نیک دل افراد تھے جن کا اصولِ زندگی ’دست درکار ودل دریار‘تھا۔ان کے عقائد واعمال نے عوام کو اپناگرویدہ بنا لیا۔انھوں نے اپنے آرام وآسائش کا خیال کئے بغیر اللہ کی مخلوق کے لئے کام کیا۔مسجدیں بنوائیں،خانقاہیں تعمیر کرائیں،لنگرجاری کئے،مسافرخانے بنوائے اور عوام کو فائدہ پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی۔دین کی بنیاد اگر تشدد پر ہوتی تو یہ کب کا ختم ہوچکا ہوتا مگر اسکی بنیاد عدم تشدد،انسانی مساوات ،بھائی چارہ،اخلاق اور محبت پر قائم ہے اور اسے فنا نہیں۔