کیا حضرت عمر نے رسول اللہﷺکا فیصلہ نہ ماننے والے کو قتل کردیا تھا؟

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 02-07-2022
کیا حضرت عمر نے رسول اللہﷺکا فیصلہ نہ ماننے والے کو قتل کردیا تھا؟
کیا حضرت عمر نے رسول اللہﷺکا فیصلہ نہ ماننے والے کو قتل کردیا تھا؟

 

 

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،نئی دہلی

سوال: کتابوں میں ایک واقعہ ملتا ہے اور خطباء بھی اسے اپنی تقریروں میں بیان کرتے ہیں _ اس کی تحقیق مطلوب ہے _ براہ کرم مطلع فرمائیں ، کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟

دو افراد اپنا تنازعہ لے کر اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے _ آپ نے ان میں سے ایک کے حق میں فیصلہ سنا دیا _ جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا اس نے کہا :" ہمیں عمر بن خطاب کے پاس بھیج دیجیے کہ وہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کریں _ " آپ نے فرمایا :" ٹھیک ہے _" وہ دونوں حضرت عمر کے پاس پہنچے اور پوری تفصیل بتائی _ انھوں نے کہا : " اچھا ، میں ابھی فیصلہ کرتا ہوں _" وہ گھر کے اندر گئے ، تلوار لے کر باہر آئے اور اس شخص کی گردن اڑا دی جسے اللہ کے رسول ﷺ کے فیصلے سے اطمینان نہیں ہوا تھا اور ان سے فیصلہ کروانے آیا تھا_"

جواب: یہ واقعہ تفسیر کی بعض کتابوں میں بیان کیا گیا ہے ، مثلاً ابن ابی حاتم کی تفسیر اور زمخشری کی تفسیر الکشاف _ اسے سورۂ نساء کی آیت 65 کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا ۞

" نہیں( اے محمد ؐ!) تمہارے رب کی قسم ، یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اِختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسُوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں ۔"

اسی طرح اس کا تذکرہ اسبابِ نزولِ قرآن کی بعض کتابوں میں بھی ملتا ہے ، مثلاً واحدی کی اسباب النزول_

اس واقعہ کے ضمن میں آگے بیان کیا گیا ہے : " دوسرا شخص حضرت عمر کے پاس سے بھاگ کر اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں پہنچا اور ماجرا سنایا _ آپ نے فرمایا :" مجھے گمان نہیں کہ عمر کسی مومن کو بلا سبب قتل کردیں گے _" اس پر سورۂ نساء کی مذکورہ آیت 65 نازل ہوئی _ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر کی براءت نازل کی_"

اصحابِ علم جانتے ہیں کہ تفسیر اور اسبابِ نزول کی کتابوں میں بہت سی روایات ضعیف اور موضوع سندوں سے مروی ہیں ، اس لیے آنکھ بند کرکے انہیں قبول کرلینا اور بیان کرنا درست نہیں ہے ، بلکہ پہلے ان کی تحقیق کرلینی چاہیے اور خاص طور پر ان کی سندوں کی پڑتال کرلینی چاہیے_

 یہ روایت ثعلبی نے محمد بن السائب الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس کی سند سے روایت کی ہے اور محدثین نے اس کو کم زور ترین اور ضعیف ترین سند قرار دیا ہے _ اس میں کئی کم زوریاں ہیں:

(1) اس کی سند میں ایک راوی کلبی ہے ، جو متّہم بالکذب ہے_

(2)اس کی سند میں ایک  دوسرا راوی ابن لھیعۃ ہے ، جسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے_

اس لیے اس روایت کو بیان کرنا اور اسے اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کرنا کہ اہانتِ رسول پائے جانے پر کوئی شخص دوسرے کو قتل کرسکتا ہے؟ درست نہیں ہے_