دیوبندمشاعرہ: بے ہودگی کا ذمہ دار کون؟

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 09-11-2023
دیوبندمشاعرہ: بے ہودگی کا ذمہ دار کون؟
دیوبندمشاعرہ: بے ہودگی کا ذمہ دار کون؟

 



معصوم مرادآبادی

ان دنوں سوشل میڈیا پر دیوبند میں منعقدہ ایک مشاعرے کی ویڈیو بہت تیزی کے ساتھ وائرل ہورہی ہے۔ اس مشاعرے میں ایک نوخیز شاعرہ اپنا ہیجان انگیز کلام سنارہی ہے اور دینی مدارس کے طلباء اچھل اچھل کر اس کو داد دے رہے ہیں ۔یہ داد کچھ اس قسم کی ہے گویا وہ داد عیش دے رہے ہوں۔شاعرہ کوسب سے زیادہ داد اس مصرعہ پر ملتی ہے جس میں عاشق کی بانہوں میں اپنا دن گذارنے کی بات کرتی ہے۔یہ مشاعرہ دیوبند کے محمودہال میں منعقد ہوا تھا جو عظیم مجاہد آزادی شیخ الہندمولانا محمودحسن کے نام سے منسوب ہے۔ مولانا محمودحسن کا نام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں بھی بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔

شروع میں یہ تاثر ابھرا کہ شاید اس مشاعرے کا دارالعلوم دیوبند سے کوئی تعلق ہے۔ لیکنہنگامہ کھڑا ہونے کے بعد دارالعلوم کی طرف سے نہ صرف اس کی تردید کی گئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ‘‘ اگر اس مشاعرے میں دارالعلوم کے کچھ طلباء شریک پائے گئے تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔’’ہمیں اس مشاعرے میں شریک شاعرہ کے کلام پر کچھ نہیں کہنا ہے کیونکہ آج کل کے مشاعروں میں کامیابی کا پیمانہ اچھا کلام نہیں بلکہ اسٹیج پرفارمنس ہے جس میں بعض شاعرات نے بڑی مہارت حاصل کرلی ہے۔ ہیجان خیز جملے بازی اور کلام ان کی مقبولیت کا راز ہے۔یہی وجہ ہے کہ مشاعرے اور مجرے کا فرق ختم ہوتا چلاجارہا ہے۔

دیوبند کے جس مشاعرے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے ، اس کے بارے میں یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اسے کس نے برپا کیا تھا ، لیکن اس مشاعرے کا انعقاد کرنے والے لوگ طلبائے دیوبند کی نفسیات سے بخوبی واقف تھے ، اس لیے انھوں نے شاعرہ کا انتخاب بھی اسی ذوق کے پیش نظر کیا۔اس ویڈیو کو دیکھ کر کئی اہم علماء اور دینی مدارس کے ذمہ داروں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ان میں ایک نام معروف عالم دین مولانا سجاد نعمانی کا ہے ۔انھوں نے اس پر ایک باقاعدہ ویڈیو پیغام جاری کیا ہے جس میں دینی مدرسوں کے طلباء کی تربیت میں کمی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ابھی یہ نہیں معلوم ہوسکا ہے کہ اس ویڈیو میں شاعرہ کے سطحی کلام پر اچھل کود کرنے والے طلباء کا تعلق کس مدرسے سے تھا ، لیکن اتنا ضرور ہے کہ یہ سب کے سب اسلامی لباس میں تھے ۔چہروں پر داڑھیاں اور سر پر ٹوپیاں بھی تھیں۔ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ دیوبند میں صرف دارالعلوم اور وقف دارالعلوم ہی نہیں ہیں بلکہ یہ قصبہ دینی تعلیم کا ایک ہب ہے اور یہاں دینی تعلیم کے سیکڑوں ادارے ہیں ۔ ان میں کئی مدرسوں نے اپنا نام بھی دارالعلوم کے نام پر رکھا ہوا ہے۔

آئیے اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مشاعرے پر اتنا واویلا کیوں مچا ہوا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دیوبند دینی تعلیم کا ایک مرکزہے۔یہاں دارالعلوم دیوبند جیسا شہرہ آفاق ادارہ ہے ،جسے ازہر ہند کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اسی لیے یہاں کی ہر حرکت وعمل پر لوگوں کی توجہ مرکوز رہتی ہے ۔لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ یہاں کے طلباء کا طرزعمل اسکولوں اور کالجوں کے عام طلباء سے مختلف ہوگا اور وہ کوئی ایسی اوچھی حرکت نہیں کریں گے جس سے دینی درس گاہوں کی بدنامی ہو۔ظاہر ہے ان درس گاہوں میں تعلیم دلانے کا مقصد بچوں کے کردار کو اسلامی شعائر میں ڈھالنا ہے ، لیکن جب یہی طلباء اوچھی حرکتوں پر اترآئیں گے تو ان میں اور دنیاوی تعلیم کے طلباء میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مشاعرے کی اس ویڈیو پر اتنا واویلا مچا ہوا ہے۔دیوبنداسلامک اکیڈمی کے ڈائریکٹر مہدی حسن عینی نے سوشل میڈیاپر اس مشاعرے کے تعلق سے جو وضاحت کی ہے ، اس میں کہا گیا ہے کہ‘‘ جس محمودہال میں یہ مشاعرہ منعقد ہوا اس کا دارالعلوم دیوبند سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ ایک آزاد ٹرسٹ کے ذریعہ چلایا جاتا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس مشاعرے کا علماء یا مدارس سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کے منتظمین دیوبند کے مقامی متشاعرین ہیں جو اپنے وجود کا احسا س دلانے کے لیے وقتاً فوقتاً اس طرح کی ذہنی عیاشیوں کا سامان دارالعلوم کے آس پاس فراہم کرتے رہتے ہیں۔’’

 ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا ایک حصہ ہے اور اس نے اردو زبان و کلچرکے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مشاعرہ عوامی ذوق کی تعمیر وتشکیل میں بھی حصہ لیتا رہاہے اورعوام کے اندر شعروادب کا رجحان پیدا کرتارہا ہے۔لیکن جس طرح تیزی کے ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں میں زوال آیا ہے ،مشاعرہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ اب ایسے مشاعرے خال خال ہی ہوتے ہیں جہاں معیاری شعراء یا سامعین پائے جاتے ہوں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مشاعرہ بھی دیگر دھندوں کی طرح ایک ایسا دھندہ بن گیا ہے جس کا مقصد لوگوں کو ذہنی عیاشی کا سامان فراہم کرکے دولت اکٹھا کرنا ہے۔ان دنوں ایسے مشاعروں کی بھرمار ہے جہاں متشاعرات کی کثرت ہوتی ہے اور وہ اپنے کلام کی بجائے اپنی اداؤں سے سامعین کو رجھاتی ہیں۔ میں دہلی میں ایک ایسی شاعرہ کو جانتا ہوں جو کسی بھی مشاعرے میں جانے سے پہلے دوتین گھنٹے بیوٹی پارلر میں گزارتی ہیں۔ ایک دن اچانک جب بغیر میک اپ کے ان سے سامنا ہوا تو میں انھیں پہچان نہیں سکا۔المیہ یہ بھی ہے کہ یہ شاعرات جو کلام سناتی ہیں ، وہ بھی دوسروں کالکھا ہوا ہوتا ہے ۔دوسرا المیہ یہ ہے کہ یہ اشعار دیوناگری رسم الخط میں لکھ کر لاتی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں اچھے شاعروں اور شاعرات کی کوئی کمی ہے ، لیکن یہ لوگ ایسی اوچھی حرکتیں نہیں کرسکتے ، اس لیے انھیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔مجموعی طورپرمشاعرہ عوامی ذوق کی تعمیر وتشکیل اور عوام کے اندر شعر وادب کا رجحان پیدا کرنے کی بجائے اچھل کود کا میدان بنتا چلا جارہا ہے ۔معروف شاعر چندربھان خیال کا کہنا ہے کہ‘‘اس قسم کے مشاعرے ہوتے رہنے چاہئیں۔ان سے شاعروں کے ساتھ ساتھ بہت سارے غیرشاعروں کی روزی روٹی بھی جڑی ہوئی ہے۔