قران پر اٹھنے والا تنازعہ اجتہاد اور تقلید کے مربوط نظام کا متقاضی

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 18-03-2021
اجتہاد ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے رائے  کو تشکیل  دیا جاتا ہے
اجتہاد ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے رائے کو تشکیل دیا جاتا ہے

 

 

عاطر خان/ نئی دہلی

یوپی شیعہ سنٹرل وقف بورڈ کے سابق چیئرپرسن سید وسیم رضوی کے قرآن مجید کی 26 آیات کو حذف کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں عوامی مفادات کا مقدمہ دائرکرنے سے ایک بڑا تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔اپنی اس متنازعہ پی آ ئی ایل کی وجہ سے وہ وسیع پیمانے پر تنقید کے نشانے پر آ گیۓ ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے اس قدم سے مذہبی اصلاحات کے حوالے سے بھی ایک بحث چھڑ گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں اٹھنے والے تنازعہ نے ہندوستان میں اجتہاد و تقلید کے ایک موثراور مربوط نظام کی ضرورت کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی ہے۔ رضوی نے جو مطالبہ کیا ہے اسے ہر طرف "بے ہودہ" کہ کر مسترد کیا جا رہا ہے ۔ اس قدم کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو صدمہ پہنچا ہے - اس کی وجہ سے پورے مسلم طبقے نے یہاں تک کہ کشمیر میں بی جے پی کے رہنماؤں کے حلقے کی بھی مذمت سامنے آئی ہے ۔

چونکہ رضوی نے اپنے اس قدم سے قرآن کے تقدس کو چیلنج کیا ہے اس لئے یہ مسلمانوں کے لئے مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا جا رہا ہے۔ این اے ایل ایس اے آر یونیورسٹی ، حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفی کے مطابق قرآن قانون کے کسی ماخذ سے بنا ہوا قانون نہیں ہے۔ یعنی پارلیمنٹ کے ذریعہ بنایا ہوا قانون نہیں ہے لہذا اللہ کی عدالت کی طرف سے آئی آیات کو ختم کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے کیوں رجوع کیا جائے؟ انہوں نے طنزیہ انداز میں مزید کہا کہ رضوی کو اپنی پی ائی ایل میں اللہ کو جواب دہندہ بنانا چاہئے تھا نہ کہ کسی دوسرے کو ۔

اسلامی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہے جس میں سنی یا شیعہ کی تفریق کے بغیر تمام مسلمان تنظیمیں رضوی کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ مسلمانوں کا موقف ہے کہ اسلامی قانون قیاس کے ایک عمل سے گزرتے ہوئے تشکیل دیا جاتا ہے جس کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے۔ اور کسی کو بھی اس کو چیلنج کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ لہذا ، رضوی کے خلاف مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔ یہاں تک کہ رضوی کے اہل خانہ نے ان سے یہ کہتے ہوئے خود کو لا تعلق کر لیا کہ رضوی کی غیر سنجیدہ حرکتوں سے ان کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ موت کے بعد اسے قبرستان میں بھی جگہ نہ دی جائے۔ اس سے مسلمان طبقے میں موجود غصے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے تو اس کے سرکی قیمت بھی لگا دی ہے ۔

اب یہ سوال تو موزوں ہے کہ آخر رضوی نے دراصل کیا کیا ہے؟ بات درست ہے کہ اس نے قرآن مجید میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہوئے کچھ ایسی آیات جن کا تعلق اسلامی تصورات جہاد سے ہے، کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اور اس مقصد کے لئے رضوی نے ملک کی عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس قسم کے رد عمل کی وجہ کو سمجھنے کے لئے قرآن کے تقدس کو سمجھنا ضروری ہے۔ قرآن جو کہ اسلام کی مقدس ترین کتاب ہے ، انسانی تاریخ کی بڑی مقدس کتابوں میں جدید ترین ہے۔ اس میں عربی میں پیغمبر اسلام پر وحی کے اعلانات شامل ہیں ، جو ان کے انتقال کے بعد تحریری شکل میں جمع ہوئے اور بڑے منظم اور محتاط طریقے سے نسل در نسل منتقل کئے گئے۔

پوری دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمان اس کو خدا کا ابدی کلام سمجھتے ہیں ، جسے الله نے آخری نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا تا کہ وہ پوری انسانیت کے لئے ہدایت کا منبع بن سکے ۔ قرآن الله کا کلام ہے اورمحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے توسط سے یہ بنی نوع انسان تک پہنچا ہے ۔ اب رضوی نے اپنی درخواست میں ، جسے وہ عوامی مفادات کی عرضداشت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ، کہا ہے کہ وہ ان قرآنی آیات کو حذف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو اصل متن کا حصہ نہیں ہیں بلکہ انہیں بعد میں خلفاء راشدین کے زمانے میں شامل کیا گیا ۔

رضوی کے مطابق جو آیات زیربحث ہیں وہ مسلمانوں کے ذہنوں میں تشدد کو فروغ دیتی ہیں کیونکہ اس میں غیرمسلموں کے خلاف جہاد کی تلقین ہے ۔ تاہم ، اس کی وجہ سے ایک بڑے تنازعہ نے جنم لے لیا اور مسلمانوں کے سواد اعظم نے اسے غیر ضروری ، بیہودہ اور مذموم قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ۔ اگرچہ رضوی نے جو کچھ کیا وہ ہر مسلمان کے لئے ناقابل قبول ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس قدم نے مسلمانوں کی توجہ اجتہاد جو کہ اسلام کا ایک لازمی جز ہے، کی طرف مبذول کرائی ہے ۔ قرآن مجید میں جہاد ایک وسیع تصور ہے جو تزکیہ نفس اور دیگر معاشرتی برائیوں سے نبرد آزما ہونے سے متعلق ہے۔ لیکن اس کا اطلاق زیادہ تر کفار (کافروں) کے خلاف قتال پر کیا جاتا رہا ہے۔ یہ وہ غلط تشریح ہے جس نے ہزاروں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کی راہ پر گامزن کیا ہے یا اس کی طرف مائل کیا ہے۔ بالآخر اس کے نتیجے میں مسلمانوں کےنا قابل تلافی نقصان ہوا ۔

داعش ، القاعدہ ، لشکر طیبہ اور متعدد دوسرے دہشت گرد گروہوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود ، ہندوستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک نے مذہب کی حیثیت سے کبھی بھی اسلام پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔ یہ اعتراض صرف جہاد کے تصور کی غلط ترجمانی پر ہے جسے بعض مسلمانوں نے غلط طریقے سے سمجھا ہے۔ مفتی احمد نادر کے مطابق ، اسلام میں جہاد کی اکثر غلط تشریح کی جاتی ہے۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں متحارب گروپوں جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے ، کے خلاف بھی اپنے دفاع کے لئے جہاد کی درخواست کی گئی ۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ جہاد صرف تشدد سے وابستہ ہے۔ اس کا اطلاق برائیوں کے خلاف تزکیہ نفس پر بھی ہوتا ہے۔ آخرالذکر نقطے پر زور دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔

بلاشبہ اسلام میں بدلتے وقت کے تناظر میں دین میں بتائے گئے طریقہ کے مطابق ارتقاء کی گنجائش ہے ۔لیکن قرآن مجید میں کسی کو بھی تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اس مسئلے پر مسلمانوں میں عمومی پر اتفاق ہے۔ لیکن اب مسلمانوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ، دین کے دائرے میں رہتے ہوئے، ارتقا کی بھی ضرورت ہے۔ نقطہ یہ ہے کہ صرف جہاد ہی واحد تصور نہیں ہے جس کی درست تشریح کی ضرورت ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر امور ہیں جن کی درست تشریح مسلمانوں کو ترقی اور خوشحالی کی طرف لے جانے کے لئے ضروری ہے۔ بدقسمتی سے. اجتہاد اور تقلید اسلام کے دو اہم تصورات ہیں جو اب پس منظر میں جا چکے ہیں لیکن اسلام کی شبیہ بہتر بنانے کے لئے ان موضوعات پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

لغوی طور پر اجتہاد کا مطلب ہے جدو جہد کرنا- اسلامی فقہ میں اس اصطلاح سے مراد کسی قانونی معاملے سے متعلق اللہ کے احکامات کے اندر رہتے ہوئے درست فیصلے کی کوشش ہے۔ اجتہاد کرنے والے کو مجتہد کہا جاتا ہے۔ تقلید کے معنی ہیں اس رائے کو اپنانا جس کو مجتہد نے مستنبد کیا ہے ۔ اجتہاد ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے دینی علوم میں ماہرین اسلامی فقہاء اسلام کے پیرامیٹرز کو دریافت کرتے ہیں اور ان کی وضاحت کرتے ہیں۔ اسلام کا مقدس قانون اسلامی معاشرے کی اقدار اور حدود کو قائم کرتا ہے ، اور چونکہ ہر مسلمان اتنی اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے آپ کو دینی اور قانونی مطالعہ کے لئے وقف کرسکے لہذا وہ مجتہد کی ہدایت کی تقلید کرتا ہے ۔

اجتہاد ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعے رائے کو تشکیل دیا جاتا ہے ۔ اگر کسی فقیہ کی رائے کو وسیع پیمانے پر علما کے طبقے سے منظوری مل جاتی ہے تو اس کو مناسب طور پر مستند سمجھا جاسکتا ہے۔ اسلامی فقہ اکیڈمی کے ریسرچ اسکالر مفتی احمد نادر کے مطابق ، اجتہاد اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس سوال میں ضروریات دین شامل نہ ہو۔ اجتہاد میں اسلام کے بنیادی عقائد سے سمجھوتہ نہیں ہوتا ہے اور یہ اسی موضوع پر ہوتاہے جس کا ذکر ہمیں قرآن و سنت میں نہیں مل رہا ہو ۔ ہندوستان میں اسلامی فقہ اکیڈمی ، دیوبند اور شریعہ کونسل جماعت اسلامی اجتہاد کے تین بڑے مراکز ہیں۔ اجتہاد کے دوران مسلم طرز زندگی سے متعلق امور ، روز مرہ کی زندگی میں آنے والے مسائل ، انشورنس ، شیئر منڈیوں میں سرمایہ کاری ، سرجری اور زكاة جیسے اٹھائے جاتے ہیں۔ مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال جیسے امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں مشینوں کی مدد سے سلاٹر ہاؤسز میں جانوروں کا ذبیحہ اسلام میں جائز ہونے جیسے امور بھی زیر بحث آتے ہیں ۔

ایسے پلیٹ فارم فیصلہ سازی کے اہم مراکز ہوتے ہیں۔ یہ وہ مراکز ہیں ،جہاں اسلام سے متصادم معاملات میں وضاحت طلب کرنے کے لئے عام مسلمان رجوع کرتا ہے ۔ ان اداروں کو یہ یقینی بنانا چاہئے کہ اسلامی عقائد کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو اور مسائل کا بروقت حل بھی نکلے ۔ ان جیسے متعدد اداروں کی ضرورت ہے جو جدید معاملات پر متفقہ فیصلے پر پہنچیں۔ اسلام میں اصلاحات کے لئے ایک لازمی شرط ہے کہ وہ اپنے آپ کو رجعت پسندی کے بجائے امن پسند اور مستقبل پسند مذہب کے طور پر دوبارہ پیش کرے۔ آج ضرورت ایسے قابل اور ذہین مسلم فقہا کی ہے جو اس طرح کے اہم اور حساس معاملات پر فیصلہ کن طریقے سے مسلمانوں کے لئے حل نکال سکیں۔

الخوارزمی جیسے مسلم ریاضی دان ، البتانی جیسے ماہر فلکیات اور ابن سینا جیسے معالجین دنیا کے نامور اسکالرز میں شامل تھے۔ لیکن جدید دور تک ان کی عظمت کا بہت کم ثبوت باقی رہا۔ مصلحین کو اس بات کا یقین تھا کہ اسلام کا زوال مسلمانوں کے فرائض میں سستی اور ان کے اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔ مسلمان آرام دہ روایت پسندی کی زد میں آچکے ہیں - وہ اعتماد سے نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے آرام طلبی کے ساتھ اپنے آباؤ اجداد کی راہ پر گامزن ہیں۔ اب جب کہ رضوی کی عرضی سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے عدالت اس کو تسلیم کرنے اور اس کی سماعت   کا عمل  شروع کرے گی ۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقائد پر سمجھوتہ کئے بغیر ایک امن پسند اور ترقی پسند کمیونٹی کی حیثیت سے ترقی کرنا ہوگی۔