بھاگوت دو فرقوں کے درمیان ’رام سیتو‘ بن سکتے ہیں مگر۔۔۔ علما و دانشور

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 06-10-2022
بھاگوت دو فرقوں کے درمیان ’رام سیتو‘ بن سکتے ہیں مگر۔۔۔ علما و دانشور
بھاگوت دو فرقوں کے درمیان ’رام سیتو‘ بن سکتے ہیں مگر۔۔۔ علما و دانشور

 

 

منصور الدین فریدی : آواز دی وائس

وہ جو کہہ رہے ہیں قابل ستائش ہے مگر اس پر زمینی طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے اور سماج سے حکومت تک اس کے اثرات نظر آنے کی ضرورت ہے۔ وہ ملک میں دو قوموں کے درمیان ’رام سیتو‘بن سکتےہیں مگر اس کے لیے اب آمنے سامنے بیٹھنا ہوگا ،مشورے اور تجاویز اب بہت ہوچکے ہیں وقت ان پر عمل کرنے کا آگیا ہے۔

 یہ ہیں ردعمل ہیں علما اور دانشور وں کے۔ جو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی اس تقریر پر سامنے آئے ہیں۔

 یہ تقریر انہوں نے دسہرے کے موقع پر کی تھی جس میں انہوں نے اس بات پر ایک بار پھر زور دیا تھا کہ مسلمانوں کو نہ کبھی ہندووں سے خطرہ تھا اور نہ کبھی ہوگا۔

 دانشوروں نے ان کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے مگر  ساتھ ہی اس بات پر زور دیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ بات چیت کی پہل کی جائے۔

یاد رہے کہ  بھاگوت نے کہا تھا کہ اقلیتوں میں خوف پھیلایا جاتا ہے کہ ہم یا ہندوؤں کی وجہ سے ان کے لیے خطرہ ہے۔ ماضی میں ایسا نہیں ہوا، نہ مستقبل میں ایسا ہو گا۔ یہ نہ تو سنگھ کی فطرت ہے اور نہ ہی ہندوؤں کی۔ ہندو سماج دھمکی دینے کا قائل نہیں ہے ۔

اس سلسلے میں ممتاز اسلامی اسکالر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ  بیان تو خوش آئند ہے ۔وہ ماضی  میں بھی کہتے آئے ہیں مگر اب عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ اگر بھاگوت کی بات درست ثابت ہوتی ہے تو یہ مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہندووں اور ہندوستان کے لیے بھی بہتر ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ جب تک ملک میں اتحاد اور اتفاق کا ماحول نہیں ہوگا ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے۔ کیونکہ ملک کی تصویر پوری دنیا میں مسخ ہورہی ہے۔

پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ جب مسلمانوں کے ساتھ کی بات  کرتے ہیں تو پھر اس قوم کا اعتماد بھی حاصل کیا جائے ۔ جس کا راستہ اور طریقہ بھاگوت صاحب نکالیں گے ۔

 ہم جانتے ہیں کہ گھر واپسی کے نعرے لگانے اور لینچنگ کرنے والے یہاں تک کہ دھرم سنسد میں نسل کشی کے نعرے لگانے والے آر ایس ایس کے لوگ نہیں تھےمگر تھے تو ہندو ہی تھے ۔مگر جو قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی۔ان کے خلاف یو اے پی اے لاگو نہیں ہوا جیسا کہ مسلمانوں کے معاملہ میں ہورہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ اگر اب بھاگوت کہہ رہے ہیں کہ بہت اچھی بات ہے وہ ایک بڑے لیڈر ہیں ،بڑی سوچ رکھتے ہیں   ۔ان کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاسکتا ہے لیکن وقت ہے عملی کارروائی کرنے کا۔ تاکہ اس کا اثر زمین پر نظر آئے

ممتاز اسلامی اسکالر مولانا ظہیر عباس رضوی نے کہا کہ باتیں تو ہمیشہ ہوتی رہی ہیں مگر اب پہل کرنے کاوقت ہے۔ بھاگوت ایک ایسی تنظیم کے سرباراہ ہیں جو جس کی سیاسی اکائی ملک پر حکمرانی کررہی ہے ۔اس لیے ان کی بات یا اس پر عمل بہت اہم ہوگا ۔وہ اگر چاہیں تو دو قوموں کے درمیان ’’رام سیتو‘‘ بن سکتے ہیں ۔لیکن اب صرف مسلمانوں کو سبق دینے کا وقت نہیں ہے۔ خامیاں اور کمزوریاں سب میں ہیں ۔سب کو لچک دار بننا ہوگا ۔ مسلمانوں کی خامیوں کی جانب اگر انگلی اٹھائی جاتی ہے تو ان کے مثبت اقدام کی بھی تعریف کرنی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ان الفاظ کو دوہراوں گا جو انہوں نے گجرات فسادات کے بعد ادا کئے تھے کہ ’’مکھیا کو راج دھرم نبھانا چاہیے‘‘۔ آج یہ الفاظ بھاگوت صاحب کے لیے موزوں نظر آتے ہیں  کیبونکہ وہ ایک ایسی تنظیم کے سربراہ ہیں جو بلاشبہ ملک کے ایک بڑے طبقہ کی نمائندگی کرتی ہے بلکہ اس کی سیاسی اکائی سمجھی جانے والی بی جے پی کی حکمرانی ہے۔اگر وہ کوئی پہل کرتے ہیں تو اس کا اثر کچھ اور ہوگا ۔یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے۔

مولانا رضوی صاحب نے کہا کہ ملک میں جو بھی ناخوشگوار واقعات  ہوئے اس کی مسلمانوں نے ہر بار اور بار بار سخت الفاظ میں  مذمت کی ۔اودے پور سے ابتک جہاں جو واقعہ ہوا  ملک کے علما سے سماجی ہستیوں نے کھل کر مخالفت کی اور تشدد و خون خرابہ کو مسترد کردیا  ۔ بہتر ہوتا کہ اس تقریر میں بھاگوت مسلمانوں کی مثبت سوچ اور پہل کی تعریف کرتے۔ اس کا بھی اچھا اثر پڑتا۔

 انہوں نے کہا کہ مسلمان ملک کے اتحاد اور ترقی کے لیے کبھی پیچھے نہیں رہا  اور نہ ہی رہے گا مگر مسلمانوں کے خلاف جو ایک خاص تصور پیش کیا جارہا ہے وہ درست نہیں ہے گویا سب سے بڑا مسئلہ مسلمان ہی ہیں ۔

 بھاگوت صاحب کو دسہرے کےموقع پر اس تقریر میں رام جی کے تیاگ پر بھی روشنی ڈالنی چاہیے تھی،کس طرح انہوں نے بن بانس لیا اور کیا قربانی دی۔وہ ہے ہندو تو کا فلسفہ ۔جس  کو ہر ہندوستانی کو جاننا چاہیے جو کہ وقت کی ضرورت ہے۔

 دہلی کی فتح پوری مسجد کے امام مولانا مفتی محمد مکرم احمد نے کہا کہ کوئی بھی اچھی بات کرتا ہے تو اس پر بغیر شک کئے یقین کرنا چاہیے ،ہم بھی اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔ موہن بھاگوت ایک بڑی ہستی ہیں،وہ جو کہہ رہے ہیں اس کے پیچھے ایک سوچ ہے جو مثبت ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سماج سےحکومت تک ایک طبقہ ایسا ہے جو کہیں نہ کہیں مسلمانوں کے اعتماد کو توڑ رہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب انہیں سرعام کوڑے لگائے جاتے ہیں تو دوسری جانب مکانوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔یہ سب کب تک چلے گا یا کب تھمے گا۔ ملک میں قانون کہاں ہے؟ جب ہم خود کسی کا مکان گرا دیں گے توعدالتیں کیا کام کریں گی۔ اگر عدالت سے جرم ثابت ہوجائے تو پھانسی پر لٹکا دیا جائے کوئی کچھ نہیں کہے گا۔لیکن یہ سب جو ہورہا ہے اس کو بھی کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔

 مفتی مکرم نے کہا کہ ہم تو کہتے ہیں کہ بھاگوت صاحب مسلمانوں کی مدد کریں ،ان کا رتبہ ایسا ہے کہ اس کا اثر ہونا ہے مگر اس کے لیے ان عناصر کو بالکل واضح پیغام دینا ضروری ہےجو ملک کے ماحول کو خراب کرنے میں مصروف ہیں ۔

 ان حرکتوں سے ملک کی ساکھ کو جس طرح نقصان ہورہا ہے  وہ بہت تکلیف دہ ہے کیونکہ جب دنیا میں کوئی ہندوستان کو ان واقعات کے سبب جانتا اور پڑھتا ہے تو اس کی نظر میں ملک کی ساکھ خراب ہوتی ہے جو کہ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔

 ممبئی کے انٹرنیشنل صوفی کارواں کے سربراہ  مفتی  منظور احمد ضیائی نے بھاگوت کے اس بیان پر کہا کہ باتیں اچھی ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اب باتوں سے زیادہ ان پر عمل کا وقت آگیا ہے۔

بیان قابل ستائش ہے۔ انہوں نے ماضی میں بھی ایسی باتیں کی ہیں ۔ہم سب نے اس کی تعریف کی ہے لیکن اب اس حکمت پر عمل در آمد کرنے اور اسے با اثر ثابت کرنے کی ذمہ داری نہ صرف بھاگوت بلکہ ہم سب کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا ہے کہ ملک میں انتشار پیدا ہو،ملک کی ترقی اور بہبود کے لیے ضروری ہے کہ امن و امان ہو۔ملک کے عوام پر سکون زندگی گزاریں ۔ انہوں نے کہا کہ بھاگوت کا کردار اہم اس لیے کہ  اقتدار پر ان کا اثر ہے۔ ان کی رائے اور مشورے کی اہمیت ہے۔

 مفتی ضیائی نے کہا کہ اس پہل میں علما کا کردار بھی اہم ہوگا کیونکہ علما نے ہر دور میں امن و امان کی بحالی میں با اثر ثابت ہوئے ہیں ۔

بس میں اتنا کہوں گا کہ اب باتیں بہت ہوچکی ہیں اس ڈگر پر سفر شروع کرنا ہوگا ۔مسائل اور اختلافات کو دور کرنا ہوگا تاکہ ملک میں زمینی سطح پر ماحول بدل سکے۔انہوں نے کہا کہ اس قسم کے حالات ملک کی ساکھ کو خراب کررہے ہیں اس کا اثر  ملک کی معیشت پر بھی پڑتا ہے۔