آزاد مسلم کانفرنس: تقسیم ہند کے خلاف مسلمانوں کی قیادت

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 19-03-2022
 آزاد مسلم کانفرنس: تقسیم ہند کے خلاف مسلمانوں کی قیادت
آزاد مسلم کانفرنس: تقسیم ہند کے خلاف مسلمانوں کی قیادت

 

 

awazthevoice

ثاقب سلیم، نئی دہلی

ہندوستانی باشندے 23 مارچ 1940 کو 'یوم سیاہ' کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ وہی دن ہے جب محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے تقسیم ہند کے مطالبے کو مانتے ہوئے ایک قرارداد پاس کی تھی۔ اس کے بعد اس قرارداد کا بنیادی مقصد پاکستان بنانا رہ گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں ہمارے مورخین نے اس قرارداد کے پیچھے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کی مذمت کی ہے۔  وہیں انہوں نے ان لوگوں کی یادوں کو بھی فراموش کر دیا؛ جنہوں نے اس تقسیم کی قرارداد کی شدید مخالفت کی تھی۔ جس نے بالآخر ہمارے ملک کو تقسیم کر دیا۔

جناح کے اعلان سے زیادہ تر ہندوستانی مسلمان گھبرا گئے اور ملک کو تقسیم کرنے کے اس منقسم منصوبے کے خلاف تیزی سے اکٹھے ہو نے لگے۔

مذکورہ قرار داد کے ایک ماہ بعد 27 اپریل 1940 کو کئی مسلم تنظیموں کے نمائندے، سیاسی وسماجی کارکنان دہلی کے کوئینز گارڈن میں جمع ہوئے۔ ان لوگوں کے اجتماع کا مقصد جناح کے ’پاکستان پلان‘ پر بحث و مباحثہ کرنا تھا۔  یہ اجتماع تین روزہ تھا۔ اس تین روزہ اجتماع کو آزاد مسلم کانفرنس کا نام دیا گیا جہاں مسلم لیگ اور خاکسار کے علاوہ تمام مسلم تنظیموں نے مسلم لیگ کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد کی مذمت کی۔ اگرچہ خاکسار تحریک تقسیم کے خلاف تھی اور اس تحریک نے کئی بار جناح کے قتل کی کوشش بھی کی تھی۔

سندھ کے وزیر اعظم اللہ بخش سومرو نے کانفرنس کی صدارت کی۔ اس میں کانگریس، احرار پارٹی، مومن کانفرنس، جمعیت علمائے اسلام، شیعہ سیاسی کانفرنس، اتحاد ملت، خدائی خدمتگار اور دیگر مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے حصہ لیا تھا۔

کانفرنس نے30 اپریل کو ایک قرار داد منظور کی، جس میں کہا گیا کہ ہندوستان، اپنی جغرافیائی اور سیاسی سرحدوں کے ساتھ ایک ناقابل تقسیم ملک ہے، اور اس طرح، یہ تمام شہریوں کا مشترکہ وطن ہے، بلا تفریق نسل یا مذہب،اس کے وسائل کے ہم سب مشترکہ مالک و حقدار ہیں۔

اس کانفرنس میں مزید دعوی کیا گیا کہ قومی نقطہ نظر سے ہر مسلمان ہندوستانی ہے۔ ملک کے تمام باشندوں کے مشترکہ حقوق اور زندگی کے تمام شعبوں اور سرگرمیوں میں ان کی ذمہ داریاں یکساں ہیں۔ ڈبلیو سی اسمتھ نے بعد میں اس بارے میں لکھا کہ اس وقت کی نمائندگی کرنے والے مندوبین شاید اب بھی ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت ہیں، پاکستان پلان کے خلاف احتجاج کرنے آئے تھے۔

خان بہادر شیخ محمد جان ایک مسلم لیگ کے ایک ذمہ دار رکن تھے۔ انہوں نے واضح طور پر جناح پر ہندو برادری کی جانب سے مفاہمت کی کوششوں کا جواب نہ دینے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسٹر جناح نے ان میں سے کسی بھی اشارے کا صحیح جذبے کے ساتھ جواب دیا ہوتا تو ہندو اور مسلمان اپنی آزادی کے مقصد کے لیے کندھے سے کندھا ملا کر مارچ کر رہے ہوتے۔ کانفرنس کے صدراللہ بخش سومرو نے اپنے خطاب میں ہندوستان کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا اور مسلم لیگ کی پاکستان اسکیم کو ’حیران کن‘ قرار دیا۔

awazthevoice

اللہ بخش سومرو

انہوں نے اپنے سامعین کو مسلم لیگ کی جارحانہ فرقہ پرستی کے خلاف خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے عقائد کچھ بھی ہوں، ہمیں اپنے ملک میں کامل دوستی کی فضا میں مل جل کر رہنا چاہیے۔ ہمارے تعلقات ایک مشترکہ خاندان کے کئی بھائیوں جیسے تعلقات ہونے چاہئے۔ جس سے وابستہ مختلف افراد اپنی پسند کا اظہار کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ جہاں کسی رکاوٹ یا اجازت کے بغیر سبھی کو اپنی مشترکہ جائیداد کے مساوی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

سومرو نے دو قومی نظریہ اور اس کے دعوے پر نہ صرف برہمی کا اظہار کیا بلکہ وہ اس بات کو تسلم کرنے کے لیے تیارنہیں تھے کہ مسلمان ہندوستان کے اندر ایک مختلف قوم ہیں۔

انہوں نے اپنے سامعین کو واضح طور پر بتایا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوستانی ہونے فخر ہے۔ وہیں انہیں اس پر بھی فخر ہے کہ وہ اسلام کے ماننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلمان جب حج کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں توانہیں 'ہندو' کہا جاتا تھا جب کہ ایرانی اور عراقی انھیں ہندوستانی کہتے تھے۔ ان کی نظر میں قومیت، ثقافت اور مذہبی عقیدہ ایک دوسرے کے مخالف نہیں تھے۔ سومرو نے کہا کہ نوے ملین ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت ہندوستان کے قدیم باشندوں کی اولادیں ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دراوڑی اور آریائیوں کی طرح اس زمین پرمسلمان بھی قدیم زمانے سے آباد ہیں۔ ہندوستان دراصل مشترکہ لوگوں کی سرزمین ہے۔ اس لیے مختلف ممالک کے شہری محض ایک یا دوسرے عقیدے کو اپنانے سے اپنی قومیت سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے۔ جو علاقائی اور ثقافتی طور پر کہیں بھی سما سکتا ہے۔ اس مذہب کو ماننے سے قومیتیں تبدیل نہیں ہوتیں۔ کانفرنس نے منظور شدہ قرارداد کی تشہیر کے لیے 28 رکنی آزاد مسلم بورڈ کا قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ اس قرارداد میں تقسیم کے خلاف رائے عامہ کی تشکیل تجدید اور عالمی بالغ رائے دہی( Universal Adult Suffarage) کی بنیاد پر قومی دستور سازاسمبلی کی حمایت بھی کی گئی۔ بورڈ نے ملک بھر کے مسلمانوں سے رابطہ کیا تاکہ یہ بات مشتہر کی جا سکے کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان1000سال سے آباد ہیں۔

مجوزہ آئین میں مذہب کا دعویٰ کرنے کا حق، مفت تعلیم، ذات پات، جنس اور عقیدے کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں، روزگار کا حق، عالمی حقوق اور بہت سے ترقی پسند حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ آزاد مسلم بورڈ نے مسلمانوں میں ذات پات کے مسئلہ پر بات کی اور لوگوں سے مسلمانوں کے اندر مختلف طبقات کے بارے میں پوچھا جو پسماندہ رہ گئے تھے۔

آزاد مسلم بورڈ نے ان پسماندہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے تجاویز بھی طلب کی۔ مارچ 1942 میں، سومرو کی رہبری میں ایک اور بھی عظیم الشان آزاد مسلم کانفرنس دہلی میں بلائی گئی۔ قرارداد میں ہندوستان کی فوری اور مکمل آزادی کا مطالبہ کیا گیا اور برطانوی پروپیگنڈے کو مسترد کیا گیا کہ مسلم لیگ ہندوستانی مسلمانوں کی واحد نمائندہ تنظیم ہے۔

وہیں 12 مارچ، 1942 کو سومرو نے اپنے بیان میں کہا کہ سیاسی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے رہنماؤں سے میری اپیل ہے کہ وہ مادر وطن کے وسیع تر مفاد میں طبقاتی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے پہل کریں۔

اگرچہ یہ کانفرنس مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی کرتی تھی اور اس کی سربراہی سندھ کے وزیر اعظم نے کی تھی، تاہم انگریزوں نے اس کانفرنس کو ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندوں کے طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔

اس تعلق سےخادم حسین سومرولکھتے ہیں کہ ونسٹن چرچل نے ان سے (جی ایم سید) سے کہا کہ وہ جناح کو اپنا پیغام پہنچائیں، کہ وہ واضح طور پر پاکستان کے مطالبے کے حق میں کھڑے ہوں اور برطانوی حکومت کانگریس کو ہندوستان چھوڑو تحریک کی وجہ سے سزا دینا چاہتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اپنے قول کے مطابق برطانوی حکومت نے جناح کے علاوہ کسی کو ہندوستانی مسلمانوں کا نمائندہ تسلیم نہیں کیا۔

یہ المیہ ہے کہ تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھوکی گئی گئی جب 14 مئی 1943 کو کانفرنس کے صدر سومرو کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔