عائشہ:جومعاشرےکوجھنجھوڑ گئی

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 04-03-2021
عائشہ کا درد ،جو موت بن گیا
عائشہ کا درد ،جو موت بن گیا

 

 

منصور الدین فریدی ۔ نئی دہلی

عائشہ کی خودکشی نے اچانک ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا۔یوں تو خودکشی کے واقعات نئے ہیں اور نہ ہی جہیز کےلئے  اموات کے ۔مگر واقعہ نے خودکشی سے قبل عائشہ کے آخری ویڈیو نے پتھر دل انسانوں کی آنکھوں کو نم کردیا۔بے خوف لوگوں کو بھی جھر جھری آگئی کیونکہ موت کے فیصلہ پر اٹل، ایک لڑکی کو کسی نے آج تک اس طرح کی بے باکی اور بے خوف انداز میں آخری پیغام دیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آخری ویڈیو اور اپنے والدین سے آخری بات چیت کو سن کر پورا ملک سناٹے میں ہے۔ اب سب عائشہ کی موت کے پیچھے کی کہانی پر بحث کررہے ہیں ۔سب کی اپنی اپنی رائے ہے۔ پورے ملک میں اس واقعہ پر غم وغصہ ہے۔ناراضگی ہے اور بے چینی ہے۔وجوہات کے ساتھ اب ایسے واقعات کی روک تھام کےلئے مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں۔

اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اختر الواسیع نے ’آواز دی وائس‘اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’۔ایک افسوسناک واقعہ ہے لیکن اسلام میں نہ جہیز کی گنجائش ہے اور نہ خودکشی کی۔ ‘انہوں نے کہا کہ ’۔ عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے قرآن پا ک میں‘۔

جب عائشہ کا ویڈیو سامنے آیا تھا تو عائشہ نے اپنی خودکشی کے لئے کسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا اور یکطرفہ محبت کا ذکر کیا ہے۔ مگر عائشہ کے والدمحترم نے اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے خودکشی کی اصل وجہ جہیز کا ناجائز مطالبہ بتایا ہے ۔جس نے اچانک اس معاملہ کے پیچھے پوشیدہ ایک بڑی سماجی برائی کو اجاگر کردیا۔

بات نکلی ہے تو دور تک ۔۔

عائشہ کی خودکشی نے مسلم معاشرے کے سامنے سوال پیدا کردئیے ہیں کہ آخر اس مرض کی دوا کیا ہے؟بات بالکل واضح ہے کہ ایک ایسا طبقہ ہے جو نام کا مذہبی ہے ۔جو اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا ہے۔اس سلسلے میں جب پروفیسر اختر الواسیع سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ

‘اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اس کو کس طرح گوارہ کریں گے، جو لوگ دین کی کسی توہین کو برداشت نہیں کرتے وہ اب کیا کریں گے۔' 

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قوم میں بہت کچھ  تو ہورہا ہے مگرعملی طور پر نہیں۔۔افسوس کی بات یہ ہے کہ آج واٹس ایپ اور فیس بک پر سماجی برائیوں کے خلاف مہم کا حصہ بننے کے باوجود کوئی اس پر عملی طور پر عمل نہیں کررہا ہے۔باتیں بڑی بڑی ہوتی ہیں لیکن ایسے سماجی مسائل پر کوئی کچھ نہیں کرتا ہے۔ اگر کوئی کررہا ہے تو اس کو حمایت اور توجہ نہیں مل رہی ہے۔ جہیز کے خلاف تحریکیں تو بڑی بڑی چل رہی ہیں لیکن اس کا دائرہ کسی نہ کسی علاقہ تک محدود ہے۔باتیں فرائٰض کی ہوتی ہیں اور دین کی ہوتی ہیں لیکن حقوق العباد اور معاملات پر کوئی بات نہیں ہوتی ہے ۔

بیداری کی ضرورت

اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس برائی کے خلاف بیداری کون پیدا کرے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر سماجی بیداری کےلئے کسی قوم میں سب سے زیادہ منظم اور منصوبہ بند نظام ہے تو وہ مسلمان ہی ہیں۔ کیونکہ مساجد اور مدرسوں کے ساتھ جمعہ اور عید کے خطبہ میں اس قسم کی ہر برائی کے خلاف مہم اور بیداری پیدا کی جاسکتی ہے۔اس بارے میں پروفیسر اختر الواسیع کا کہنا ہے کہ ’۔اس نظام کے سبب ہم سب سے باخبر رہنے کے اہل ہیں۔پھر ہم ایسی باتوں سے بے خبر کیسے رہ سکتے ہیں۔‘

حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں میں سماجی بیداری پیدا کرنے کا کام زیادہ آسان ہے کیونکہ ایک منظم نظام موجود ہے۔ کسی خاص مقصد سے کسی ایک مقام پر اکٹھا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

 پروفیسر اختر الواسیع کا کہنا ہے کہ ’۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کیا صرف حکومت سے لڑنے کےلئے بنا ہے۔ان سماجی برائیوں کے خلاف بیداری کےلئے بڑے پیمانے پر مہم کیوں نہیں چھیڑی جاتی ہے۔ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر سماجی خدمات پر ’لائک‘کو پسند کرنے والوں کو چاہیے کہ میدان عمل میں اتریں۔جہیز کے خلاف بڑی تحریک چلائی جائے۔جہیز والی شادیوں میں شرکت نہ کی جائے۔کیونکہ اسی کمی کے سبب مسلم لڑکیاں یاس برائی کا شکار ہو رہی ہیں، پھر خودکشی کر رہیں ہیں ۔ دینی جماعتوں کے ذمہ داران اور علماء اکرام اس طرف توجہ دینی چاہئے اور جہیز کے خلاف سماج میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔کسی واقعہ کے بعد ایک بیان دینا کافی نہیں ہے۔ اس معاملے میں سخت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ علماء کو چاہئے کہ نکاح پڑھوانے کی دعوت ملنے پر اس کی تحقیق کرلیں کہ شادی میں کسی طرح کی لین دین تو نہیں ہو رہا ہے یالڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ تو نہیں ہو رہا ہے ۔خطبہ نکاح کے وقت اس رسم کی برائیوں کو بیان کیا جائے ۔

aaa

دکھاوے کا نیا مرض

اب مسلمانوں میں ایک نیا چلن شروع ہوا ہے،شادیوں میں نکاح تو انتہائی سادگی کے ساتھ مسجد میں پڑھا دیا جاتا ہے لیکن اس کے بعد شام کو پیسہ کی بربادی کا نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔بات واضح ہے کہ ہم کہیں نہ کہیں دکھاوے کا شکار ہورہے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ اب کسی حد تک معاشرے میں دینداری بھی ایک فیشن بن گئی ہے ۔ یہ دینداری خوف خدا کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سماج کو دکھانے کے لئے ہے ۔ ان کی روک تھا کیسے ہوگی اور اس کے ٹھوس طریقہ کیا ہوسکتے ہیں اس پر علما کو ایک ساتھ بیٹھنا چاہیے۔ قوم کو راستہ دکھانا چاہیے ۔

جن علاقوں میں بڑی مہم چل رہی ہیں ان کا دائرہ وسیع کرنا چاہیے۔ جن ریاستوں اور شہروں میں جہیز کے خلاف مہم چل رہی ہیں انہیں مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ ایک سماجی برائی ہے جو ہر طبقہ اور فرقہ میں پائی جاتی ہے۔یہی بات عائشہ کے والد نے میڈیا کے ساتھ بات چیت میں کہی ہے کہ میری بیٹی تو چلی گئی۔اس کے قاتل کو سزا دے کر بھی میری بیٹی واپس نہیں آئے گی۔اب مسئلہ یہ ہے کہ اور بھی عائشہ ہیں انہیں بچاو۔جو ہر مذہب میں ہیں ۔انہیں بچانے کےلئے سوچنا ہوگا۔‘