منیر نیازی کی شاعری میں تنہائی اور خوف کا پہلو

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 26-12-2022
منیر نیازی کی شاعری میں تنہائی اور خوف کا  پہلو
منیر نیازی کی شاعری میں تنہائی اور خوف کا پہلو

 

برسی پر خاص

 قمر الدین خورشید

منیرنیازی کی شاعری میں جگہ جگہ ڈر جھانکتا نظر آتا ہے. ان کی کلیات پڑھیں تو سامنے آتا ہے، یہ ڈر، یہ خوف اُن کے تنہا رہ جانے کی وجہ سے ہے، سب میں ہوتے ہوئے بھی وہ اکیلے پن کا شکار رہے اور اسی باعث انہوں نے چڑیلوں، سانپوں جیسے تصوراتی حصار سے خود کو ایک عمر تک باندھے رکھا۔ ویران جگہوں، ٹھکانوں کا ذکر، اُن میں پائی جانے والی ویرانی، گھپ اندھیرا، طوفانِ بادوباراں، ان کی اپنی تنہائی کی تصویر کشی کے علاوہ اور کیا ہیں، ان کی نظم صدا بصحرا، اس کی جیتی جاگتی مثال ہی تو ہے.

چاروں سمت اندھیرا گھپ ہے اور گھٹا گھنگھور

وہ کہتی ہے ”کون…؟

میں کہتا ہوں ”میں…”

کھولو یہ بھاری دروازہ

مجھ کو اندر آنے دو…”

اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور 

اشفاق احمد  نے منیر کی اس چھ سطری نظم کوWalter De La Mareکی نظمThe Listeners(۴) جوکہ چھتیس سطروں پر مشتمل ہے، سے بڑھ کر بتایا ہے۔ یہی اشفاق احمد   منیر نیازی کی بستی کا حلیہ اس طرح بیان کرتے ہیں ”قبرستان کے ارد گرد کبڑی کھجوروں کے جھنڈ میں مدھم سرگوشیاں ہوتی ہیں، کالی سیاہ ڈرائونی راتوں میں …کبھی یوں بھی ہوتا …کوئی دیوانہ چاند کی تلاش میں ادھر آ نکلتا ہے اور رات بھر سانپوں بھرے جنگل کی آوازیں سنتا رہتا ہے۔” آگے  وہ لکھتے ہیں ”… بچے رات کو نانی اماں سے چڑیلوں کی کہانیاں سنتے ہیں اور انھیں مکانوں کے ہر چھجے کی اینٹ خون دکھائی دیتی ہے جیسے کچے لیبل کا رنگ… یہ منیر نیاز ی کی بستی تھی جو اس کے ارد گرد کم اور اس کے ذہن کی گہرائیوں میں طلسمی رنگوں میں بھیگے ہوئے گھر بسا کر بستی جاتی تھی۔” آگے  وہ لکھتے ہیں ”وہ اپنے گھرانے کاایک بگڑا ہوا بچہ تھا جس کی شکایتیں لے لے کر اب لوگ دور دور سے آنے لگے تھے اور گھر کے کچھ افراد تنہائی میں بڑی ایمانداری سے یہ بھی سوچنے لگے تھے کہ اگر منیر نہ رہے تو کتنی مصیبتوں سے ایک ہی بار نجات مل جائے …گھر کے لوگوں نے خاموشی کا حربہ استعمال کر کے اس سے قطع تعلق کر لیا، لوگ بہت تھے اور وہ اکیلا…۔

بتا دیں کہ  منیر نیازی 19اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے قصبہ خان پور کے اک پشتون گھرانے میں پپدا ہوئے۔ ان کے والد محمد فتح خان محکمۂ انہار میں ملازم تھے لیکن خاندان کے باقی لوگ فوج یا ٹرانسپورٹ  کے شعبہ سے وابستہ تھے۔

 انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کیا اور اس زمانہ میں کچھ انگریزی نظمیں بھی لکھیں۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہی ملک کا بٹوارہ ہوگیا اور ان کا سارا خاندان پاکستان چلا گیا۔ یہاں انھوں نے ساہیوال میں اک اشاعتی ادارہ قائم کیا جس میں خسارہ ہوا۔ چھوٹے موٹے ناکام کاروبار کرنے کے بعد منیر نیازی لاہور چلے گئے۔ جہاں مجید امجد کے اشتراک سے انھوں نے ایک پرچہ  ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا۔

1960ء کی دہائی میں انھوں نے فلموں کے لئے گانے لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ ان میں 1962کی فلم  ’’شہید‘‘ کے لئے نسیم بانو کا گایا ہوا گانا ’’اس بےوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، اور اسی سال فلم ’’سسرال‘‘ کے لئے مہدی حسن کی آواز میں ’’جس نے مرے دل کو درد دیا،  اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں‘‘ اور اسی فلم میں نورجہاں کی آواز میں ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ 1976کی فلم ’’خریدار‘‘ کے لئے ناہید اختر کی آواز میں ان کا گیت ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ لیکن بعد میں وہ پوری طرح اپنی ادبی شاعری میں غرق ہو گئے۔

 منیرنیازی کثرت سے شراب نوشی کے عادی تھے اور شراب کو اپنے سوا سب کے لئے برا کہتے تھے۔ آخری عمر میں ان کو سانس کی بیماری ہو گئی تھی اور اسی بیماری میں 26 دسمبر 2006ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں پہلے ’’ستارۂ امتیاز‘‘ سے اور پھر ’’پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ (کمال فن) کے تمغوں سے نوازا۔

منیر نیاز ی نے اپنی اس تنہائی کو کس طرح سے جھیلا وہ اس کا اس طرح اظہار کرتا ہے:

آس پاس کوئی گائوں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے

شام بھی جیسے کسی پرانے سوگ میں ڈوبی آئی ہے

پل پل بجلی چمک رہی ہے اور میلوں تنہائی ہے

کتنے جتن کیے ملنے کو پھر بھی کتنی دوری ہے

چلتے چلتے ہار گیا میں پھر بھی راہ ادھوری ہے

گھائل ہے آواز ہوا کی اور دل کی مجبوری ہے 

مجید امجد  جو اس کے دوست تھے اور جو اس کے قریب اور ایک ہی شہر میں رہے اس کے بارے میں کہتے ہیں ”…مجھے سب سے زیادہ اس کی شاعری کی وہ فضا پسند ہے … جو اس کی زندگی کے واقعات، اس کے ذاتی محسوسات اور اس کی شخصیت کی طبعی افتاد سے ابھرتی ہے، اس نے جو کچھ لکھا ہے جذبے کی صداقت کے ساتھ لکھا ہے اور اس کے احساسات کسی عالم بالا کی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس کی اپنی زندگی کی سطح پر کھیلنے والی لہریں ہیں۔” اس سلسلہ میں دیکھیے منیر کیا کہتا ہے:

میرے سوا اس سارے جگ میں کوئی نہیں دل والا

میں ہی وہ ہوں جس کی چتا سے گھر گھر ہوا اجالا

میرے ہی ہونٹوں سے لگا ہے نیلے زہر کا پیالا

میری طرح کوئی اپنے لہو سے ہولی کھیل کے دیکھے

کالے کٹھن پہاڑ دکھوں کے سر پہ جھیل کے دیکھے

 منیر نیازی کی تنہائی اس کے لیے سوہان روح بنی رہتی اور وہ کالے کٹھن پہاڑ دکھ سہتا رہتا لیکن اللہ نے اس پر یہ مہربانی کی کہ اُس نے فطرت (نیچر) کو منیر نیازی کا دوست، ساتھی بنا دیا، ایک جگہ وہ کہتا ہے:

گھٹا دیکھ کر لڑکیاں خوش ہوئیں

چھتوں پر کھلے پھول برسات کے

اور دوسری جگہ فطرت کا یوں اظہار ہوتا ہے:

صحن کو چمکا گئی بیلوں کو گیلا کر گئی

رات بارش کی فلک کو اور نیلا کر گئی

 منیر نیازی نے اپنے اکیلے پن کو نیلی اور دلدار، گھٹائوں کے حوالے کر دیا، یہ گھٹائیں کبھی چھتوں پر پھول کھلاتیں تو کبھی صحنوں کو چمکاتیں، بیلوں کو گیلا کرتیں اور فلک کو اور نیلا کر جاتیں، منیر کی شاعری میں نیلی اور دلدار گھٹائوں کی گلکاریاں آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گی جو اس کی شاعری کو منور کیے ہوئے ہیں:

بہت دن ہوئے

میں نے اک بادلوں سے بھری صبح کو

خوابگاہ کے دریچے سے جھانکا

تو پائیں چمن کا ہر ایک پھول

حیرت زدہ لڑکیوں کی لجائی ہوئی آنکھ کی طرح

میری طرف تَک رہا تھa

انسان خواہش کرتاہے اور خواہشوں کے خواب بھی دیکھتا ہے، منیر کی بھی خواہش اور خواہشوں کے خواب تھے، وہ ان میں بھی نیچر کی ہی باتیں کرتا ہے جیسے ”ایک انا ر کا پیڑ باغ میں اور ہوا متوازی تھی۔” کالی گھور گھٹا، بوندوں کی رم جھم کو منیر نے کس طرح اپنے کلام میں باندھا ہے ذرا دیکھیے:

گھر کی منڈیروں پہ گِھر آئی کالی گھور گھٹا

بوندوں کی رم جھم میں سارے شہر کا شور مٹا

چھت پر پازیبوں کے سُر کا اُجلا پھول کھلا

منیر نیازی کا واسطہ گو تنہائی اور اس کے دکھوں سے رہا لیکن وہ اُن کے باوجود شعروں کے گلزار کھلاتا رہا:

میں جو نہ ہوتا

میری طرح پھر کون

جہاں کے

اتنے غموں کا بوجھ اٹھاتا

دوزخ کے شعلوں میں جل کر

شعروں کے گلزار کھلاتا (صفحہ ۲۰۵)

اسے اُس کے دل کا درد وہاں لے گیا جہاں پر طلسمات کے دَر کھُلے تھے:

مجھے درد دل کا وہاں لے گیا

جہاں دَر کھلے تھے طلسمات کے

پھر تو منیر نیازی تھا اور طلسمات تھے گلابی ہونٹوں کے، کاجل آنکھوں کے ، کالی زلفوں کے، رنگِ حنا سے سجے ہاتھوں کے، چاند چہرہ اور پھول جھڑتی باتوں کے:

مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زبانوں کا اسم ہے

اُسے جب بھی سوچا بلا لیا اسے جو بھی چاہا بنا دیا

 

 

اس کے حسن کا بیان منیر کس طرح کرتا ہے یہ بھی دیکھیے:

چھلکائے ہوئے چلنا خوشبو لبِ لعلیں کی

اک باغ ساساتھ اپنے مہکائے ہوئے رہنا

اک شام سی کر رکھنا کاجل کے کرشمے سے

اک چاند سا آنکھوں میں چمکائے ہوئے رہنا

 

 

ہے شکل تیری گلاب جیسی

نظر ہے تیری شراب جیسی

 

 

موسم کی مستیوں میں اسے دیکھنا ذرا!

ٹھنڈی ہوا کی زد پر ہے پیپل کا اس کا جسم

 

 

یہ آنکھیں ہنسنے کے لیے بنی ہیں

خُمار کی فضا میں

یہ زلفیں اڑنے کے لیے بنی ہیں

بہار کی ہوا میں

یہ باتیں کہنے کے لیے بنی ہیں

وصال کی فضا میں

یہ راتیں رہنے کے لیے بنی ہیں 

فراق کی ہوا میں

منیر ہمیں اس صبح کی جھلکیاں بھی دکھاتا رہتا ہے جو ہمارا بچپن تھی جب رنگ زندہ، ہوا تازہ اور آنکھیں روشن تھیں اور اس خوبصورتی اور صداقت کی جھلکیاں بھی، جو بڑھتی ہوئی کمینگی اور بے حسی کے باوجود اب بھی کہیں کہیں دلوں میں، چہروں پر، باتوں میں اور فطرت کے مظاہر میں باقی ہیں۔ … وہ ماضی کی را ہ سے مستقبل کو پہنچا ہے اور ہوا اُس کی رہنما ہے، کیونکہ ہوا ہی خوشبوئوں کو پھیلاتی … ہے(۹)

منیر تنہائی کے غم سے اَٹ ضرور گیا تھا لیکن وہ دنیا سے کٹ نہیں گیا:

غم سے لپٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں

دنیا سے کٹ ہی جائیں گے ایسے بھی ہم نہیں

 

 

روشنی دکھا دوں گا ان اندھیر نگروں کو

اک ہوا ضیائوں کی چار سو چلا دوں گا

 

اور پھر اُس کی یہ دعا ”ایک دعا جو میں بھول گیا تھا

اے طائرِ مسرت

اُڑ کر کسی شجر سے

آ بیٹھ میرے گھر پر

تیری صدائے خوش سے

خوش ہو یہ گھر ہمارا

دیکھے خوشی سے اس کو

غمگین شہر سارا 

اور اس کی آخری خواہش:

چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر

ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو

 

 

اور آخر میں حضورؐ کی شان میں اس کا یہ شعر:

شامِ شہر ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے توؐ

یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے توؐ

منیر نیازی چلا گیا لیکن ہمیں زندہ رہنے کا طریقہ سکھا گیا۔

چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر

ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو

 

 

اور آخر میں حضورؐ کی شان میں اس کا یہ شعر:

شامِ شہر ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے توؐ

یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے توؐ

منیر نیازی چلا گیا لیکن ہمیں زندہ رہنے کا طریقہ سکھا گیا۔