جن کے لہو نے ہندوستان کو آزادی دلائی مگر خود بے نشان رہ گئے

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 10-08-2022
جن کے لہو نے ہندوستان کو آزادی دلائی مگر خود بے نشان رہ گئے
جن کے لہو نے ہندوستان کو آزادی دلائی مگر خود بے نشان رہ گئے

 

 

عمران شاہ ،نئی دہلی

ہندوستان کو فرنگیوں کے قبضے سے آزاد کرانے میں لاکھوں ہندوستانیوں نے قربانیاں دیں مگر ان میں چند لوگوں کا ذکر ہی کتابوں میں موجود ہے اور عوام تو صرف چند مجاہدین آزادی کو ہی جانتے ہیں۔درج ذیل نام مجاہدین آزادی کے ہیں مگرشاید ہی آپ نے سنے ہوں۔

عظیم اللہ خاں، بدرالدین طیب جی،رحمت اللہ ایم سیانی، پیر علی، شیخ بھکاری، شیخ محمد گلاب، بی اماں،شیر علی، مولانا منصور انصاری، پروفیسر عبدالباری، محمد سلیمان انصاری، خالد سیف اللہ انصاری، شفیق الرحمٰن قدفوائی، مظہر الحق،حاجی بیگم، دلاور خاں، سر سید سلطان احمد، محمد یونس،ڈاکٹر سید محمود، ابو محمد ابراہیم آروی، شاہ محمد زبیر، مغفور احمد اعجازی، مسٹر عبد العزیز، سر سید محمد فخرالدین، سر علی امام، کرنل محبوب احمد، پیر محمد یونس،وارث علی، مولانا یحییٰ،عبیداللہ سندھی، عطااللہ شاہ بخاری،مولوی عبدالغنی ڈار۔ ذیل میں ہم صرف چند گمنام مجاہدین آزادی کے تعلق سے مختصر جانکاری دیتے ہیں۔

وارث علی

وارث علی کو 1857 تحریک آزادی میں بہار کے سب سے پہلے شہید ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔تاریخ داں اشوک انشومن اور شری کانت نے اپنی کتاب "غدر ان ترہت ” میں وارث علی سے متعلق خطوط جو انہوں نے علی کریم کو لکھا تھا اور اس وقت پٹنہ کے کمشنر ولیم ٹیلر نے حکومت بنگال کے سکریٹری اے آر ینگ ،لیفٹنٹ گورنر آف بنگال ،فریڈ جیس ہیلیڈ کو ارسال کیے گئے خطوط کے مطابق وارث علی کو 06 جولائی 1857 کو(داناپور چھاؤنی میں) پھانسی دینے کی تصدیق کی ہے۔

 شہید وارث علی کو برطانوی راج کے خلاف سازش کے الزام میں پھانسی دی گئی۔ اس طرح وہ انگریز حکومت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں پھانسی پر چڑھ جانے والے بہار کے پہلے مجاہد آزادی بن گئے۔ آخر کار ترہت بہار کے وارث علی کی قربانی کو تسلیم کرتے ہوئے 164 سال بعد 2021 میں وزارت ثقافت اور ہندوستانی تاریخی تحقیقاتی کونسل کے ذریعہ جاری کردہ ملک کے شہداء کی نئی فہرست میں وارث علی کا نام بہار کے شہدا میں پہلے نمبر پر شامل کیاگیا۔ اس فیصلےنے بہار کی تاریخ کو ایک نئی اونچائی دی ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ شائع کتاب ڈکشنری مارٹیئرس (انڈیاس فریڈم اسٹرگل 1947-1857 ) کی چوتھی جلد میں وارث علی کو بہار کے اول شہید کے طورپر ذکر کرنے کے ساتھ ہی مرکز کی طرف سے بہار کے پہلے شہید وارث علی کی شہادت پر مرکز کی تصدیقی مہر لگ گئی ہے۔

امیرحمزہ

ایم اے ایم امیر حمزہ نے انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج)  کے لئے لاکھوں روپئے بطور عطیہ پیش کیا۔ وہ انڈین نیشنل آرمی کے آزاد لائبریری ریڈنگ پروپگنڈہ کے سربراہ تھے۔

میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی

 میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی نے اپنی ساری دولت ایک کروڑ روپئے انڈین نیشنل آرمی کو بطور عطیہ پیش کردی تھی۔ اس دور میں ایک کروڑ روپئے کوئی معمولی رقم نہیں تھی۔ میمن عبدالحبیب یوسف مرفانی نے اپنی ساری دولت سارے اثاثے نیتاجی سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی کو عطیہ کردی تھی ۔

یوسف مہرعلی

مہاراشٹر کے مجاہد آزادی یوسٖف مہر علی نے نہ صرف ’سائمن واپس جاؤ‘ کا نعرہ دیا بلکہ خود قلیوں کا لباس پہن کر بامبے بندرگاہ پر کالے جھنڈے کو لہراتے ہوئے خود یہ نعرہ بھی بلند کیا۔ یہی نہیں، 1942 کی ’انگریزو! بھارت چھوڑو‘ کی پوری تحریک یوسف مہر علی کے ذہن کی پیداوار تھی۔ اس تحریک پر جسٹس ویکینڈین کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بامبے سے مدراس جاتے ہوئے گاندھی جی دھارواڑ اترے۔ یہاں انہوں نے یوسف مہر علی سے انہوں نے جو سیکھا تھا اسے لوگوں کو بتایا۔

انہوں نے کانگریس کے رہنماؤں کو ان کے خیالات کو اپنانے کی تلقین کی۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو وہ اپنی ذمہ داری پر ایک مہم چلانے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چاہے ان کے تحریک میں کانگریس شامل ہو یا نہ ہو۔ بہرحال گاندھی کے ضد کے آگے کانگریس یوسف مہر علی کے آئیڈیا کو ماننے کو مجبور ہوئی۔ اس مہم میں بھی ’بھارت چھوڑو‘ کا نعرہ یوسف مہر علی نے ہی دیا۔ اس نعرے نے آزادی کی تحریک میں روح پھونک دی تھی۔

کتابوں اور جیل سے ان کی گہری دوستی تھی۔ اپنے 47 سال کی عمر میں انہوں نے کئی اہم کتابیں لکھیں وہیں آٹھ بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید رہے۔

  جولائی کی دوسری تاریخ کو 1950 کی صبح دل کا شدید دورہ پڑا اور وہ اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئے۔