آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 03-12-2021
آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات
آل انڈیا مسلم پر سنل لا ءبورڈ :کچھ توقعات اور خواہشات

 

 

wwww

پروفسر اختر الواسع،نئی دہلی

 بمبئی میں دسمبر 1972ءمیں مسلمانوں کے تمام مذہبی فرقوں کے رہنما اور نمائندے اور سیاسی جماعتوں کے قائدین جمع ہوئے تھے اور انہوں نے ایک ایسے وقت میں جب یکساں سِوِل کوڈ کی بعض حلقوں کی طرف سے پُرزور حمایت ہو رہی تھی، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی باتیں ہو رہیں تھیں، ایک غیرسرکاری تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے بنائی۔ راقم الحروف نے بھی اس کنوینشن کے ذمہ داروں کی دعوت پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈینٹس یونین کے اس وقت کے صدر (آج کے گورنر کیرالہ) جناب عارف محمد خاں کے ساتھ طلبہ یونین کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے شرکت کی تھی اور بورڈ کے قیام کے تجویز کی تائید میں تقریر بھی کی تھی۔ اس بات کو کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ بالکل صحیح بات ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک ایسا ادارہ اور تنظیم ہے جس پر مسلمان سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ بورڈ کے قیام کا اصل مقصد مسلمانوں کے عائلی قوانین کا تحفظ رہا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ حالات نے بورڈ کو اس پر مجبور کیا کہ وہ وسیع تر معنوں میں مسلمانوں کے جان و مال اور حقوق کا تحفظ بھی اپنے دائرے کار میں شامل کر لے۔

کورونا کی عالمی وبا کے سبب ایک طویل عرصہ کے بعد 20 اور 21 نومبر کو کانپور میں بورڈ کا دو روزہ اجلاس ہوا۔ پورے ملک سے 100 سے زائد اراکین، عہدیدارن، علما اور دانشوران شریک ہوئے۔ نئے عہدیداران کا انتخاب عمل میں آیا، مختلف مسائل پر بات چیت ہوئی اور آخر میں قراردادوں کی منظوری کے بعد اجلاس ختم ہوا۔ ملک کے سلگتے ماحول میں مسلمانوں کو بورڈ سے جو امیدیں تھیں، اس میں مایوسی ہوئی۔ اجلاس میں یکساں سول کوڈ، جبراً مذہب تبدیلی، لوجہاد، سی اے اے، این آر سی،ماب لنچنگ، بے قصوروں کی گرفتاری اور دیگر اہم ایشوز پر غور و خوض تو ہوا ۔

غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ملت کی زبوں حالی، مظلومی اور بے چارگی کو دیکھتے ہوئے عائلی قوانین میں انصاف اور حقوق کی بازیابی کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔بعد ازاں بورڈ کے تمام عہدیداران اور اراکین نے فیصلہ کیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ خود کو صرف شرعی اور عائلی مسائل تک محدود نہیں رکھے گا بلکہ مسلمانوں کا تحفظ، حقوق کی بازیابی اور ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے کے لئے بھی کام کرے گا۔ اس کے لئے جامع حکمت عملی وضع کی گئی، افراد تیار کئے گئے اور ان کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اس طرح ملت کا یہ کاررواں آگے بڑھتا رہا اور کامیابیاں ملتی رہیں۔ بنیاد گزاروں نے سنگلاخ راہ سے گزر کر مسلمانوں کوانصاف دلایا۔ منزل کی جدوجہد میں وہ زخمی بھی ہوئے، لیکن کبھی آبلہ پائی کی شکایت نہیں کی اور نہ وہ اس سے ڈرے۔

کانپوراجلاس میں دو روز تک غور و خوض کے بعد 11 قراردادیں منظور کی گئیں اور اعلامیہ جاری کیا گیا۔ یکساں سول کوڈ کو لے کر چل رہے عمل پر جو قرارداد پاس ہوئی ہے اس میں اگرچہ سبھی مذاہب کے آئینی حقوق کا تذکرہ تو کیا گیا ہے اور یکساں سول کوڈ کو نہ ماننے کی بات کہی گئی ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں کےساتھ مل کر جس حکمت علمی کو تیار کرنا چاہیے اس کے لئے کسی کوشش کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی گیان واپی مسجد اور شاہی عیدگاہ متھرا کے سلسلے میں فرقہ پرست عناصر، خاص طور پر ہندومہاسبھا کی جانب سے شرانگیزی پر لگام لگانے کا مطالبہ تو کیا گیا ہےلیکن 1991ء کے اس قانون کے حوالے سے جو 15؍اگست 1947ء کو جو عبادت گاہ جیسی تھی اور جس کی تھی اس کو باقی رکھنے کی بات کی گئی تھی اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا کوئی عندیہ سامنے نہیں آیا۔ جب کہ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ملک میں متھرا اور کاشی کو لے کر شرپسند جو آوازیں اٹھا رہے ہیں وہ نہ صرف دستورِ ہند کے منافی ہیں بلکہ 1991ء میں پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کئے گئے قانون کے بھی خلاف ہے اور اس طرح کی آوازیں اور شرپسندانہ اقدامات لاء اینڈ آرڈر (نظم و نسق) کا مسئلہ ہے۔

اس لئے سپریم کورٹ سے فوری رجوع کرنا چاہیے۔ اسی طرح اسلاموفوبیا اور توہین رسالت کے بڑھتے معاملات کے خلاف قانون بنانے کا موقف اختیار کیا گیا ہے۔ مذہب کی تبلیغ کرنا آئین کے مطابق بنیادی حق ہے،مسلمانوں نے کبھی بھی زبردستی، لالچ یا دباؤ دے کر کسی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا۔ اسی لیے ملک میں طویل مدت تک حکومت کرنے کے باوجود مسلمان اب بھی اقلیت میں ہیں۔ کسی نے ابھی تک اس طرح کی شکایت نہیں کی ہے کہ اس کا کسی نے جبراً مذہب تبدیل کرایا،اس لئے جبراً تبدیلی مذہب کو بے بنیاد بتایا گیا۔ تمام مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والی اس طاقتور تنظیم نے مولانا کلیم صدیقی، ڈاکٹر عمر گوتم سمیت مسلم مبلغین کی گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے، انہیں جبری تبدیلی مذہب کے جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کی بات تو کہی ، لیکن اس سےنمٹنے پر کوئی خاص زور نہیں دیاجب کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو اور ملت کی تمام جماعتوں کو مل جل کر نہ صرف ان لوگوں اور ان کے اہل خانہ کی بھرپور مدد میں آگے آنا چاہیے اور اس ظلم و نا انصافی کے خلاف قانونی لڑائی کو ان کی طرف سے اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ ان کے اہلِ خانہ اور وہ خود کس کرب سے گزر رہے ہوں گے اس کا اندازہ راقم الحروف کو اس لئے ہے کہ وہ خود بھی1973ء سے 1974ءکے بیچ سات مہینے تک میٖسا(MISA) کے تحت قیدوبند کیا اذیتوں سے دو چار رہا ہے۔

کانپور اجلاس میں خوشی کی بات ہے کہ ایک بار پھر مولانا سید رابع حسنی ندوی صاحب بورڈ کے صدر بنائے گئے، جب کہ جمعیۃ علما ء ہند کے سر براہ مولانا ارشد مدنی نائب صدر اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری منتخب کئے گئے ۔راحت کی بات یہ بھی ہے کہ پہلی بار بورڈ میں مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والی 30مسلم خواتین کو رکنیت دی گئی اور 3خواتین کو ایگزیکٹو کمیٹی ممبران کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ ہمیں اس بات کی اس لئے خوشی ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی اپنے ایک کالم میں ہم نے اس طرف بورڈ کے ذمہ داروں کی توجہ دلائی تھی۔

بلاشبہ اسےہندوستان کی اعلیٰ اسلامی تنظیم میں مسلم خواتین کو بااختیار بنانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔یہ سبھی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار خواتین ہیں، جو بورڈ کے موقف کو پوری قوت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں گی اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ وہ عورتیں جن کو اسلامی تعلیمات کے منافی رویہ رکھنے والے مردوں کے ہاتھوں بے چارگی کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے ان کی پریشانیوں کا حل ڈھونڈھا جائے اور ان کے مسائل و مصائب کو جاننے کے لئے ایک عملی کوشش کی جائے، اس کے لئے بورڈ کو علیحدہ سے ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے۔

ہم آخر میں ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ ’’مسلمانوں کی امیدوں کا اکلوتا مرکز‘‘ ہے جسے ہر اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہونا چاہیے۔ ملت پیچھے آنے کو تیار بیٹھی ہے، شرط ہے کہ قیادت مناسب حکمت عملی کے اس کی رہنمائی کرے۔

نوٹ: مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔