احمد سعید ملیح آبادی ۔ ایک صحافی، ایک رہنما

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 02-10-2023
احمد سعید ملیح آبادی ۔ ایک صحافی، ایک رہنما
احمد سعید ملیح آبادی ۔ ایک صحافی، ایک رہنما

 



 محمد طارق خاں

برصغیر کی سیاست میں چھ دہائی تک اپنی بے باک و غیر جانبدارانہ صحافت کا ڈنکا بجانے والے احمد سعید ملیح آبادی صرف صحافی نہیں ، قوم کے ایک بے لوث خدمتگار اور رہنما تھے، جنہوں نے ملک کی تقسیم کے بعد شکستہ دل مسلم قوم کے دلوں پر نہ صرف مرہم رکھا، بلکہ ہر موقع پر انکی صحیح رہنمائی کے فرائض انجام دیتے ہوئے انکے اندر سے تقسیم کے احساس جرم کو نکال کر انکی کھوئی ہوئی خود اعتمادی واپس لانے اور ملک میں مضبوطی کے ساتھ اپنے پیر جمانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ملک وملت کے مفاد میں انہوں نے کبھی کسی سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا ۔ فرقہ پرست و مذہبی تنگ نظری کا انہوں نے خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں انہیں اپنے ہم مذہب اور ہم پیشہ لوگوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا اپنے انہی اصولوں کی تکمیل کے سبب کاروبار کے میدان میں تو بہت کامیاب نہیں ہو سکے، مگر قوم کے معتبر رفیق کے طور پر ہمیشہ ملت کے دلوں میں ہے رہے۔

احمد سعید ملیح آبادی معروف عالم دین، مجاہد آزادی اور امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کے رفیق کار مولا نا عبدالرزاق ملیح آبادی کی سب سے بڑی اولاد تھے۔ زمیندار خاندان میں پیدا ہونے والے احمد سعید ملیح آبادی ابھی اپنی تعلیم کو مکمل بھی نہ کر پائے تھے کہ والد نے انہیں اپنی معاونت کے لئے کلکتہ بلوالیا اور اخبار کی دنیا میں بغیر کسی تربیت کے مولانا آزاد کے مشورے پر یہ سوچ کر اتار دیا کہ بطخ کے بچے کو تیرنا سکھا یا نہیں جاتا، پانی میں پہنچتے ہی وہ خود بخود تیرنے لگتا ہے اور ہوا بھی ایسا ہی۔ کلکتہ میں احمد سعید ملیح آبادی نے اپنے والد کے دہلی منتقل ہو جانے کے بعد اکیلے دم پر آزاد ہند کی ادارت نظم و اشاعت کی ساری ذمہ داری سنبھال لی۔

جس وقت احمد سعید ملیح آبادی نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا بنگال تقسیم کا گہرا زخم اپنے سینے پر کھائے ہوئے تھا اور مذہبی منافرت عروج پر تھی ۔ اک ذراسی چنگاری بھڑکتی اور لاشوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگ جاتے ، بستیاں اجڑ جاتیں اور آبادی کا تبادلہ مغربی بنگال سے مشرقی بنگال اور مشرقی بنگال سے مغربی بنگال ہونے لگتا قتل و غارت گری کی ستائی مسلم قوم کے اندر پھر سے اپنے وطن میں پیر جمانے اور فرقہ پرست ذہنیت سے نجات دلا کر معتدل مزاجی انکے دلوں میں پیدا کرنے کا مشن آزاد ہند نے اپنی تحریروں سے شروع کیا۔

اس مشن میں احمد سعید ملیح آبادی کو ہر لحہ سخت آزمائشوں وکٹھن راستوں سے گزرنا پڑا۔ دو بار جیل گئے، قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں ، مگر انکے دل سے قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ کم نہیں ہوا، بلکہ اور بڑھتا ہی گیا۔ کلکتہ میں آزادی کے 20 برس تک کانگریس پارٹی کی حکومت رہی۔ فرقہ پرستوں کا خوب بول بالا رہا اور مسلمان پٹتار ہا، لفتا رہا مگر احمد سعید ملیح آبادی کی رہنمائی کی قوت پر بنگال کے مسلمانوں کے پیرا کھڑے نہیں، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جھتے ہی چلے گئے۔

سن1967 میں بنگال صوبے میں پہلی غیر کا نگریسی حکومت بنگلہ کانگریس لیڈرا جنے مکھرجی کی قیادت میں قائم ہوئی جس میں بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل رہیں، جیوتی باسووزیر داخلہ اور نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ حکومت صرف دو ڈھائی سال چلی مگر فرقہ پرستوں کی پسپائی کی بنیاد اسی حکومت میں پڑی جسے بعد میں بنگال کے مقبول ترین سیکولر کانگرسی لیڈر چتر نجن داس کے نواسے بیرسٹر سدھارت شنکر رائے نے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کر انکی مزید سرکوبی کر کے بنگال میں مذہبی ہم آہنگی کی فضا ایک بار پھر قائم کر دی۔ دونوں ہی سیاسی اکابرین کی دلوں میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے میں آزاد ہند کا اہم کردار رہا۔ کوئی بھی مسلم مسئلہ ہو آزاد ہنڈ کا موقف حکمراں ضرور جاننے کی کوشش کرتے اور آزاد ہنڈ کی رہنمائی کی صفات ملک و ملت دونوں کے مفاد میں ہمیشہ کھری اتریں۔ اہل کلکتہ بھلا 1964 کے فساد کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں جب منظم سازش کے تحت کانگریسی وزیر اعلیٰ پی سی سین کی حکومت میں ایسی شدت کا فساد پھوٹ پڑا کہ فوج کے سپر د بنگال کو کرنا پڑا۔ فوج کے حوالے کرنے کا مشورہ احمد سعید ملیح آبادی کا تھا جو انہوں نے اندرا گاندھی کو اس وقت دیا تھا جب وزیر اعظم پنڈت نہرو کے انتقال کے بعد قائم مقام وزیر اعظم گزاری لال نندا تھے۔ پورے واقعہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر احمد سعید ملیح آبادی نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں کیا ہے۔

بنگال کے مسلمانوں کو فساد کے عذاب سے نہ صرف نجات دلانے میں آزاد ہند اور احمد سعید لیح آبادی کی رہنمائی کا اہم کردار رہا، بلکہ ان کے اندر ایسا سیاسی شعور پیدا کر دیا کہ کسی بھی انتخاب میں وہ پھر بھٹکے نہیں اور اپنے ووٹ کو انہوں نے تقسیم نہیں ہونے دیا، بنگال کے مسلم ووٹروں میں یہ سیاسی روش آج تک قائم ہے۔ آزاد ہنڈ کے اداریوں سے چھ دہائی تک احمد سعید ملیح آبادی نے بنگال کی نہ صرف مسلم آبادی کے ذہنوں پر اپنا کنٹرول برسہا برس تک قائم رکھا، بلکہ غیر امن پسند غیر مسلموں کے دلوں میں بھی اپنی ایک مخصوص نیشنلسٹ و سیکولر مسلم کی امیج مرتے دم تک برقرار رکھی ۔ عوام کے ذہنوں میں پیدا کی جانے والی اسی معتبریت کے چلتے ہی آزاد ہنڈ کواردو اسٹیٹسمین کہا جاتا تھا۔

باوجود اتنی کامیابیوں کے احمد سعید ملیح آبادی اپنے ملی وقومی فرائض واصولوں سے کبھی ایک انچ بھی ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ وہ کانگریس جسکی حکومت میں انہیں دو بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا اسدھارتھ شنکر رے کی کانگریسی حکومت کو انہوں نے اپنا پورا تعاون دیا اور ملت کے لئے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام ان سے لے لئے۔ اسی طرح بائیں مورچہ کی جب سرکار بنگال میں رہی تو باوجود جیوتی باسو سے اپنی قربت کے ملی مسائل میں کبھی ان سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا، انہی کی کاوشوں کے نتیجے میں اردو کو اسکا جائز مقام بنگال میں حاصل ہوا ۔مسلمانوں کو ملازمتوں میں ریزرویشن دلانے کے لئے وہ برابر بائیں بازو کے حکمرانوں سے مورچہ لیتے رہے انہیں اسکے لئے قائل کرنے میں جٹے رہے۔

باوجود اس کے ہر انتخاب میں آزاد ہند نے مسلم ووٹوں کو بہترین سیاسی شعوری سے آراستہ کر کے تیس سال تک بائیں محاذ کی حکومت کو کامیابی کے ساتھ چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قومی سیاست میں بھی مسلم ووٹروں کو انہوں نے ہمیشہ اپنے اداریوں سے صحیح سمت دکھائی اور مسلمانوں کو جب بھی کسی سیاسی یا مذہبی مسلم اکابر نے اپنے ذاتی فائدہ یا کسی سیاسی جماعت کو سیاسی فائدہ دلانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی تو احمد سعید ملیح آبادی نے جم کر ایسے لوگوں کی سرزنش اپنے اداریوں سے کی۔

جنتا پارٹی کی قیادت میں 1977 کے عام انتخابات میں برسراقتدار آئی مورارجی بھائی کی سرکار جب آرایس ایس سے جن سنگھ کے رشتوں کے چلتے گر گئی تو 1979 میں ہورہے پارلیمنٹ کے انتخاب میں مولانا ابوالحسن ندوی عرف علی میاں کی مسلمانوں سے جنتا پارٹی کے حق میں ووٹ کرنے کی اپیل کے خلاف آزاد ہند میں احمد سعید ملیح آبادی نے کافی جارحانہ انداز میں مورچہ کھول کر اسکی سخت مخالفت کی ، جبکہ علی میاں ان کے والد کے تعلیم کے دور کے ساتھی تھے۔

احمد سعید ملیح آبادی نے مسلمانوں کو ہمیشہ جذباتی فیصلوں سے محفوظ رکھا اور فرقہ پرستوں کو شر انگیزی پھیلانے سے اپنے اسی ہتھیار سے روکے رکھا۔ قرآن پاک پر جب ایک شیطان سفت اور ذہنی بیمار چاندمل چوپڑا نے پدر ماد خستگیر کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا تو مسلمانوں کے جذبات کو قابو میں رکھنا احمد سعید کے قلم کا ایک کمالی عمل کہا جائے گا۔ اسی طرح خانہ کعبہ پر حملہ تسلیمہ نصرین اور سلمان رشدی کی اہانت رسول کی گستاخیاں ، دم دم مسجد ، سد ہا مسجد کی منتقلی اور بابری مسجد جیسے حساس معاملات کے وقت قوم کے مجروح جذبات کو قابو میں رکھنے اور انہیں صبر وتحمل کا سبق پڑھانے و اس پر عمل کرا کے بنگال میں امن و چین کا ماحول قائم رکھنے میں احمد سعید ملیح آبادی کے کردار کو اہل بنگال کبھی فراموش نہ کر سکیں گے۔