کابل کی صورتحال مایوس کن ہے:مصطفی احمدی

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 11-07-2021
استنبول کیفے کے مالک مصطفی
استنبول کیفے کے مالک مصطفی

 

 

 شائستہ فاطمہ / نئی دہلی

بیس سال بعد جب امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں طالبان اور سکیورٹی فورسز کے مابین لڑائی لڑتے ہوئے ملک چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں ، مصطفیٰ آج اپنے گھر ، کابل کے بارے میں سوچ رہے ہیں ، جسے انہیں تین سال قبل چھوڑنا پڑا تھا۔ افغان شہری مصطفیٰ احمدی افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد مسلسل اپنے ملک کی 20 سالہ صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔

خیال رہے کہ مصطفیٰ احمد نئی دہلی کے پُرحوم علاقے لاجپت نگر میں رہتے ہیں، یہاں کا اپنا ریستوراں'استنبول کیفے' چلاتے ہیں ، مصطفیٰ کہتے ہیں کہ نئی دہلی ایک محفوظ مقام ہے ، ہندوستان محفوظ ہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ ہندوستان میں افغانوں کو تلاشتے ہیں جب کہ میرا وطن افغانستان ایک لامتناہی جنگ کی طرف گامزن ہے۔انھوں نے کہ گذشتہ چالیس برسوں سے وہاں ایسی صورت بنی ہوئی ہے۔اور انہیں کوئی امید بھی نظر نہیں آرہی ہے۔

افغان شہری مصطفیٰ ان گیارہ ہزار رجسٹرڈ افغان مہاجرین میں سے ایک ہیں، جو اپنے ملک چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ گزین کے طور پر رہ رہے ہیں۔تین سال قبل مصطفی کی کابل کی ایک مصروف گلی میں موبائل شاپ تھی۔ وہ تعمیراتی کاروبار بھی کر رہے تھے۔ ایک دن جب وہ اپنے کام سے واپس گھر لوٹ رہے تھے، وہاں ایک طالبانی نے انہیں بُری طرح زخمی کر دیا۔اس حملہ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی اور جسم کے کئی حصوں پر نشانات الگ تھے۔

ان کے مطابق طالبان نے اس لیے ان پر حملہ کیا، کیوں کہ انہوں نے طالبان کا غیرقانونی کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔اس حادثہ کے وہ اپنے ملک سے اتنے زیادہ متنفر ہوئے کہ انھوں نے اپنا ملک چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ لے لی۔انہوں نے آواز دی وائس کو بتایا کہ میں ابھی بھی خوفزدہ ہوں ، مجھے اپنی جان سے ڈر ہے ، افغانستان میں جن لوگوں نے مجھ پر حملہ کیا وہ اب بھی میرے خون کے پیاسے ہیں۔

awazurdu

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

مصطفیٰ نے ان طالبان کے بارے میں بات کی جو ایک بار پھر اپنے وطن پر قابض ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب بھی وہ غیر ملکی کا چہرہ دیکھتا ہے تو اسے اپنی جان سے ڈر لگتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں غیر ملکیوں کا بہت بڑا ہجوم ہے ، بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ مجھ پر دوبارہ حملہ کیا جائے گا۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اپنا وجود ثابت کرنے کے لئے بے چین ہیں۔

دہلی میں ڈاکٹروں نے اس کی آنکھ بچائی اور اب یہ شہر اس کا گھر بن گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس ملک کے بارے میں جن کو انہوں نے اپنایا تھا کہ ہندوستان اب میرا ملک ہے ، یہ وہ ملک ہے جس نے مجھے تحفظ فراہم کرائی؛میں یہاں کماتا ہوں ، میری یہاں عزت کی جاتی ہے۔دو سال قبل ، مصطفی جیب میں صرف پچاس ہزار روپے لے کر دہلی آیے تھے۔آج وہ ایک گیسٹ ہاؤس اور ایک کیفے چلا رہا ہے۔انہوں نے کہا ، "افغانستان اور ہندوستانی کرنسی کی مساوی قدر ہے ، کرنسی ہماری دوستی کی طرح ہے۔" سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان آئندہ ماہ 31 اگست تک یہاں پورے ملک افغانستان میں قابض ہو سکتا ہے۔

فی الوقت طالبان افغانستان کے 34 صوبوں میں جنگ کر رہے ہیں۔انہوں نے ملک ہندوستان کی بہت زیادہ تعریف کی ہے۔۔۔انھوں نے کہا کہ، "میں یہاں بسنے والے تمام افغان باشندوں کی طرف سے بات کرتا ہوں ، ہم ہندوستان کے خوشگوار جذبے کو سلام پیش کرتے ہیں ، پولیس بھی ہم افغان شہریوں کا بہت تعاون کرتی ہے ، وہ کبھی بھی ہمارے کام میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔" اس میں تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ لاجپت نگر کے ایک کونے کو منی افغانستان کہا جاتا ہے۔

awazurdu

ایک کوشش ۔ ایک امید

قومی دارالحکومت دہلی میں افغانوں کے لئے وبائی مرض مشکل رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں ، "لاجپت نگر بنیادی طور پر ایک تجارتی علاقہ ہے ، ہم بنیادی طور پر غیر ملکیوں پر منحصر ہیں ، وبائی امراض کی وجہ سے ہمارا کام سست روی کا شکار ہے ، لیکن ہم ایک بہتر مستقبل کے منتظر ہیں۔"مصطفیٰ کا دعوی ہے کہ ہندی اب ان کی مادری زبان ہے۔ وہ کہتے ہیں ، “بچپن سے ہی میں دلیپ کمار اور دھرمیندر فلموں کا مداح رہے ہیں اوروہ محمد رفیع کو سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔

عام طور پر لوگ افغان ریستوراں ایک نئے ذائقہ کی تلاش میں آتے ہیں اور انہیں نیا ذائقہ ہی ملتا ہے۔ لوگ یہاں ہر کھانے کے عام طور پر بہت پسند کرتے ہیں، ان میں ذائقہ ہندوستان اور دیگر یورپی کھانوں سے الگ ہوتا ہے۔آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے اس ریستوراں کے سینیئر باورچی حاجی زادہ نے بتایا کہ انہیں یہ کام ورثہ میں ملا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستانی کھانا بہت مسالہ دار ہوتا ہے جب کہ وہ کم مسالے والہ کھانا بناتے ہیں۔ وہ مصطفیٰ کے ساتھ ہی کام کی تلاش میں ہندوستان آئے تھے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔

مصطفی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ قدرتی ذائقہ کو برقرار رکھنے میں یقین رکھتے ہیں اور اسی طرح بناتے ہیں تاکہ لوگوں کو ایک صحیح ذائقہ فراہم کرسکیں۔لاجپت نگر کا یہ ریستوراں لوگوں کو اپنے ذائقہ کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرنے میں مصروف ہے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے اہم ہے، جو مشرق وسطیٰ کے کھانے کے کھانے کے شوقین ہیں اور افغان کمیونٹی کی حمایت کرتے ہیں ، جو اپنے وطن میں امن کی امید رکھتے ہیں۔