سید امتیاز الدین: آٹو گراف کے خزانے کے مالک

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | 1 Years ago
سید امتیاز الدین: آٹو گراف کے خزانے کے مالک
سید امتیاز الدین: آٹو گراف کے خزانے کے مالک

 

 

عبدالرحمن پاشا، حیدرآباد

        یوں تو کئی ایسی خواہشیں اور شوق (ہابیس)ہوتے ہیں، جن کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کئی خواہشیں تو عادت بن جاتی ہیں، لیکن چند ایک خواہش صرف ’شوق‘ نہیں بلکہ پیشہ بھی بن جاتی ہیں۔ اگر کسی کو بچپن سے کرکٹ کا شوق ہے یا کسی کو کھانے پکانے کا شوق ہے اور مسلسل کوشش کرے تو وہ کرکٹر یا چیف بن سکتا ہے۔ یوں خواہش اور پیشہ ایک ہونے سے اس کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سید امتیاز الدین کو بچپن سے نامور شخصیات سے دستخطیں حاصل کرنا کا بے انہتا شوق تھا۔ انھوں نے اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ تاحال سید امتیاز الدین کے پاس تقریباً دو سو سے زائد نامور ترین شخصیتوں کی دستخطیں موجود ہیں۔

ان شخصیتوں میں نوبل انعام یافتگان، سیاست دان، اردو وو انگریزی کے نامور ادباء و شعراء، کئی ممالک کے سربراہان مملکت و وزرائے اعظم اور فلمی ستارے شامل ہیں۔ موصوف کی جانب سے جمع کردہ دستخطوں کو دیکھ کر رشک آتا ہے۔ان کا شوق سرحدوں سے بھی ماورا ہے۔ مشہور شخصیتوں کی دستخط حاصل کرنے کے لیے سید امتیاز الدین کو کئی کئی دن صبر کرنا پڑا ورانھوں نے ملک و بیرون ملک ان شخصیتوں کو خطوط بھی لکھا۔

awazthevoice

دستخطیں حاصل کرنے کا محرک کیا ہے؟

         دنیا کی مشہور شخصیتوں کے دستخط حاصل کرنے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟ اس بارے میں سید امتیاز الدین نے اپنے دور طالب علمی کا دلچسپ واقعہ سنایا۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ حیدرآباد کے علاقہ نامپلی میں واقع گاندھی بھون مڈل اسکول میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے تو ان کے نصاب میں شامل ایک مضمون پڑھایا جارہا تھا، جو کہ ہندوستان کے معروف نوبل انعام یافتہ سائنسدان و ماہر طبیعیات سر سی وی رمن (پ:7 نومبر 1888۔ و:21 نومبر 1970) سے متعلق تھا، جن کی تحقیقات ’رمن ایفکٹ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس دور میں سر سی رمن کا طوطا بول رہا تھا۔ سید امتیاز احمد نے بتایا کہ اسی دوران ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ رمن کو خط لکھا جائے لیکن انھیں رمن کا کوئی پتہ بھی نہیں معلوم تھا۔ انھوں نے خط کے پتہ کی جگہ ’سر سی وی رمن، بنگلور‘ لکھا اور دوسری جانب لکھا کہ ’میں نے آج آپ کے بارے میں پڑھا تو میں بہت متاثر ہوا اور مجھے آپ کی دستخط چاہیے‘۔ اس کے چند ہی دن بعد انھیں سر سی وی رمن کا خط ملا، جس میں رمن نے خوب پذیرائی کی اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ سید امتیاز الدین نے بتایا کہ یہی وہ پہلا ’خوش گواراور یادگار‘ واقعہ ہے، جس کی وجہ سے ان کے اندر مشہور شخصیتوں کی دستخطیں حاصل کرنا کا شوق پیدا ہوا۔ سید امتیاز الدین نے بتایا کہ رمن کا جوابی خط اور دستخط ملنے کے بعد ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

تعلیمی پس منظر:

         سید امتیاز الدین نے اپنے تعلیمی سفر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حیدرآباد کے مشہور سرکاری اسکول چادر گھاٹ ہائی اسکول میں دسویں جماعت کامیاب کیا۔ دسویں کے بعد نظام کالج میں پری یونیورسٹی کا ایک سالہ کورس مکمل کیا۔ اس کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی سے بی ای مکمل کیا، اسی دوران انھیں آندھراپردیش اسٹیٹ الیکٹرسٹی ڈپارٹمنٹ (اے پی ایس ای بی) میں نوکری مل گئی۔ دوران ملازمت ہی انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے شام کے اوقات میں ایم بی اے مکمل کیا۔ سال 2001 میں وہ بطور سپریٹینڈنگ انجینئرکے سبکدوش ہوئے۔

        حیدرآباد کے نامور شاعر شاذ تمکنت (پ: 21 جنوری 1933۔ و: 18 اگست 1985) سید امتیاز الدین کے بڑے بھائی تھے۔ شاذ تمکنت کو اپنے زمانے میں خوب شہرت حاصل ہوئی۔ انھیں دہلی، لکھنئو اور ملک کی دیگر ریاستوں کے مشاعروں میں مدعو کیا جاتا تھا۔ شاذ تمکنت کی مشہور تصانیف میں ’نیم خواب‘، ’ورق انتخاب‘، ’تراشیدہ‘ اور ’بیاض شام‘ قابل ذکر ہے۔

awazthevoice

ایک یادگار واقعہ:

       سید امتیاز الدین نے اپنے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ”جب شاذ مشاعرہ میں شرکت کے لیے دہلی گئے تو انھوں نے اپنے ساتھ آٹوگراف بک بھی ساتھ رکھا، جس میں انھوں نے کئی معروف شعرا کی دستخطیں حاصل کی۔ اسے دیکھ کر مجھے تحریک حاصل ہوئی کہ میں بھی مشہور شخصیات کی دستخطیں حاصل کروں۔ سال 1957 کے اواخر میں، میں نے سابق صدر جمہوریہ ہند راجندر پرساد (پ: 3 دسمبر 1884 - و: 28 فروری 1963) سے ملاقات کی خواہش کے اظہار کے ساتھ خط لکھا تو راشٹریہ پتی بھون سے جوابی خط موصول ہوا کہ راجندر پرساد جون 1958 کو حیدرآباد ریسیڈینٹ تشریف لائیں گے، آپ ان سے وہاں ملاقات کرسکتے ہیں“۔

      ”متعلقہ تاریخ جیسے جیسے قریب آرہی تھی تو میرے اشتیاق میں مزید اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا، جب خبر ملی کہ راجندر پرساد حیدرآباد تشریف لاچکے ہیں تو میں اپنے بڑے بھائی شاذ تمکنت کے ساتھ حیدرآباد ریسیڈینٹ پہنچا اور راجندر پرساد سے ملاقات ہوئی تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی۔ خود راجندر پرساد نے بھی میرے اس شوق کو سراہا۔ ایک نفیس کاغذ پر ان کی پہلے سے انگریزی اور ہندی میں دستخط تھی۔ انھوں نے میرے سامنے اس پر اردو میں بھی دستخط کیا اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا“۔

       سید امتیاز الدین کو بچپن سے ہی علامہ اقبال (پ: 9 نومبر 1877۔ و: 21 اپریل 1938) کی شاعری سے خاص شغف رہا ہے۔ ان کا شمار حیدرآباد کے ممتاز ماہرین اقبالیات میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کے علاقہ سانچہ توپ (گن فاونڈری) میں واقعہ مسجد عالیہ میں ہر بدھ کو منعقد ہونے والے ’محفل اقبال شناہی‘ میں لکچر دیتے رہے ہیں۔ وہیں اردو دنیا کے معروف طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین (پ: 15 جولائی 1936۔ و: 27 مئی 2020) موصوف کے دوست رہے، جن پر انھوں نے ایک کتاب بھی مرتب کی۔

awazthevoice

عالمی شخصیات کی دستخطیں:

         سید امتیاز الدین نے لگ بھگ دوسو سے زائد ممتاز شخصیات کی دستخطیں حاصل کیں۔ ان میں ہندوستان کے آخری وائس رائے اور پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن (پ: 25 جون 1900 - و: 27 اگست 1979) بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ امریکہ کے انچالیس ویں صدر جمی کارٹر (پ: 1 اکتوبر 1924)، مصر کے دوسرے صدر جمال عبدالناصر (پ: 15 جنوری 1918 - و: 28 ستمبر 1970)، یوگوسلاویہ کے سابق صدر جوسپ بروز ٹیٹو (پ: 7 مئی 1892۔ و: 4 مئی 1980) پینتیسویں امریکی صدر جان ایف کینیڈی (پ: 29 مئی 1917 - و: 22 نومبر 1963)، انڈونیشیا کے پہلے صدر عبدالرحیم سوکارنو (پ: 18 اگست 1945 - و: 12 مارچ 1967)، اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون (پ: 3 نومبر 1955 - و: 26 جون 1963)، اردن کے سابق بادشاہ شاہ حسین بن طلال (پ: 14 نومبر 1935۔ و: 7 فروری 1999)، مشہور امریکی اداکارہ الزبتھ ٹیلر (پ: 27 فروری 1932 - و: 23 مارچ 2011) ان کے شوہر مشہور ہالی ووڈ اداکار رچرڈ برٹن (پ: 10 نومبر 1925 - و: 5 اگست 1984)، مدر ٹریسا (پ: 26 اگست 1910 - و: 5 ستمبر 1997)، مشہور امریکی فلم دی ٹین کمانڈمنٹس کے ہیرو چارلٹن ہیسٹن (پ: 4 اکتوبر 1923۔ و: 5 اپریل 2008) اور پاکستان کے معروف نوبل انعام یافتہ ماہر طبیعیات ڈاکٹر عبدالسلام (پ: 29 جنوری 1926۔ و: 21 نومبر 1996) سے بھی سید امتیاز الدین نے خطوط لکھ کر دستخطیں حاصل کی۔ ان میں سے کئی ایک شخصیات نے موصوف کو اپنی تصویر بطور تحفہ پیش کیا۔

ہندوستانی سیاست داں:

          سید امتیاز الدین نے جن ہندوستانی سیاست دانوں سے دستخطیں حاصل کی؛ ان میں قابل ذکر نام ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو (پ: 4 نومبر 1889۔ و: 27 مئی 1964)، سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی (پ: 19 نومبر 1917۔ قتل: 31 اکتوبر 1984)، سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین (پ: 8 فروری 1897۔ و: 3 مئی 1969)، ملک کے پہلے وزیر تعلیم، صحافی و ادیب مولانا ابوالکلام آزاد (پ: 11 نومبر 1888۔ و: 22 فروری)، پنڈت لال نہرو کی بہن وجئے لکشمی پنڈت (پ: 18 اگست 1900، و: 1 دسمبر 1990)، وی کے کرشنا مینن (پ: 3 مئی 1896۔ و: 6 اکتوبر 1974)، سابق وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی (پ: 29 فروری 1896 - و: 10 اپریل 1995)، سابق صدر وی وی گری (پ: 10 اگست 1894۔ و: 24 جون 1980)، سابق صدر ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن (پ: 5 ستمبر 1888۔ و: 17 اپریل 1975)، سابق صدر جمہوریہ ہند نیلم سنجیوا ریڈی (پ: 25 جولائی 1977 - و: 25 جولائی 1982) وغیرہ شامل ہیں۔

awazthevoice

ادب، فلم اور کھیل:

      موصوف نے بتایا کہ انھیں ادب، فلم اور کھیل کا شروع سے شوق رہا ہے۔ خود ان کے الفاظ میں ان تینوں کا زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ان تینوں شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے دستخط حاصل کی۔ انگریزی کے معروف شاعر ٹی ایس ایلیٹ (پ: 26 ستمبر 1888 - و: 4 جنوری 1965)، امریکی مصنف جان اسٹین بیک (پ: 27 فروری 1902۔ و: 20  دسمبر 1968)، برطانوی ماہر ریاضیات و نوبل انعام یافتہ برٹرینڈ رسل (پ: 18 مئی 1872 - و: 2 فروری 1970)، امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے (پ: 21 جولائی 1899۔ و: 2 جولائی 1961)، اسکارٹ لینڈ کے مشہور ڈاکٹر اے جے کرونن (19 جولائی 1896 - 6 جنوری 1981)، امریکی مصنفہ پرل ایس بک (پ: 26 جون 1892۔ و: 6 مارچ 1973)، انگریزی مصنف الڈوس ہکسلے (پ: 26 جولائی 1894 - و: 22 نومبر 1963)، جوش ملیح آبادی (پ: 5 دسمبر 1898۔ و: 22 فروری 1982)، رشید احمد صدیقی (پ: 1894۔ و: 15 جنوری 1977)، جگر مراد آباد ی(پ: 6 اپریل 1890۔ و: 9 ستمبر 1960)، فیض احمد فیض (پ: 3 فروری 1911۔ و: 20 نومبر 1984)، خلیل الرحمن اعظمی (پ: 9 اگست 1927۔ و: 1 جون 1978)، سہیل عظیم آبادی (پ: 16 جولائی 1911۔ و: 28 نومبر 1979)، احمد ندیم قاسمی (پ: 20 نومبر 1916۔ و: 10 جولائی 2006)، مخدوم محی الدین (پ: 4 فروری 1908۔ و: 25 اگست 1969)، قرۃ العین حیدر (پ: 20 جنوری 1927۔ و: 21 اگست 2007)، کرشن چندر (پ: 23 نومبر 1914۔ و: 8 مارچ 1977)، راجندر سنگھ بیدی (پ: 1 ستمبر 1915۔ و: 1984)، مولانا سید ابولحسن علی ندوی (پ: 5 دسمبر 1913۔ و: 31 دسمبر 1999) اور مولانا عبدالماجد دریابادی (پ: 16 مارچ 1892۔ و: 6 جنوری 1977) وغیرہ اس فہرست میں شامل ہیں؛ جن کی دستخطیں امتیاز الدین نے حاصل کی۔ وہیں دلیپ کمار (پ: 11 دسمبر 1922۔ و: 7 جولائی 2021)، اشوک کمار (پ: 3 اکتوبر 1911۔ و: 10 دسمبر 2001)، سنیل گواسکر، سچن تندولکر اور امیتابھ بچن وغیرہ کے بھی دستخط سید امتیاز الدین کی آٹوگراف بک میں موجود ہے۔

          سید امتیاز الدین نے بتایا کہ حیدرآباد کی مشہور معظم جاہی مارکٹ کے قریب امریکی کتب خانہ تھا، جہاں جا کر وہ اکثر مطالعہ کرتے تھے۔ ایک کتاب”Who's Who in America“ کے مطالعہ سے انھیں بہت سی شخصیات کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ سید امتیاز الدین کا کہنا ہے کہ اگر انسان میں شوق اور سچی لگن ہو تو وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔