ساہتیہ اکاڈمی: بچوں کے ادب کے لیےملا ظفر کمالی کو ایوارڈ

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 15-11-2022
ساہتیہ اکاڈمی: بچوں کے ادب کے لیےملا ظفر کمالی  کو ایوارڈ
ساہتیہ اکاڈمی: بچوں کے ادب کے لیےملا ظفر کمالی کو ایوارڈ

 

 

منصور الدین فریدی/ نئی دہلی

پیر کی شام ایک رنگا رنگ تقریب میں بچوں کے ادب میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو ساہتیہ اکیڈمی نے اپنے پروقار اعزاز سے نوازا،  جن  میں اردو کی ممتاز ادیب ظفر کمالی بھی شامل تھے- جنہیں ادب اطفال میں'حوصلوں کی اڑان' نامی کتاب کے لیے اس ایوارڈ کے لیے لیے منتخب کیا گیا- ایک ایسے دور میں جب ہر کسی نے بچوں کے ادب کو نظر انداز کر دیا تھا،  ظفر کمالی نے اردو ادب میں بچوں کے لیے ایسی خدمات پیش کیں کی جن کو فراموش کرنا مشکل ہے حقیقت یہی ہے کہ بچوں کے ادب پر پر کام کرنے والوں نے وہ ذمہ داری نبھائیں گی جو وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی

ظفر کمالی کی ادبی شخصیت کثیر جہاتی ہے۔ وہ محقق، ظریفانہ شاعر، رباعی گواور بچوں کے شاعر کے طور پر اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔ 1984 میں ان کی پہلی کتاب ’مکاتیبِ ریاضیہ ‘ سامنے آئی تھی۔

ان کا پہلا شعری مجموعہ ظرافتی ادب کے حوالے سے ’ظرافت نامہ‘2005 میں سامنے آیا۔ ظرافت کے تعلق سے ان کی دوسری کتابیں’ڈنک 2009، ’نمک دان‘2011 اور ’ضربِ سخن‘2019 اردو کے موجودہ ظریفانہ سرمایے میں اپنی خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

تحقیق کے حوالے سے ان کی اولین کتاب ’متعلقاتِ احمد جمال پاشا‘2006 میں سامنے آئی۔2017 میں’ تحقیقی تبصرے‘ کے عنوان سے گیارہ طویل تبصروں کی کتاب شائع ہوئی۔2022 میں ’احمد جمال پاشا‘ کے سلسلے سے اردو ڈائرکٹوریٹ نے ان کا تحریر کردہ مونوگراف شائع کیا ہے۔

ظفر کمالی ایک رباعی گو کی حیثیت سے اپنی خاص شناخت رکھتے ہیں۔اس سلسلے سے ان کی پہلی کتاب ’رباعیاں‘ عنوان سے2010 میں شائع ہوئی۔2013 میں ’رباعیاتِ ظفر‘کے نام سے ان کا دوسرا مجموعۂ رباعیات شائع ہوا۔2017 میں ’رباعیات‘ کا دیوان ’خاکِ جستجو‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس کے علاوہ مجتبیٰ حسین کے نام مشاہیر کے خطوط کی ایک مکمل ضخیم جلد ان کی ترتیب و تدوین میں منظرِ عام پر آچکی ہے۔

مختلف ادبا و شعرا کی تحریروں کے انتخابات اور غیر مطبوعہ کلام کی یکجائی کے ساتھ اپنے تعارف اور مقدمے کے شامل ان کی اشاعت ان کے اہم کاموں میں سے ایک ہے۔

بلاشبہ ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈز کا اعلان ہوا تھا تو پھر اردو حلقوں میں ظفر کمال کو منتخب کیے جانے پر بہت خوشی کا اظہار ہوا تھا اور پیر کی شان جب انہیں یہ ایوارڈ ملا یہ خوشی دوبالا ہوگئی- 

اس محفل میں ممتاز ادیبوں اور دانشوروں نے بچوں کے ادب کے تعلق سے اپنی آراء کا اظہار کیا اور سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تہذیب کے آثار ہونے کے سبب بچوں کے ادب کو ایک قومی شکل دینی چاہیے

آج کے معاشرے میں بچوں کے ادب کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے  کہ ہر وہ معاشرہ جس کے بچے تخلیقی اور جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط ہوں، کسی بھی تہذیب کا اہم اثاثہ ہوتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ بچوں کا ادب ملک کی تمام زبانوں میں مرکزی دھارے کا ادب بن جائے۔

ان تاثرات کا اظہار ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹرکےسرینیواسراو نے کیا، وہ ساہتہ اکاڈمی ایوارڈ کی تقریب میں خطاب کررہے تھے -انہوں نے مزید کہا کہ ساہتیہ اکادمی بچوں کے لیے کئی اہم پروجیکٹوں پر کام کر رہی ہے۔

ساہتیہ اکادمی کے صدر ڈاکٹر چندر شیکھر کمبر نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ بچے توانائی، جوش اور تجسس سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے ماحول کے بیج ہیں جو بڑے درخت بنتے ہیں۔ اس لیے ان کے بچپن کی مناسب دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔

سری پرکاش منو جو کہ ایوارڈ پریزنٹیشن تقریب کے مہمان خصوصی تھے نے اپنے بچپن کے تجربات کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر خدا ہے تو وہ بچوں میں، ان کی مسکراہٹ میں اور ان کی معصومیت میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ بچوں کے لیے لکھنے بیٹھتے ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ اس کی روح پاک ہو گئی ہے۔ بچوں کا ادیب جب ان کے چہرے پر مسکراہٹ لاتا ہے تو وہ وہ کر رہا ہوتا ہے جو خدا نے ادھورا چھوڑ دیا ہے۔

سری مادھو کوشک، نائب صدر، ساہتیہ اکادمی نے اپنے اختتامی کلمات میں تمام ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد دی اور کہا کہ ہندوستان میں بچوں کے لیے لکھنے کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ہم بچوں کا ادب تخلیق کریں تو ہماری تحریر پاکیزہ ہوجاتی ہے۔ بچوں کو ادبی تخلیق کرنا ایک بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر بدلتے ہوئے معاشرے میں اور بچوں کو نئی سمت دینے کے لیے بچوں کے لیے لکھنا چاہیے۔

ساہتیہ اکادمی نے پیر کی شام ایک شاندار تقریب میں سال 2022 کے لیے  بچوں کے ساہتیہ ایوارڈ ز پیش کیے-  تروینی آڈیٹوریم نئی دہلی میں ملک بھر سے آئے ہوئے مختلف ہندوستانی زبانوں میں 23 بچوں کے ادیبوں کے لیے منعقد ہوا۔

ساہتیہ اکادمی کے صدر ڈاکٹر چندر شیکھر کمبر نے اپنی مختصر تقریر میں کہا کہ بچے توانائی، جوش اور تجسس سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے ماحول کے بیج ہیں جو بڑے درخت بنتے ہیں۔ اس لیے ان کے بچپن کی مناسب دیکھ بھال بہت ضروری ہے۔

ایوارڈ حاصل کرنے والوں کے نام ہیں - دیگنتا اوزا (آسامی)، جویا مترا (بنگالی)، دیوبر رامچیاری (بوڈو)، راجیشور سنگھ راجو' (ڈوگری)، ارشیا ستار (انگریزی)، کریت گوسوامی (گجراتی)، کشما شرما (ہندی),

Tammanna Narayana Komar

(Tammanna Beegar)

کنڑ، حمید اللہ وانی (قمر حمید اللہ) (کشمیری) جیوتی کنکولیکر (کونکنی)، بیرندر جھا (میتھلی)، اے سیتومادھاون (سیتھو) (ملیالم)، نورم لوکیشور سنگھ (منی پور)، سنگیتا راجیوی بروے (مراٹھی)، مینا سبا (نیپالی)، نریندر پرساد داس (اوڈیا)، وشوامتر ددھیچ (راجستھانی)، کلدیپ شرما (سنسکرت)، گنیش مرانڈی (سنتالی)، منوہر نہلانی (سندھی)، جی میناکشی (تمل)، پتریپاکا موہن (تیلگو) اور ظفر کمالی (اردو)

ایوارڈ میں 50,000/- کی رقم اور ایک تختی ہے۔