آزاد ہندوستان میں علما کا کردار

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 15-08-2023
آزاد ہندوستان میں علما کا کردار
آزاد ہندوستان میں علما کا کردار

 



سید تالیف حیدر

ہندوستان کی آزادی کو 76 برس گزر چکے ہیں  اور اس دوران ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا ہے ۔ ہندوستان میں کشمیر سے کنیا کماری تک ان 76 برسوں میں عظیم ترین علما ئے کرام اور اہل تصوف پیدا  ہوئے اور انہوں نے  ہندوستان کی نمائندگی اسلامی معاملات میں پوری دنیا میں کی ۔  پھر خواہ وہ مولانا ارشد مدنی ہوں یا محمود مدنی ، مولانا وحید الدین خاں ہوں یا مولانا مفتی ابو بکر ، مولانا رابعہ حسنی ندوی ہوں یا  مولانا اختر رضا خاں ازہری، مولانا کلب صادق ہوں یا  مولاناکلب جواد۔ یہ وہ علما  ئے کرام ہیں جنہیں کروڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی  ہے۔ ان کے علاوہ ہندوستانی خانقاہوں ، دینی مدارس ، عظیم مساجد اور تحقیقی اداروں نے بھی بہت سے نامور علما پیدا کیے ۔

ان تمام علما کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے  کہ ان میں سے زیادہ تر علما  نے ہندوستا  ن میں امن اور صلح کے پیغام  کو عام کیا ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلایا کہ ہندوستان جنت نشان ان کا اپنا ملک ہے ، جس میں رہنے والا ہر شخص ان کا بھائی ہے ۔ مذہبی اختلافات پیدا کرنے سے ہمیشہ روکا اور مسلمانوں کو غیر مسلم بھائیوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی کرنے سے منع فرمایا ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ گزشتہ سات دہاہیوں میں مسلمانوں نے اپنے مسائل پہ ہندوستان میں اس قدر مباحث قائم کیے کہ ان کے آپسی اختلافات بڑھتے چلے گئے ۔ کہیں  رفع الیدین کا مسئلہ بحث طلب رہا  تو کہیں اذان ثانی کا ۔ کچھ مسلمانوں  کے درمیان احادیث کی قبولیت میں اختلافات ہوئے تو کہیں فقہی موشگافیوں نے دوریاں پیدا کیں ۔  ان اختلافی مسائل کو بغور دیکھو تو  آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے فرقوں کو پیدا کرنے وا لے افکار  کا مرکز بھی ہندوستان ہی معلوم ہوتا ہے ۔

اہل حدیث ، بریلوی، جماعت اسلامی، دیو بندی، خانقاہی  اور سلفی ان تمام افکار کو ہندوستان میں جتنا فروغ ملا اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نظر نہیں آتی ۔ بعد کے عہد میں پاکستان میں بھی اس کا رواج عام ہوا ، لیکن ان تمام مسلکی معاملات کی ابتدا ہندوستانی علما کے ذریعے ہی ہوئی ۔ لیکن یہاں ایک بنیادی فرق ہندوستانی علما اور پاکستانی علما میں یہ نظر آتا ہے کہ  ہندوستان کے علما اپنے نظریے کے جتنے بھی قائل ہوں انہوں نے اپنے مخالف نظریے کے عالم سے کسی نوع کا رابطہ منقطع نہیں کیا اور اپنے مسلکی معاملات میں  ہندوستانی علما  ضرورت سے زیادہ شدید کبھی نہیں رہے ۔

اس کے برعکس پاکستان میں مسلکی معاملات کا اختلاف کتنا خطرناک ہے اس کا احساس ہمیں اس بات  سے ہوتا ہے کہ وہاں کا ہر بڑا عالم خواہ وہ کسی بھی  مسلکی فکر سے وابستہ ہو اسے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے  ایک وقت کے بعد پاکستان چھوڑنا پڑتا ہے ۔ اس کی دو بڑی مثالیں جناب جاوید احمد غامدی  اور علامہ طاہر القادری  ہیں ۔

جب کہ ہندوستان کے علما ایک دوسرے سے فروعی معاملات میں اختلاف کرنے کے باوجود کسی نوع کا تشدت برپا نہیں کرتے ۔ مثلاً مولانا وحید الدین خاں سے تمام تر اختلافات کے باوجود ہندوستان کے ہر مدرسے  کے طلبہ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور خانقاہوں کے بڑے بڑے پیر فقیر ان کا نام ادب سے لیتے ہیں ۔ یہ ہی معاملہ شیعہ  اور سنی اختلاف کا  ہے کہ تاریخی اور فقہی معاملات میں  واضح اختلافات ہونے کے  باوجود ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں آئے دن شیعہ ، سنی نماز ایک ساتھ ادا کی جاتی ہے اور مسلمانوں کے بڑے مذہبی جلسوں میں ان دوبڑے فرقوں کے علما ایک ساتھ ایک اسٹیج پہ نظر آتے ہیں ۔اس کے پیچھے سوائے ہندوستانی یکجہتی کی فکر کے کوئی دوسرا عمل کار فرما نہیں ہوتا ۔

یہ بات ہر ہندوستانی کو سب سے پہلے سکھائی جاتی ہے کہ اس کا پڑوسی ایک ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی یا یہودی ہونے سے پہلے ایک ہندوستانی ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں کے علما اپنے مسلکی معاملات میں شدید نہیں ہوتے  ، وہ اپنی فکر کو عزیز تو رکھتے ہیں ، مگر ایک  ایسے ملک کی فضا میں سانس  لینے کے باعث جہاں مذہبی اختلافات کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ،مسلکی اختلاف پہ وہ کیوں کر شدید ہوں گے ۔

آزادی کے 76 برسوں میں ہندوستانی علما کے علمی کارناموں سے پوری دنیا  نے استفادہ کیا ہے ۔ مولاناسید سلیمان ندوی ، مولانا صباح الدین عبدالرحمن ، مولانا مولانا ابولکلام آزاد، مولانا اسلم جیراج پوری اور مولانا عبدالماجد دریا بادی کی کتابیں تو ہندوستان کے ادب اسلامی کے ذخیرے میں  بیش قیمتی ہیں ہی۔ لیکن آزاد ہندوستان میں مولانا ارشد القادری اورمولانا ابوالحسن علی ندوی (علی میاں) کی کتابوں کو عالمی شہرت حاصل ہوئی۔

اس کے علاوہ  خانقاہوں  سے جو ادب شائع ہوا اس نے گزشتہ سات دہائیوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد میں امن  و امان، صلح و محبت ،بھائی چارہ اور برداشت  کے سبق کو فروغ دیا۔ پھر خواہ وہ خانقاہ  کچھوچھہ ہویا ماہرہرہ، خانقاہ رضویہ ہو یا بدایوں ، خانقاہ دہلوی ہو یا اجمیری ہر طرف اسی نوع کی تعلیمات کا دور دورا ہے ۔

آزاد ہندوستان میں مسلمانوں  کے عظیم علما نے جتنا علوم اسلامی کو فروغ پہنچایا اور ہندوستان کی اس سلسلے میں ایک الگ شناخت قائم کی اسی طرح ادب، تہذیب اور ثقافت کے علوم میں بھی نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کیا ۔ وہ خواہ شاعری ہو یا خطاطی، صوفی میوزک ہو یا مجلس مراثی ،ادب و ثقافت کے ہر شعبےکو ان علما کی خدمات سے فروغ نصیب ہوا ہے ۔ ہندوستان کے علما پوری دنیا کے مسلمانوں کے پیش نظر ایک مثال ہیں کہ کس طرح دیگر مذہبی خیالات رکھنے والی اکثریتی  جماعت کے ساتھ امن و شانتی سے رہا جا سکتا ہے ۔ نہ کہ صرف ایک مذہبی شناخت کے ساتھ بلکہ ایک قومی شناخت کے ساتھ۔