لحاف کےکاریگرمحمد نفیس ہیں بین المذاہب اتحاد کی مثال

Story by  اے ٹی وی | Posted by  Shah Imran Hasan | 1 Years ago
 لحاف کےکاریگرمحمد نفیس ہیں بین المذاہب اتحاد کی مثال
لحاف کےکاریگرمحمد نفیس ہیں بین المذاہب اتحاد کی مثال

 

 

ترپتی ناتھ/نئی دہلی

دیوالی کا تہوارلحاف کے کاریگر 30 سالہ محمد نفیس کے لیے خوشیوں کی سوغات لاتا ہےبنا دیتی ہے۔ محمد  نفیس ایک خوش مزاج آدمی ہیں۔ وہ ہر سال دیوالی کے منتظر رہتے ہیں ہیں کیونکہ روشنیوں کا تہوار دہلی کے اندر خوشی کے ساتھ ساتھ سردیوں کی دستک بھی لاتا ہے۔  لحاف اور کشن کے کاروبار کے لیے سال  کا یہ موسم بہت اچھا ہوتا ہے۔

محمد نفیس کو ابھی حبیبی انٹر کالج مرادآباد میں زیر تعلیم تھے کہ بعض دشواریوں کے سبب انہیں اسکول چھوڑنا پڑا۔ محمد نفیس واقعی دیوالی کی آمد اور سردیوں کے آغاز کا خیر مقدم کرتا ہے کیونکہ یہ انہیں اچھے کاروبار کا یقین دلاتا ہے۔ عام طور پر محمد نفیس سوتی کرتہ پاجاما میں ملبوس سر پرسبز ٹوپی کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ محمد نفیس کی تعلیم اگرچہ معمولی سی ہے، تاہم وہ سماج کے اندر پرامن بقائے باہمی کے حامی ہیں اور مذہبی  صف بندی کے تصور سے بہت دور ہیں۔

ان کے پاس نام نہاد مذہبی صف بندی کے لیے وقت نہیں ہے۔وہ اس پر زیادہ غور کرنے کے لئے وقت یا جھکاؤ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے خاندان کے لئے روزی کمانے میں مصروف ہیں۔ وہ مارکیٹ میں اپنی ایمانداری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ میرےخیال سےہرانسان کا یہ نظریہ ہونا چاہئیے کےوہ سماج میں پیار محبت سے رہے۔یہی ہندوستان کی سچی تصویرہے۔ محمد نفیس کا کہنا ہے کہ اس کے مسلم اور غیر مسلم  دونوں گاہک ہیں۔

ان کی دکان دیوالی کے موقع پر کھلی رہتی ہے اور اپنے تمام گاہکوں اور پڑوسیوں کے ساتھ دیوالی کی مبارکباد وصول کرتے ہیں۔ وہ نئی دہلی کے علاقے کے مہی پال پور میں رہتے ہیں۔جب کہ جنوب مغربی دہلی کے وسنت کنج کے قریب ایک گاؤں مسعود پور میں وہ اپنی چھوٹی سی دکان میں لحاف، تکیے اور کشن بیچتے ہیں۔ وہ ایک دہائی سے یہاں منصوری کاٹن اور کولر کی دکان چلا رہے ہیں۔ جب کہ ان کے اہل خانہ گاوں میں چاول اور باجرہ کی کاشت کرتے ہیں۔

 انہوں نے یہ کاروبار دس سال قبل اپنے بڑےبھائی محمدکےانتقال کے بعد سنبھالا تھا۔ اس سے پہلے وہ دکان میں اپنی بھائی کی مسلسل چھ سالوں تک اپنے بھائی کی مدد کرتے رہے تھے۔ ان کی دکان اگرچہ چھوٹی ہے، مگر خوبصورت ہے۔دکان کا فرش سبز پلاسٹک کا ہے۔دکان کے اندر سال بھر فولڈنگ بیڈ، بیڈ شیٹس، گدے، تکیے کے کور اور ڈور میٹس وغیرہ بھی فروخت ہوتے ہیں۔ جب کہ گرمیوں کے مہینوں میں محمد نفیس پلاسٹک کی چیزیں اور کولر فروخت کرتے ہیں۔ دکان میں فروخت ہونے والے کچھ ڈور میٹ مصرکے بنے ہوئے ہیں اور سپلائرز فراہم کرتے ہیں۔ دکان کے دروازے پر ایک سلائی مشین اور سبز میز کے پیچھے، دیوار پر لگے ہک پر لگ بھگ دو درجن رسیدیں لٹکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔

awazthevoice

 یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کیا ہیں؟  محمدنفیس بتاتے ہیں کہ یہ ان کے مدارس کو دیئے گئے عطیات کی رسیدیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ایک مدرسے میں بھی تعلیم حاصل کی ہے اور وہ  محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ مدارس کو چندہ دیں تاکہ وہ مدرسہ کی کچھ مدد کرسکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ ماہ ایران میں 22 سالہ مہسا امینی کی مبینہ طور پر حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ہونے والی موت جیسے مسائل پر رائے سے آگاہ کیا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

بھیڑ بھاڑ والے بازار  میں ان کی دکان منفرد نظر آتی ہیں۔دکان کے سامنے محمد نفیس کے کئی ملازم کام کرتے ہوئے نظر آئے۔  ان کے ملازم لحاف میں روئی بھرنے میں مصروف دکھائی دیے۔  گزشتہ برسوں میں منصوری کاٹن اور کولر کی دکان نے اپنے علاقے میں بہت زیادہ ساکھ حاصل کی ہے۔ بہت سے لوگ اس دکان کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں، جب انہیں سوتی بھرے لحاف کی تلاش ہوتی ہے،جو سردیوں کے آرام کی ضمانت دیتے ہیں۔ ایک ریڈیو براڈکاسٹر سنجیو بڑوا  الکنندا سے گدے اور تکیوں کی تلاش میں ان کی دکان پر آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس دکان کے بارے میں بہت  سنا تھا۔ انہوں نے محمد نفیس کی دکان کے سامان کی قیمت بہت مناسب ہے۔ 

قابل ذکر بات یہ ہے کہ محمد نفیس بھی محمد نورانی کو روزی روٹی فراہم کر رہے ہیں۔محمدنورانی کے علاوہ اتر پردیش کے مراد آباد کے بکی پور گاؤں کا ایک ناخواندہ اور ہم عمر 27 سالہ کارکن شاہنواز بھی ہیں۔ شاہنواز بنجور سے ہیں۔ وہ صرف پانچویں جماعت تک پڑھ پائے کہ انہوں نے اسکول چھوڑ کر روزی روٹی کی طرف بھاگنا پڑا۔ محمدنفیس بتاتے ہیں کہ میں اپنے ملازموں کو 12,000 سے 13,000 روپے ماہانہ تنخواہ دیتا ہوں اور ان کے طبی اخراجات کا بھی خیال رکھتا ہوں۔ میں انہیں چھٹی دینے میں بھی آزاد ہوں۔ ان کی ادائیگی کے بعد میرے پاس ہر ماہ 20,000 سے 25,000 روپے بچ جاتے ہیں۔ اس میں سے میں اپنے اہل خانہ کو ہر ماہ 8,000 سے 10,000 روپے بھیجتا ہوں۔

 وہ یہ سب باتیں اپنے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں۔ وہ اور اس کے دو کارکن گودام میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ موسم سرما سے پہلے کے مہینوں میں کام کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن وہ کام کی مناسب تقسیم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا کام مسلسل جاری رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم روزانہ صبح 8 بجے سے رات کے 10 بجے تک کام کرتے ہیں۔ ہم ایک دن میں 10 سے 12 لحاف میں روئی بھر لیتے ہیں۔ وہیں کچھ لوگ اپنے لحاف ٹھیک کروانے بھی آتے ہیں۔

 یہاں کا کرایہ بہت زیادہ ہے اور ہمیں روزی روٹی کے لیے یہ سب کام کرنا پڑتا ہے۔ سرمئی رنگ کی ٹوپی پہننے والے نورانی کا کہنا ہے کہ ان کا ایک نو سالہ بیٹا اور چار سالہ بیٹی ہے اور وہ انہیں مکمل تعلیم دلانے کے لیے پرعزم ہیں۔ان کارکنوں سے ملنا واقعی متاثر کن ہے کیونکہ یہ نہ صرف باصلاحیت ہیں بلکہ مشکل حالات میں روزی کمانے کے لیے پرعزم بھی ہیں۔ دہلی میں ایسے بہت سے ہنر مند کاریگر ہیں جو محنت اور ایمانداری سے روزی کماتے ہیں۔