اویسی خاندان : حیدرآباد کی شان

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 01-12-2021
اویسی خاندان : حیدرآباد کی شان
اویسی خاندان : حیدرآباد کی شان

 

 

آواز دی وائس کی خاص پیشکش

ہندوستان میں اویسی خاندان محتاج تعارف نہیں ہے' خاندان اویسی کا شہر حیدرآباد کے بڑے اور وضعدار خاندانوں میں شمار ہوتا ہے۔ ماہر قانون اور حیدرآباد میں ’ فخر ملت ‘کہلانے والے مولوی عبدالواحد اویسی اور ان کے صاحبزادے الحاج سلطان صلاح الدین اویسی سینئر پارلیمنٹرین و سابق صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی ملی' رفاہی' فلاحی' معاشی ' سیاسی اور سماجی خدمات کو ملک و قوم نے ہمیشہ سلام کیا ہے۔اویسی خاندان 60 برسوں سے سیاسی جماعت کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے۔کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کا ہیڈ کوارٹر دارالسلام کہلاتا ہے۔جو آغاپورہ حیدرآباد میں واقع ہے۔جہاں روزآنہ بلا لحاظ مذہب و ملت سینکڑوں افراد اپنے مسائل کے حل کے لئے رخ کرتے ہیں۔حیدرآباد والوں کیلئے اویسی خاندان کی خدمات مثالی ہیں جس کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مولوی عبدالواحد اویسی نے دکن کے مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا کیا جبکہ سلطان صلاح الدین نے مسلمانوں کو ایک مرکزسیاسی کے پرچم تلے جمع کیا۔

مولوی عبدالواحد اویسی اور سلطان الدین اویسی کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی ہے۔اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے انہوں نے کئی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔

اب اس مشن کو’ سلطان صلاح الدین اویسی ‘ کے تین ہونہار فرزندان آگے لے جارہے ہیں ۔ جن میں ایک ’نقیب ملت‘کہلانے والے بیرسٹر اسد الدین اویسی ہیں جو کہ صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمان حیدرآباد ہیں ۔ ان کے بعد اکبر الدین اویسی ہیں ،جو کہ مجلس تلنگانہ اسمبلی ہیں ۔ جبکہ تیسرے بیٹے برہان الدین اویسی ہیں ۔جو کہ ایڈیٹر انچیف اردو روزنامہ اعتماد ہیں۔ وہ بہت ہی سلیقے کے ساتھ اخبار کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔

بیرسٹر اسد الدین اویسی بے باک' عوامی قائد کے طورپر سارے ملک میں شہرت رکھتے ہیں۔ ان کی قیادت میں مجلس اتحاد المسلمین کی سیاسی طاقت اور مقبولیت میں روز بہ روز زبردست اضافہ ہورہا ہے۔مہاراشٹرا اور بہار کی اسمبلیوں میں مجلس کے نمائندے موجود ہیں۔ جبکہ حلقہ لوک سبھا اورنگ آباد سے مجلسی لیڈر امتیاز جلیل نمائندگی کرتے ہیں۔تلنگانہ اسمبلی میں مجلس کے 7 اراکین اسمبلی ہیں جبکہ قانون ساز کونسل میں مجلس کے دو ارکان ہیں۔

’فخر ملت‘ مولوی عبدالواحد اویسی

مولوی عبدالواحد اویسی با حوصلہ اور با ہمت شخصیت کے مالک تھے۔وہ ماہر قانون تھے اور جامعہ نظامیہ سے فارغ التحصیل رہنے کے باعث اسلامی تعلیمات پر بھی عبور رکھتے تھے۔

انہوں نے سال 1958میں انتہائی نازک اور صبر آزما دور میں مجلس اتحاد المسلمین کی تشکیل کی تھی ۔تقسیم ملک اور سقوط حیدرآباد کے بعد مسلمانوں کی حالت انتہائی ابتر اور ناگفتہ بہ تھی ۔ مسلمان خوف اور احساس کمتری کا شکار ہوگئے تھے۔ایسے حالات میں عوام کو مایوسی سے باہر لانے کا سہرا مولوی عبدالواحد اویسی کے سرجاتا ہے۔انہوں نے اپنی تقاریر کے ذریعہ مسلمانوں میں عزم و حوصلہ پیدا کیا۔مسلمانان دکن کی سیاسی قوت مولوی عبدالواحد اویسی کی مرہون منت ہے۔مولوی عبدالواحد اویسی کی تقاریر سے قوم کو جوش و خروش اور عزم وحوصلہ حاصل ہوتا۔حالات سے مایوس ' مصائب و مشکلات سے دوچار' ملت کے پاس امید کے سواء کچھ نہیں تھا۔

سب کچھ ختم ہوچکا تھا ایسے پریشان کن اور مشکل وقت میں انہوں نے قیادت کی باگ ڈور سنبھالی گویا یہ کانٹوں بھرا تاج تھا۔ مولوی عبدالواحد اویسی نے بلا خوف و خطر ملت کو متحد و متفق ہونے کی دعوت دی۔ ملت کو مایوسی سے باہر نکالنا اور انہیں متحد کرنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں تھا۔

جس کے دوران انہیں مختلف سازشوں' مخالفتوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑالیکن آپ نے کبھی بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ بلکہ ہمت اور حوصلہ کے ساتھ شب و روز محنت جاری رکھی۔آپ نے 11ماہ سلاخوں کے پیچھے گزارے۔مگر ان کے عزم و حوصلہ میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی۔

awazurdu

مولوی عبدالواحد اویسی اور الحاج سلطان صلاح الدین اویسی 


قانونی جنگ اور دارالسلام کی واپسی

قانونی جنگ کے ذریعہ ’دارالسلام‘ کا حصول مولوی عبدالواحد اویسی کا کارنامہ ہے۔ دراصل 1969میں علحدہ تلنگانہ کی تحریک بام عروج پر تھی۔ دارالسلام جو مجلس کا صدر دفتر تھا حکومت کی تحویل میں تھا اس سلسلہ میں ایک مقدمہ سٹی سیول کورٹ میں جاری تھا۔ اس مقدمہ کی پیروی خود انہوں نے کی۔ طویل قانونی لڑائی کے بعد دارالسلام کا فیصلہ مجلس کے حق میں ہوا۔

ایک عظیم لیڈر کا انتقال

 جب مولوی عبدالواحد اویسی 1975 میں سفر حج کیلئے تمام تر تیاریاں کرلی تھیں ۔ عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے ملاقات اور گلپوشی بھی ہوگئی تھی۔ اپنی رہائش گاہ واقع حمایت نگر سے روانہ ہی ہوئے تھے دل کا دورہ پڑا اور حج کو روانگی سے قبل ہی اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ دوسرے دن میت دارالسلام کو عوامی دیدار کیلئے لائی گئی۔ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کے جسد خاکی کو نم آنکھوں حضرت آغا ابودائود صاحب قبلہ کی درگاہ کے احاطہ میں سپرخاک کردیا گیا۔

سالار ملت‘ سلطان صلاح الدین اویسی 

مولوی عبدالواحد اویسی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے الحاج سلطان صلاح الدین اویسی نے مجلس اتحاد المسلمین کی صدارت کی ذمہ داری سنبھالی۔ والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے قوم و ملت کی بے مثال خدمت انجام دی۔ سلطان صلاح الدین اویسی نے مجلس کو کارپوریشن سے اسمبلی اور ملک کی پارلیمنٹ تک پہنچایا۔ سلطان صلاح الدین اویسی کی تقریباً 60 برسوں پر مشتمل سیاسی اورعوامی زندگی تاریخ سازرہی۔سلطان صلاح الدین اویسی کا ہندوستان کے قد آور سیاست دانوں میں شمار ہوتا تھا۔شہر حیدرآباد میں تعلیمی انقلاب کے نقیب کے طورپر آپ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اس کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔دکن میڈیکل کالج اور بڑے پیمانہ پر تعلیمی اداروں کا قیام سلطان صلاح الدین اویسی کے عظیم کارنامے ہیں۔

 اتحاد و اتفاق کے نقیب

الحا ج سلطان صلاح الدین اویسی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ہمیشہ قوم و ملت میں اتحاد و اتفاق کیلئے فکر مند رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ اضلاع میں بھی بڑے پیمانے پر مجلس کی شاخیں قائم کی گئیں۔وہ ایک پرعزم اور حوصلہ مند قائد تھے۔ان کا انداز بیان سحر آفریں تھا۔ حیدرآبادی کہتے ہیں کہ وہ سروں پر نہیں بلکہ عوام کے دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کو’سالار ملت‘ کے لقب سے نوازا۔

ان کے جلسوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔انہوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت انسانیت کی خدمت کی۔ان کو تمام طبقات کو ساتھ لیکر آگے بڑھنے پر یقین تھا۔ انہوں نے میئر حیدرآباد کی باوقار نشست پر پرکاش رائو 'ستیہ نارائنا ' عالم پلی پوچیا کو فائز کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے عوام کی امیدوں اور خوابوں کی ترجمانی کی۔اسمبلی سے پارلیمنٹ تک تعلیمی ' سماجی' معاشی اور سیاسی مسائل کی بھر پور نمائندگی کی۔وہ مقبول عوامی قائد تھے۔

awazurdu

اویسی خاندان حیدرآباد کی سیاسی اور سماجی پہچان


تعلیمی اور طبی اداروں کا قیام

سلطان صلاح الدین اویسی مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ ساتھ انہیں زیور تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے خواہاں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے منظم اور منصوبہ بند حکمت عملی کے ساتھ کام کیا اور شہر حیدرآباد میں بڑے پیمانہ پر تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا۔ دکن میڈیکل کالج ' دکن انجینئرنگ کالج' دکن فارمیسی کالج ' نرسنگ کالج' ایم سی اے' ایم بی اے کالج و دیگر تعلیمی اداروں کی عظیم الشان عمارتیں ان کی عظیم تعلیمی خدمات کی گواہ ہیں ۔

مذکورہ بالا کالجس سے آج ہزاروں طلبہ استفادہ کررہے ہیں۔طبی میدان میں بھی سلطان صلاح الدین اویسی کی خدمات گراں قدر رہیں۔دارالسلام ایجوکیشنل ٹرسٹ کے تحت کارکرد مشہور و معروف اویسی گروپ آف ہاسپٹلس تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اویسی ہاسپٹل اینڈ ریسرچ سنٹر کنچن باغ ' سنتوش نگر حیدرآباد اور پرنسس اسریٰ ہاسپٹل شاہ علی بنڈہ' طبی میدان میں انقلاب کے نقیب ہیں۔اویسی ہاسپٹل کا ایشیاء کے بڑے دواخانوں میں شمار ہوتا ہے۔

سیاسی زندگی

سلطان صلاح الدین اویسی کی سیاسی زندگی کافی طویل ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے بلدیہ کیلئے منتخب ہوئے۔بعدازاں وہ پانچ مرتبہ ریاستی اسمبلی کیلئے کامیاب ہوئے۔سلطان صلاح الدین اویسی 1984میں پہلی مرتبہ لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے اور متواتر 1999 تک کامیاب ہوتے رہے۔

وہ لگاتار 6 مرتبہ حلقہ لوک سبھا حیدرآباد سے نمائندگی کی وہ لوک سبھا میں عوام کے مسائل کی بھر پور ترجمانی کرتے ۔

انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کے دوران کئی قد آور سیاسی قائدین کو انتخابات میں شکست فاش دی۔ وہ محبوب اور عوام کے ہردلعزیز قائد تھے۔عوام کو ان سے بے پناہ محبت تھی۔

awazurdu

اسد الدین اویسی اپنے والد  الحاج سلطان صلاح الدین اویسی کے ساتھ


سلطان صلاح الدین اویسی کا انتقال

سلطان صلاح الدین اویسی 77 برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس طرح ہندوستان کے سیاسی افق پر گزشتہ 60برسوں سے پورے آب و تاب کے ساتھ روشن و تابناک آفتاب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے 29 رمضان المبارک 2008کو غروب ہوگیا۔جبکہ 30 رمضان المبارک کو دارالسلام کے وسیع و عریض میدان میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جس میں سرکردہ سیاسی ' سماجی' مذہبی قائدین کے علاوہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کے جسد خاکی کو نم آنکھوں سے آغا پورہ کی درگاہ حضرت ابوالعلائی کے احاطہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ سلطان صلاح الدین اویسی کے کارنامے ناقابل فراموش ہیں ۔ وہ آج ہمارے درمیان میں نہیں ہیں تاہم ان کا نام اور کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

نقیب ملت‘ بیرسٹر اسد الدین اویسی

بیرسٹر اسدالدین اویسی سال 1969میں حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ان کی ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں ہوئی۔ بعدازاں وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے برطانیہ روانہ ہوئے۔جہاں وہ بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی کی شادی سال 1996میں ہوئی۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا 11سالہ ماسٹر صلاح الدین اویسی ہے۔ بیرسٹر اسد الدین اویسی کی بڑی بیٹی کی شادی نواب احمد عالم خان کے فرزند نواب برکت عالم خان کے ساتھ انجام پائی۔جبکہ دوسری لڑکی کی شادی ڈاکٹر مظہر الدین علی خان کے فرزند ڈاکٹر عابد علی خان کے ساتھ ہوئی۔

والد سلطان صلاح الدین اویسی کے انتقال کے بعد بیرسٹر اسدالدین اویسی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

اسد الدین اویسی نے 1994سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا وہ پہلی مرتبہ حلقہ اسمبلی چارمینار سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ دوبارہ اسی حلقہ سے 1999 میں بھی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔سال 2004 میں بیرسٹر اویسی نے حلقہ لوک سبھا حیدرآباد سے مقابلہ کیا اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ تب سے آج تک وہ حلقہ لوک سبھا حیدرآباد سے نمائندگی کررہے ہیں۔

بیرسٹر اویسی نے اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بناء پر ہندوستان کے سیاسی افق پر مسلمانوں کے قومی لیڈر کی حیثیت سے اپنی منفرد شناخت بنائی ہے۔بیرسٹر اویسی ' دلت ۔مسلم اتحاد کیلئے سرگرم رہے ہیں۔ملک میں جہاں کہیں ظلم ہوتا ہے وہ سب سے پہلے مظلوم کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں۔

سلطان صلاح الدین اویسی کے نقش قدم پر

بیرسٹر اسد الدین اویسی بلاشبہ اپنے والد سلطان صلاح الدین اویسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کیلئے خود کو وقف کرچکے ہیں۔ بیرسٹر اویسی کی صدارت میں مجلس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ اسد اویسی نے مجلس کی سرگرمیوں کو ملک کی دیگر ریاستوں تک وسعت دی۔ مہاراشٹرا اوربہار کی اسمبلی میں مجلس کے نمائندوں کی موجودگی بیرسٹر اویسی کی محنت اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

 ایوان لوک سبھا ہو یا قومی چینلس پر مباحثے بیرسٹر اسد اویسی کے الفاظ ان کے نظریات اور سیاست کی  ترجمانی کرتے ہیں۔

awazurdu

 اکبر الدین اویسی

یرسٹر اسد الدین اویسی کے چھوٹے بھائی اکبر الدین اویسی ہیں ۔ مگر وہ اپنے بیانات کے سبب سرخیوں میں رہے ہیں۔اکبر اویسی کی سیاسی زندگی کا آغاز سال 1999سے ہوا۔اکبر اویسی نے پہلی مرتبہ حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ سے مقابلہ کیا اور شاندار کامیابی حاصل کی۔

تب سے لیکر آج تک وہ حلقہ اسمبلی چندرائن گٹہ سے نمائندگی کررہے ہیں۔اکبر اویسی تلنگانہ اسمبلی میں قائد اپوزیشن ہیں اور عوامی مسائل کی یکسوئی کا ایک شاندار ریکارڈ رکھتے ہیں۔۔

 انسانی خدمات اور امدادی سرگرمیاں

اکبر الدین اویسی سیلاب ہو یا کوئی اور آفت' کورونا کا بحران ہویا فسادات وہ مظلومین کی مدد کیلئے فی الفور پہنچ جاتے ہیں۔ اکبر الدین اویسی ضرورتمندوں کی مدد کیلئے مسیحا کا کام کرتے ہیں۔کورونا لاک ڈاون کے دوران مستحق اور ضرورت مند افراد میں کروڑ ہا روپے مالیتی اجناس کی تقسیم عمل میں لائی۔

علاوہ ازیں اکبر اویسی نے حیدرآباد کے سیلاب متاثرین کی بھی دل کھول کر مدد کی۔لاک ڈاون سے پریشان حال ٹیچرس ہویا ویڈیو گرافرس تمام ضرورت مندوں کی بلا لحاظ مذہب و ملت مدد کی۔ اکبر الدین اویسی کی جانب سے شہر حیدرآباد کے مختلف مقامات پر اویسی اسکولس آف ایکسلنس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ اسکولس کی وسیع و عریض او ربلند و بالا شاندار عمارتیں ہیں۔جہاں کارپوریٹ طرز کی تعلیم غریب طلبہ کو مفت فراہم کی جاتی ہے۔ اسکولس پر کروڑ رہا روپے صرف کئے گئے ہیں۔

اویسی اسکولس آف ایکسلنس میں زائد از 20 ہزار طلبہ مفت معیاری تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں طلباء و طالبات کیلئے مختلف فنی کورسس کی بھی مفت تربیت کا بھی نظم ہے۔ اکبر الدین اویسی نے طلباء و طالبات کو علم و ہنر کے زیور سے آراستہ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور شب و روز خدمات کی انجام دہی کا بہترین ریکارڈ رکھتے ہیں۔

 اکبر الدین اویسی کے فرزند نور الدین اویسی ڈاکٹر ہیں ۔جبکہ ان کی دختر برطانیہ میں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ حیدرآباد میں اویسی خاندان کو سیاسی اور سماجی سطح پر جو مقام حاصل ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے۔ اب اسد الدین اویسی نے جس اندازمیں قومی سیاست میں اپنی پہچان بنائی ہے اور لوہا منوایا ہے اس نے ان کے مخالفوں کو بھی ان کی قابلیت اور اہلیت کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا ہے۔