مولانا ندوی: گللک کے سہارے بچوں میں پیدا کیا کتابوں کا شوق

Story by  منصورالدین فریدی | Posted by  [email protected] | Date 05-02-2022
مولانا ندوی: گللک کے سہارے بچوں میں پیدا کیا کتابوں کا شوق
مولانا ندوی: گللک کے سہارے بچوں میں پیدا کیا کتابوں کا شوق

 

 

 شاہ تاج خان/ پونے

آج کا دور گیجٹس کے نام  ہوگیا ہے،سب کچھ انگلیوں کے اشارے  پر آچکا ہے،گردن جھکی ہے تو صرف موبائل اور ٹیب پر یا پھر لیب ٹاپ پر۔کیا سوتے ہوئے اور کیا جاگتے ہوئے۔ بس زندگی موبائل تک محدود ہوگئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ٹکنالوجی فائدہ مند ہوتی ہے لیکن اگر اس کے نام پر عادتیں بدل جائیں تو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اب یہی ہورہا ہے۔ خاص طور پر کتاب بینی اب ’نادر‘ ہوگئی ہے۔ کسی کے ہاتھ میں کتاب نظر آجائے تو لوگ اس کو حیرت سے دیکھتے ہیں ۔اس عادت کو زندہ رکھنے پر تو ہر کوئی زور دیتا ہے لیکن عملی طور پر کوئی کچھ کرتا نظرت نہیں آتا ہے۔ لیکن مہاراشٹر کے اورنگ آباد کے مولانا مرزاعبدالقیوم ندوی نے بچوں میں کتابوں سے دلچسپی پیدا کرنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ اپنا رہے ہیں ۔ ان دنوں وہ اسکول کے بچوں میں 'گلک' تقسیم کررہے ہیں۔ اس کا دو مقصد ہیں۔ بچوں میں بچت کا شوق ہو اور اس کے علاوہ بچے ان پیسوں سے اپنی پسند کی کتابیں خرید سکیں۔

جب مرزا عبدالقیوم ندوی اسکولوں میں بچوں کو  گللک دیتے ہیں تو بچے اسے تحفہ کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ یہ چھوٹا گللک بچوں کے چہرے پر خوشی لاتا ہے۔ تاہم یہ گللک بچوں کو اپنے ساتھ لمبا فاصلہ طے کرنے کے لیے تیار کرتا ہے۔ بچے ایک ماہ تک اس گلک میں پیسے جمع کرتے ہیں اور پھر جب ندوی صاحب کتابیں لے کر اسکول پہنچتے ہیں تو بچے اپنے گللک کے پیسوں سے اپنی پسند کی کتابیں خریدتے ہیں۔

ندوی صاحب گللک سے  نہ صرف بچوں کو بچت کی اہمیت کو سمجھاتے ہیں بلکہ انہیں اپنے پیسوں سے خریدی گئی کتاب کا تجربہ بھی کراتے ہیں ۔اپنے پیسوں سے کتابیں خرید کر بچوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔

کتاب والے مولانا

ندوی صاحب اب تک 37000 سے زیادہ گللک بچوں میں تقسیم کر چکے ہیں۔ ندوی صاحب بتاتے ہیں کہ ان گللکوں میں بچے 100 سے 200 روپے ماہانہ جمع کرتے ہیں۔ ایک مہینے کے بعد جب میں کتابیں لے کر اسکول پہنچتا ہوں تو بچے بیتابی سے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ میں کتابوں کی اہمیت سمجھاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اسکول کی کتابوں کے علاوہ بھی دیگر کتابیں پڑھیں۔

awazthevoice

مرزا عبدالقیوم ندوی اپنی بک شاپ میں

مرزا عبدالقیوم ندوی کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ ان سے کہتا ہوں کہ کتابیں خریدیں اور پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ ایک بار وضاحت کرنے کے بعد، میں اگلے اسکول اور بچوں کی تلاش میں آگے بڑھتا ہوں۔ ندوی صاحب مزید بتاتے ہیں کہ اگر کوئی بچہ یا اسکول کسی قسم کی مدد مانگتا ہے تو میں فوراً ان کی مدد کے لیے پہنچ جاتا ہوں۔

مرزا ورلڈ بک ہاؤس

سنہ 2006 میں ندوی صاحب نے کتاب فروخت کرنے کا کام گھر سے شروع کیا تھا۔ اس سے پہلے وہ سائیکل پر گلی گلی گھوم کر کتابیں بیچا کرتے تھے۔ کبھی مسجد کے باہر، کبھی درخت کے نیچے چادر بچھا کر اور کبھی اسکول کے باہر کتابوں کے لیے قارئین تلاش کرنا ان کی زندگی کا مقصد بن گیا تھا۔

ہر وقت تیار

لوگ کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس کتابیں خریدنے کا وقت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی پسند کی کتابوں کا بھی علم نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب بھی میں لوگوں کے پاس ان کی پسندیدہ کتابیں لے کر جاتا ہوں، وہ ساری کتابیں خرید لیتے ہیں۔ میں لوگوں سے ملتا رہتا ہوں اور ان کی پسند و ناپسند کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگ اچھی کتابیں پڑھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اب میں نے بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کرنے پر توجہ دی ہے۔ بچے بڑوں سے زیادہ کتابیں پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔

awazthevoice

مرزا عبدالقیوم ندوی تقریر کرتے ہوئے

طویل سفر کے لیے شروعات 

جب ندوی صاحب نے بچوں کی کتابوں سے دوستی کرنے کا راستہ تلاش کیا، شروع میں انھیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ کئی اسکولوں نے انہیں اسکول کے اندر آنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ انہیں جہاں بھی بولنے کا موقع ملا وہ کتابوں کی اہمیت بیان کرتے رہے۔

 آہستہ آہستہ لوگ ندوی صاحب کی بات کو سمجھنے لگے۔ اب اسکول انہیں دعوت نامے کے ذریعے مدعو کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اسکول کا انتظار نہیں کرتے لیکن اگلے ہی دن گلک یا پگی بینک لے کراسکول پہنچ جاتے ہیں ۔

مرزا عبدالقیوم ندوی اور ہم بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک طویل مگر ضروری سفر کی شروعات ہے، جس پرخاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔