کشمیر:سحر خوانی کی دم توڑتی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش

Story by  ایم فریدی | Posted by  [email protected] | Date 13-04-2022
کشمیر:سحر خوانی کی دم توڑتی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش
کشمیر:سحر خوانی کی دم توڑتی روایت کو زندہ رکھنے کی کوشش

 

 

آواز دی وائس، سری نگر

عصر حاضر میں جدید ترین ٹیکنالوجی جیسے موبائل فون، لائوڈ اسپیکر، ڈیجیٹل الارم وغیرہ جیسی سہولیات کے باوجود بھی وادی کشمیر میں لوگوں کو ماہ رمضان میں سحری کے لئے ڈھول بجا کر اٹھایا جاتا ہے۔

یہاں ڈھول بجانے کی روایت نہ صرف برابر برقرار ہے بلکہ مذکورہ تمام ترسہولیات سے بہر ور ہونے کے باوجود بھی مسجد کمیٹیاں یا محلہ کمیٹیاں 'سحر خوانوں' کا بندوبست کرتی ہیں وادی کے شہر و دیہات میں ماہ رمضان کے دوران سحری کے وقت لوگوں کو جگانے کے لئے ڈھول بجایا جاتا ہے۔

اور ڈھول بجانے والے کو 'سحر خوان' کہا جاتا ہے جو رات کے سناٹے اور گھپ اندھیرے میں جان بکف اپنے مقررہ علاقے میں گلی گلی گھومتے ہوئے ڈھول بجا کر اور 'وقت سحر' کی آوازیں دے کر لوگوں کو جگاتا ہے۔

سرحدی ضلع کپوارہ کے کلاروس علاقے سے تعلق رکھنے والا 23 سالہ محمد شکور شہر سری نگر کے نور باغ، صفا کدل و ملحقہ علاقوں کے لوگوں کے لئے سحری کے وقت ڈھول بجا کر جگانے کی خدمت گذشتہ چھ برسوں سے مسلسل انجام دے رہا ہے۔

موصوف سحر خوان نے کہا کہ میں گذشتہ چھ برسوں سے یہاں یہ کام انجام دے رہا ہوں اور مذکورہ علاقوں کی گلی کوچوں میں جا کر لوگوں کو سحری کے لئے بیدار کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا: ’میرے ساتھ میرا دوسرا ساتھی راجا امتیاز بھی ہوتا ہے جس کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہوتا ہے تاکہ وہ سڑکوں پر موجود آوارہ کتوں کے حملوں سے بچانے میں کام آئے‘۔

ان کا کہنا تھا: ’قبل ازیں میں ایک بجے رات کو ہی نکتا تھا اور لوگوں کو اٹھاتا تھا لیکن امسال چونکہ ماہ رمضان ماہ اپریل میں آیا جس کی وجہ سے وقت بدل گیا اور میں اب تین بجے رات کو نکل کر لوگوں کو سحری کے لئے اٹھاتا ہوں‘۔

محمد مشکور نے کہا کہ میں یہ کام صرف ثواب حاصل کرنے کے مقصد سے ہی انجام دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا: ’لیکن لوگ ہدیہ بھی دیتے ہیں جس کا میں کوئی مطالبہ نہیں کرتا ہوں وہ اپنی خوشی سے دیتے ہیں اور اس ہدیے سے میری گھریلو ضروریات پوری ہوجاتی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا: 'لوگ مجھے دیکھ کرخوش ہوجاتے ہیں اور میری عزت بھی کرتے ہیں'۔ موصوف سحر خوان نے کہا کہ یہ کام انجام دینے سے مجھے کافی سکون ملتا ہے اور میں خود بھی وقت پر عبادات انجام دے پا رہا ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سال کے باقی گیارہ ماہ گھریلو کام کرتا ہوں لیکن میں نے یہ ایک ماہ اسی کار ثواب کی انجام دہی کے لئے مخصوص رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میرا بڑا بھائی یہ کام کرتا تھا اور میں اس کے ساتھ آیا کرتا تھا اور اب میں خود یہ کام کرتا ہوں۔ دریں اثنا محمد اشرف نامی ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں سحر خوان کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے اور وہ ان پر الارم رکھ کر آسانی سے سحری کے وقت اٹھ سکتے ہیں۔ تاہم وادی کے بزرگ لوگوں کا کہنا ہے کہ سحر خوان کا سحری کے وقت لوگوں کو اٹھانا اب ہماری شاندار ثقافت کا ایک حصہ بن گیا ہے جو ہر حال میں جاری رہنا چاہئے۔

خورشید احمد نامی ایک شہری نے کہا کہ سحر خوانوں کی طرف سے ڈھول بجا کر جگانے میں کچھ الگ ہی لطف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ روایت اب ہمارے معاشرے کا ایک حصہ بن گئی ہے جس کو برقرار رکھا جانا چاہئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سحر کے وقت ڈھول بجنے کی آواز سنتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا سحری کے متبرک ترین وقت پر بیدار ہو رہی ہے۔

موصوف شہری نے کہا کہ اس سے میری بچپن کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں اور آج بھی بچے سحری کے وقت ڈھول کی آوازیں سن کر خوش بھی ہوجاتے ہیں اور تر تازہ بھی ہوجاتے ہیں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب یہ روایت دم توڑ رہی ہے ،لوگ موبائل کے الارم کے عادی ہوگئے ہیں ۔ مگر شہرکے لوگ کہتے ہیں کہ اْنہیں ایسے بزرگ سحرخوانوں کی ماہ صیام کے آتے ہی یادآتی ہے جواب ڈھول نہیں بجاتے۔انہوں نے کہاکہ بیشترایسے سحرخوان شہرکے مختلف علاقوں میں قائم مساجدمیں بطورحمام فرائض انجام دیتے رہتے ہیں جبکہ ایسے درجنوں نوجوان بھی سحرکے وقت ڈھول بجانے نکل جاتے ہیں جوشہرمیں بغرض محنت مزدوری مقیم ہیں۔

کچھ ایسے نوجوان سحرخوانوں کاکہناہے کہ و ہ سحرخوانی صرف کچھ روپے کمانے کیلئے نہیں کرتے ہیں بلکہ اْنھیں یہ کارخیرانجام دینے سے قلبی سکون ملتاہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اْس کالونی یابستی کے لوگ عیدالفطرکی آمدسے کچھ روزقبل ہی محنتانہ اداکرتے ہیں اورلوگ ہماری حوصلہ افزائی کرنے کیساتھ ساتھ ہماراشکریہ بھی اداکیاکرتے ہیں۔

سحرخوانوں کی تعدادمیں کمی آنے یااس روایت کے دم توڑجانے کے بارے میں عام لوگوں اورسحرخوانوں کاکہناہے کہ  ایک وقت صورتحال بگڑجانے کے بعدسحرخوان ڈھول لیکرسڑکوں گلی کوچوں میں نکلنے سے ڈرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ سحرخوانی یاسحرخوانوں کی روایت وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ایک قصہ پارینہ بن رہی ہے۔کئی سحرخوانوں نے بتایاکہ اس جدید دور میں سحرخوانی کی کوئی مطابقت نہیں ہے،لیکن لوگ چاہتے ہیں کہ یہ روایت یوں ہی برقرار رہے۔

سحرخوانوں نے بتایاکہ لوگ نیند سے بیدار ہونے کیلئے اپنے موبائیل فونوں میں الارم بھی سیٹ کرسکتے ہیں۔ لیکن وہ ٹیکنالوجی پر سحرخوانی کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔سحرخوان مانتے ہیں کہ ہم روایتی سحرخوانی کے حامیوں کے لئے الارم کا کام کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ لوگوں میں سحرخوانوں کے تئیں عزت و احترام میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر گذرتے سال کے ساتھ سحرخوانوں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔

awazurdu