ہندوستان میں غزوہ ہند کا پروپیگنڈہ‎

Story by  اے ٹی وی | Posted by  [email protected] | Date 29-08-2023
 ہندوستان میں غزوہ ہند کا پروپیگنڈہ‎
ہندوستان میں غزوہ ہند کا پروپیگنڈہ‎

 



ڈاکٹر حفیظ الرحمن

کنوینر،خسرو فاؤنڈیشن
غزوہ ہند کیا ہے؟
غزوہ ہند سے مراد پاکستان کی جہادی تنظیموں  کی نظر میں ہندوستان پرحتمی فتح  حاصل کرنا ہے۔ اس سے اس خیال کی تشہیر ہوتی ہے کہ بعض احادیث میں ایک پیشن گوئی موجود ہے جس کی رُوسے  ایک اسلامی لشکر برصغیرہند و پاک پر حملہ کرکے  اسے فتح کرے گا۔پاکستانی انتہا پسند تنظیم لشکر طیبہ نے غزوہ ہند کی ‘‘پیشن گوئی’’ کی  غلط تعبیر کرتے ہوئے اسے ایک ایسے منظر نامے کے طور پر پیش کیا ہے جہاں مسلم افواج  ہندوستان پر غلبہ حاصل کرلیں گی اور ہندوستان کو  ایک  اسلامی ریاست  میں تبدیل کردیں گی جو سراسر جھوٹا پروپیگنڈا اور بنیادی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے ۔
 ‎ درحقیقت غزوہ ہند والی حدیث بہت ضعیف ہے جس کو صحاح ستہ میں سے صرف سنن نسائی اور اس کے علاوہ مسند احمد ابن حنبل میں ذکر کیا گیا ہے جبکہ صحاح ستہ کی دیگر پانچ کتابوں صحیح بخاری ،صحیح مسلم،سنن  ابو داؤد، سنن ابن ماجہ، جامع ترمذی میں غزوہ ہند والی حدیث کا  کوئی  ذکر موجود نہیں۔  اور نہ ہی اس حوالہ سے قرآن کی کوئی آیت موجود ہے۔دراصل غزوہ ہند کا پروپیگنڈا بعض  غیر مستند احادیث کی غلط تشریحات پر منحصر ہے جس کا معتبر اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ماضی میں بھی  وقتاً فوقتاًغزوہ ہند کو ایک جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے اس کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جاتی رہی ہے۔
 
غزوہ ہند کا نظریہ پاکستان اور کشمیر کے اندر بعض انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے پھیلایا جانے والا ایک مہلک زہر ہے جس کی زد میں آکر کچھ کشمیری نوجوان بھی راہِ راست سے بھٹک گئے ہیں ۔ اس  خطرناک نظریہ کے حامل پاکستان میں حزب المجاہدین، لشکر طیبہ، جیش محمد، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد الاسلامی، حرکت الانصار،جمعیۃ الدعوہ،البدر افغان طالبان وغیرہ ہیں ۔جب کہ خود افغان طالبان بھی اس سے انکار کرتے ہیں۔ 
آئیے جائزہ لیتے ہیں ان احادیث کا جن کو غزوہ ہند کے سلسلہ میں پیش  کیا جاتا ہے۔
جمہور محدثین نے اس  سلسلہ کی صرف دو احادیث کا ذکر کیا ہے۔ ایک حضرت ابوہریرہؓ سے  تین طرق سے مروی ہے اور اس کے تمام طرق ضعیف ہیں جبکہ دوسری حدیث حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے جس کو بعض محدثین نے صحیح تو بعض نے حسن قراردیا  ہے۔ لیکن وہ اس کی تشریح بیان کرتے ہوئے واضح کرتے ہیں کہ یہاں ‘‘غزوہ’’ سے مراد  کوئی جہاد یا  جنگ نہیں ہے بلکہ یہ مسلم تاجروں اور صوفیاءکی پہلی صدی ہجری میں ہندوستان میں وہ پُرامن آمد ہے جو گجرات، سندھ یاکیرالہ وغیرہ کے علاقوں میں حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ہوئی - انہوں نے اپنے اخلاق و کردار سے یہاں کے باشندوں کو متاثر کیا ۔ جب کہ اکثر محدثین حضرت ثوبان ؓسے مروی حدیث کو بھی ضعیف قرار دیتے ہیں کیونکہ اس روایت میں موجود  دو راوی بقیہ بن ولید اورابوبکر بن ولید زبیدی بھی ضعیف  ہیں اس طرح ان  دونوں احادیث کے ضعف کے امکانات زیادہ ہیں۔
احادیث کی تعداد کے متعلق امام احمد ابن حنبل کے قول کے مطابق صحیح احادیث کی کل تعداد ۴۴۰۰ ہے جبکہ امام ابوداؤد کے نزدیک یہ تعداد صرف ۴۰۰۰ ہی ہے۔صحیح بخاری میں شامل کل احادیث کی تعداد۹۰۸۶ ہے جس میں مکررات بھی شامل ہیں۔ اگران مکررات کوہٹادیا جائے تو یہ تعداد صرف ۲۷۶۱ ہی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح صحیح مسلم میں شامل کل احادیث کی تعداد ۷۵۶۳ ہے جس میں مکررات بھی شامل ہیں۔ اور اگر مکررات کو نکال دیا جائے تو یہ تعداد ۳۰۳۳ ہی رہ جاتی ہے۔سنن ترمذی میں کل روایات کی تعداد ۳۰۵۴ ہے جبکہ سنن ابن ماجہ میں یہ تعداد ۴۳۴۱ ہے۔گویا صحاح ستہ کے ان چار بڑے مجموعوں میں شامل احادیث (بغیر مکررات کے) کی کل تعداد ۴۴۰۰ کے اندر ہی ہے۔ اس سے امام احمد بن حنبل کے قول کی تصدیق ہوتی ہے۔لہٰذا ہمیں یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہےکہ غزوہ ہند سے متعلق حدیث یا تو اموی دور کی ایجاد ہے یہ پھر دہشت پسند تنظیموں نے اپنے سیاسی عزائم کو حاصل کرنےکے لیے اس کو غلط طور پر پیش کیا ہے۔
غزوہ ہند کی حدیث کے بارے میں مستند علماء کی رائے
متنوع اسلامی مکاتب فکر کی نمائندگی کرنے والے علماء نے غزوہ ہندکی حدیث کی معتبریت کو مسترد کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ غزوہ ہند کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ مذہب اور تاریخی واقعات سے متعلق موضوعات پر بات کرتے وقت ایسی حکایات کا گہرا تجزیہ کرنا اور معتبر ذرائع پر انحصار کرنا ضروری ہے۔
اس پیشن گوئی کو خلفاء راشدین یااہل بیت  نے کبھی بھی اپنی تعلیمات کا کوئی جزو نہیں بنایا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان موجود ہے کہ میرے بعد 30 سال تک ہی خلافت یعنی اسلامی نظام حکومت رہے گااور اس کے بعد ملوکیت یعنی خاندانی نظام حکومت آجائے گا۔اس لئے بنی امیہ کا دورحکومت ہو یا بنی عباس کا، سلطنت عثمانیہ ہو یا مغلیہ دور حکومت، ان کے عمل کو اسلامی عمل یا ان کی حکومت کو اسلامی خلافت نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ سب کی سب ملوکیت  رہی ہیں جنہوں نے دنیاوی طریقہ سے حکومتیں حاصل کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کیا۔
بیسویں صدی کے معروف حدیث اسکالر علامہ  ناصرالدین البانی ؒکی علمی ذہانت نے انہیں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت کا باریک بینی سے جائزہ لینے پر آمادہ کیااورانہوں نے اس حدیث میں موجود ان موروثی خامیوں کی نشاندہی کی جنہوں نے اس حدیث کی ساکھ کو مجروح کیا مگرانہوں نے  حضرت ثوبانؓ  کی حدیث کوصحیح ٹھہرایا ہے۔ لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا   ہے کہ اس حدیث  کوصحیح ماننے کی صورت میں بھی  ہر پہلوسے یہ ماننا لازم آتا ہے کہ اس کی تعبیر وتشریح غلط کی گئی ہے( البانیؒ  کے نزدیک اس سے مراد پہلی صدی ہجری میں مسلم تاجروں کی  ہندوستان میں وہ پُرامن آمد ہے جو گجرات، سندھ یاکیرالہ وغیرہ کے علاقوں میں حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانے میں ہوئی) ۔جبکہ جنوب مشرقی  ایشیا میں ملیشیاء سے تعلق رکھنے والے ایک معروف اسلامک اسکالر شیخ عمران حسین اس نقطہ نظر کے حامل ہیں کہ غزوہ ہند سے متعلق ا حادیث سند سے خالی ہیں اور ان کو صحیح ماننے کی صورت میں پاکستان کو پہلے خود اپنے آپ پر حملہ کرنا پڑے گا جو غیر عقلی بات ہے۔
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والےمعتدل علماءغزوہ ہند کی حدیث کے قائل نہیں ہیں۔ان مخصوص احادیث کو شیعہ مکتب فکر کی کتب حدیث میں کوئی جگہ نہیں ملی ہے۔ علمائے ایران و عراق چاہے وہ خامنہ ای صاحب کے پیروکار ہوں یا سیستانی صاحب کے پیروکار
ہوں سب یک زبان ہو کراس حدیث کو رد کرتے ہیں۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والی کتب میں غزوہ ہند سے متعلق احادیث ندارد ہیں۔ اسی طرح  اہلحدیث علماء ان احادیث کو ضعیف اور ناقابل اعتبار سند کی حامل سمجھتے ہیں۔
الغرض علماء عرب  وعجم اور علماء مصروہند غزوہ ہند والی احادیث کی تصدیق نہیں کرتے۔بر صغیر ہند و پاک میں بھی معاصر سنی اور شیعہ  دونوں ہی علماء کی اکثریت غزوہ ہند کی حدیث کا انکار کرتی ہے ۔خود پاکستان کے معروف اسلامی اسکالرڈاکٹر جاوید احمد غامدی اور ہندوستان میں مولانا وحید الدین خان  جیسے اسلامی مفکربھی غزوہ ہندکے تصور کو خارج  کرتے رہے  ہیں۔  
ہندوستان میں تقربیاًچھ سو سالہ مسلم دور حکومت میں بھی مسلم حکمرانوں یا اس دور کے علماء نے  غزوہ ہند کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے۔پوری تاریخ اسلام میں، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، ابتدائی اسلامی علماء، یا صوفیاء کے دور سے کوئی بھی قابل اعتماد ماخذ غزوہ ہند کے تصور کے وجود کی توثیق نہیں کرتا ہے۔ ہندوستان میں علم حدیث کو متعارف کرانے والے  شیخ عبدالحق محدث دہلوی یا ان کے پیروکار علماء کی تصنیفات  میں بھی غزوہ ہند کی حدیث کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
یہاں  یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ ‘‘غزوہ’’ کے اصطلاحی معنیٰ وہ جنگ ہے جس میں خود نبی کریمﷺ نے اسلامی لشکر کی عملی طور پر قیادت فرمائی اور فتح سے ہمکنارفرمایا۔ تاہم یہ ضروری  نہیں کہ ہر غزوہ میں خون خرابہ ہی ہو۔مثال کے طور پر غزوہ خندق اور غزوہ تبوک دونوں ہی غزوات میں اسلامی لشکرکو بغیرکسی جنگ کے ہی فتح حاصل ہوئی۔  عربی زبان   میں ‘‘غزوہ’’ کے کئی لُغوی معنیٰ ہیں جن میں نیک تعلیمات اور تعمیری اصولوں کی نشر و اشاعت بھی شامل ہے۔ 
  غزوہ ہند بیانیہ  کوپاکستانی  انتہاپسند تنظیموں کی طرف سے اپنے سیاسی عزائم کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا  گیاہے۔
دراصل 1971 میں پاکستان کی فوجی شکست اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہاں کی انتہا پسند تنظیموں نے پاکستانی حکومت کی سیاسی سرپرستی میں ہندوستانی سرحد پر عدم استحکام پیدا کرنے اور کشمیر میں جہاد کےنام پر نوجوانوں کو اکسانے کے لیے 80 کی دہائی میں غزوہ ہند کے پروپیگنڈہ کو پورے زور وشور سے اٹھانا شروع کیا۔ 
غزوہ ہند کے گمراہ کن اور خطرناک پروپیگنڈہ نے ہندوستان میں آباد دوسری بڑی اکثریت یعنی ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کو ایک مخصوص طبقے کی نظر میں مشکوک بنا دیا ہے جو ہمارے ملک، ملت اور قومی و ملکی سلامتی کے لیے ایک خطرناک تصور ہے۔ انتہا پسند تنظیموں کا جہاد اور غزوہ ہند کے نام پر ہندوستان کے اندر فوج جمع کرنے کا تصور، جس کا دعویٰ ابھی تک ثابت نہیں ہوا، صورتحال کو مزید خراب کرتا ہے۔اس بے بنیاد پروپیگنڈے اور جھوٹ کے پھیلاؤ کی وجہ سے بہت سے مسلم نوجوانوں کو ملازمتوں سے محرومی اور کاروباری دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔یہ پروپیگنڈہ بڑی حد تک بے لگام ہوچکا ہے ۔
اس کے نتیجے میں، مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہےجس کی مثال ایک حالیہ واقعہ میں ٹرین کے سفر کے دوران تین مسلمانوں کو گولی مار کر ہلاک کر دینا ہے۔ غزوہ ہند کی وکالت کرنے والوں نےسب سے زیادہ نقصان خودہندوستانی مسلمانوں کو پہنچایا ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے  ہندوستان کی تعریف کی ہے اور یہاں سے ٹھنڈی ہوائیں آنے کا ذکر کیا ہے۔ اسلامی تعلیمات واضح طور پر جارحانہ جنگ یا  در پردہ جنگ اور خودکش بمباری جیسے اقدامات کو غیراسلامی اور غیر انسانی ٹھہراتی ہیں۔چنانچہ غزوہ ہند کا من گھڑت تصور اسلامی اقدار اور اخلاقیات کے منافی ہے ۔اس وقت مسلمانان ہند اپنے آپ کو محتاط انداز میں چلتے ہوئے پاتے ہیں جو صراط مستقیم،فراست ایمانی اور حب الوطنی کا تقاضہ ہے۔
لہٰذا تمام مکاتب فکر کے علماء، ائمہ، سجادگان، مسلم قائدین اور ہندوستان کی اکثریت سے تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی مفکرین کی یہ دینی ، ملّی  و قومی ذمہ داری ہے کہ وہ یک زبان ہوکر اس پروپیگنڈہ کو عملی، فکری، لسانی اور قلمی اعتبار ختم کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری قومی ہم آہنگی اور سلامتی  کو یقینی بنایا جا سکے۔