گلزراحمدگنائی جنھوں نے پوری دنیا میں کشمیری تہذیب کی نمائندگی کی

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 17-06-2021
گلزراحمدگنائی:کشمیری موسیقی کے نماندہ
گلزراحمدگنائی:کشمیری موسیقی کے نماندہ

 

 

احسان فاضلی / سری نگر

کوویڈ کی وجہ سے قریب ایک سال سے لاک ڈاؤن ہے ،اس دوران کشمیر کے سب سے مقبول لوک گلوکار گلزار احمد گنائی نے آن لائن موڈ میں اپنی موسیقی اور شائقین کے بیچ کے تعلقات کو برقرار رکھا ہے۔ گنائی تقریبا تین دہائی قبل سے ، کشمیر کی دو بڑی برادریوں ، مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین ایک اہم کڑی رہے ہیں۔ گلزار گنائی کی محفل موسیقی آرتی کے ساتھ شروع ہوتی ہے ، بھگوان گنیش کے آشیروادکے ساتھ شروع ہونے والی محفل موسیقی کشمیر کے باہربھی متعدد کشمیری ہندو شادیوں کی تقریبات کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔

گنائی نے آوازدی وائس کو بتایا کہ "کوڈ کی وبائی بیماری میں عوام کے لئے موسیقی بجانے کے مواقع ختم ہوگئے ہیں ،لہٰذا وہ شعوری طور پر بامقصد موسیقی دینے کا انتخاب کرتے ہیں۔ آن لائن چہرے پر ماسک ، سینیٹائزر استعمال کرنے اور معاشرتی دوری کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے بارے میں ان کے گانوں کو قبولیت حاصل ہوئی۔ اس عرصے کے دوران ، 60 سالہ گلزار احمد گنائی کے جونئے گیت سوشل میڈیاپرمقبول رہے ہیں، وہ ہیں 'دل گیمت ساک پریشن' (کوویڈ آگہی) ، عید اج ما چی بسن (عید تنہائی ) جیگرو پینس پانس واٹ (دیکھ بھال) ۔

صدرجمہوریہ ہندسے ایوارڈقبول کرتے ہوئے گنائی

کشمیری موسیقی صوفیانہ ، ہلکی موسیقی اور لوک موسیقی کی مقبول اصناف کے درمیان ، گلزار گنائی نے تین دہائیوں سے ایک لوک گلوکار کی حیثیت سے کشمیر کے ثقافتی منظر پر غلبہ حاصل کیا ہے۔ گلزار گنائی نے کشمیر گلوکار سوسائٹی (کشمیری گلوکاروں کی ایسوسی ایشن) کے صدر کی حیثیت سے حال ہی میں جموں و کشمیر اکیڈمی برائے آرٹس ، ثقافت اور زبانوں کے زیر اہتمام کوویڈ ویکسی نیشن کیمپ میں برتری حاصل کی۔ کشمیر میں ابھی بھی ویکیسن میں ہچکچاہٹ ہے لہذا مشہور لوگوں کے ویکیسن لگوانے کی مثالوں سے وادی میں ویکسینیشن مہم کو فائدہ پہنچا ہے۔

گلزار گنائی نے دوتخلیقات کے ساتھ بالی ووڈ میں بھی قدم رکھا ایوارڈ یافتہ فلم ’تہان‘ (2007) میں ، جو کہ کشمیرکی کہانی ہے ، اس میں ایک اور تجربہ کارکشمیری انوپم کھیرنےکام کیا تھا۔ معاشرتی بدامنی اور عسکریت پسندی کے سالوں کے دوران کشمیر کی ضلعی ثقافت کو زندہ رکھنے میں گنائی کا تعاون موسیقی سے بالاتر ہے۔ وہ عسکریت پسندی اور بڑے پیمانے پر اپنا وطن چھوڑکرجانے والے کشمیری ہندوؤں کے درمیان واحد کڑی بن گئے ہیں۔

گلف کی ایک محفل میں

انہوں نے آواز-دی وائس کو بتایا ، "وہ (کشمیری پنڈت) مجھے شادی کی تقریبات ، خاص طور پر مہندی کی رات کے محفل موسیقی کے انعقاد کے لئے بلا تے ہیں۔ وہ جموں اور اس کے باہر بھی کشمیری باشندوں کی ماقبل شادی تقریبات میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ انہوں نے دہلی ، ممبئی ، بنگلور ، گجرات اور یہاں تک کہ دبئی میں بھی شادیوں میں پرفارم کیا ہے۔ انہوں نے بابائے قوم کی 150 ویں برسی پر مہاتما گاندھی کے پسندیدہ بھجن کا کشمیر ورژن بھی پیش کیا ہے۔

مزید برآں ، کئی سالوں کے تشدد اور بدامنی کے دوران ، گلزار گنائی دنیا میں کشمیر کے ثقافتی سفیر رہے ہیں۔ انہوں نے دبئی ، مصر اور وسط ایشیائی ممالک ، ترکمانستان اور ازبکستان میں ثقافتی میلوں میں ہندوستان کی نمائندگی کی ہے۔ ان کی منڈلی نے مصر میں ہندوستان کی نمائندگی کی ، جہاں ایک بین الاقوامی ثقافتی تقریب کا انعقاد کیا گیاتھا ، جس میں 22 ممالک نے حصہ لیا۔ انھیں 2016 میں سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ اور متعدد بین الاقوامی ایوارڈز مل چکے ہیں۔

تاریخی شالیمارگارڈن میں پروگرام پیش کرتے ہوئے

گنائی کا تعلق شمالی کشمیر کے بارہمولہ کے میرگنڈ گاؤں سے ہے۔ ان کے والد کسان تھے ، اس کے باوجود لوک موسیقی سے اپنی محبت کے سبب ، وہ چاہتے تھے کہ بیٹا اسے سیکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گنائی کی والدہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا ایک "ڈاکٹر یا انجینئر" بن جائے۔ وہ اپنے اسکول میں بطور چائلڈ آرٹسٹ جانے جاتے تھے۔

ان کا اعزازسابق وزیر اعلی سید میر قاسم نے کیا ، تب بھی وہ مقامی چائلڈ آرٹسٹ تھے اور میر قاسم ثقافتی پروگرام دیکھنے آئے تھے۔ اس کے بعد وہ لوک گلوکاروں ، محمد عبد اللہ گنائی اور غلام محمد بھٹ کے میوزک گروپ میں شامل ہوئے اور آٹھ سالوں تک ان سے موسیقی سیکھی۔ 25 سال کی عمر میں ، انہوں نے ریڈیو کشمیر سری نگر ، (آل انڈیا ریڈیو سری نگر) میں شمولیت اختیار کی اور اسی کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے میوزک گروپ کا آغاز کیا۔