زینب : مشروم کی کاشت کرنے والی مثالی خاتون

Story by  ایم فریدی | Posted by  Shah Imran Hasan | Date 23-02-2022
زینب: مشروم کی کاشت کرنے والی مثالی خاتون
زینب: مشروم کی کاشت کرنے والی مثالی خاتون

 

 

محمد اکرم/ موتیہاری، بہار

اگرلڑکیوں کواگر صحیح رہنمائی ملے تو وہ دنیا کے ہر میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا سکتی ہیں۔ لڑکیوں کے کچھ کاموں سے ایسا لگتا ہے کہ اب لڑکیاں بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق حالات کا سامنا کرنا چاہتی ہیں۔

 ریاست بہار کے موتیہاری ضلع کی ایک مسلم خاتون زینب بیگم نہ صرف معاشرے کے لیےایک مثال بن گئی ہیں بلکہ اپنے پیروں پرکھڑی ہوکردیگرخواتین کو بھی روزگار فراہم کررہی ہیں۔

موتیہاری ضلع کے ڈھاکہ تھانہ کے تحت گاؤں برہروا فتح محمد کے رہائشی محمد انصارالحق کی 25 سالہ بیٹی زینب بیگم  شہرکے علاقے چھتونی میں مشروم کی کاشت کررہی ہیں۔

آواز دی وائس سے بات کرتے ہوئے نالندہ یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والی زینب بگیم نے بتایا کہ ایم اے کے بعد انہوں نے کنٹریکٹ پر سرکاری ملازمت کی، لیکن کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سےملازمت ختم ہوگئی۔

awazthevoice

زینب بیگم ریاستی وزیرپرمود کمار کے ساتھ

اس کےبعدانہوں نےمشروم کی کھیتی کرنے کا فیصلہ کیا۔ آواز دی وائس نے اس تعلق سے خصوصی گفتگو کی ہے، پیش ہے ان کی گفتگو کے متعلقہ حصہ:

سوال: آپ کو مشروم کی کاشت کا خیال کب آیا؟

زینب: ایک بار جب میں پٹنہ گئی تو میں نے وہاں لوگوں کو مشروم  کاشت کرتے ہوئے دیکھا، اس کے بعد مجھے بھی مشروم کی کاشت کرنے کا خیال آیا۔ابتداً گھرپرہی اس کی کاشت شروع کی، اس کے بعد چھتونی میں یہ کام شروع کیا۔

سوال: گھروں کے اندر خواتین یہ کام کیسے کر سکتی ہیں؟

زینب: جو خواتین گھروں میں کام کرتی ہیں وہ بھی گھروں کی چھتوں پر یا کم جگہوں پرمشروم کی کاشت باآسانی کر سکتی ہیں۔

سوال: کیا آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا؟

زینب: میں نے گھر میں یہ کام شروع کیا تو محلے دار اور رشتہ دار کہنے لگے کہ پڑھائی کے بعد یہ کام ہو جائے گا؟ مشروم کی کاشت کرتے ہوئے دیکھ کر لوگ میرا مذاق اڑانے لگے، میں ہر وقت پریشان رہتی تھی کہ کیا کروں؟ پھر میں نے چند ہزار روپے قرض  لے کر موتیہاری جا پہنچی اور اپنا کام شروع کردیا۔ ابتدائی دنوں میں مشکلات پیش آئی تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری۔ میں اپنا کام مستقل مزاجی سے کرتی رہی ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ بہت سی خواتین ان کے کام میں پیشہ ورانہ طور پر جڑی ہوئی ہیں۔

سوال: آپ نے جو مشروم کی کاشت کررہی ہیں، انہیں  کہاں بھیجا رہے ہیں؟

زینب: میرا اُگایا ہوا مشروم نیپال جا رہا ہے، اس کے علاوہ پٹنہ، لکھنؤ جیسے بڑے شہروں میں پہنچ رہا ہے، مارکیٹ میں اس کی مانگ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

سوال: کیا اس کام کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی مدد ملی ہے؟

زینب:ابھی تک ہمیں سرکاری مدد نہیں ملی، ہاں ایک پروگرام میں، ضلع مجسٹریٹ اور ریاستی وزیر پرمود کمار نے مدد کرنے کی بات کہی ہے۔

سوال: گھروں میں رہنے والی مسلمان خواتین کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

زینب: مسلم معاشرے میں خواتین آج بھی قدیم روایت سے وابستہ ہے، والدین آج بھی لڑکیوں کو گھر سے باہر تعلیم کے لیے بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم معاشرے کو اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ موجودہ حالات کے مطابق آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

awazthevoice

مشروم کی کاشت کرنے والی زینب

سوال: مشروم سے کتنی آمدنی ہوجاتی ہے اور آپ اس کا مستقبل کیسے دیکھتی ہیں؟

زینب: اس وقت میں ماہانہ 30 سے ​​40 ہزار روپے کماتی ہوں، جیسے جیسے کام آگے بڑھے گا آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس میں مستقبل روشن ہے۔ پہلے لوگوں کو مشروم کا علم نہیں تھا، لیکن جیسے جیسے معلومات ہورہی ہیں، اس کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ میرا خواب ہے کہ بازار میں میرا اپنا برانڈ ہو، میں گاؤں کی خواتین کو روزگار دوں۔