دہلی: ہنومان مندر کے خادم یوسف ،نفرت کے دور میں بھائی چارے کی مثال

Story by  غوث سیوانی | Posted by  [email protected] | Date 26-04-2022
دہلی: ہنومان مندر کے خادم یوسف ،نفرت کے دور میں بھائی چارے کی مثال
دہلی: ہنومان مندر کے خادم یوسف ،نفرت کے دور میں بھائی چارے کی مثال

 


نئی دہلی: لاؤڈ اسپیکر سے لے کر مذہبی جلوسوں تک میں جس طرح سے ہندو۔ مسلم کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اس ماحول میں بھی کچھ ایسے واقعات اور کردار سامنے آرہے ہیں جو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کو زندہ رکھنے میں اہم ثابت ہورہے ہیں۔لڑائی کہیں مندر اور مسجد کی ہوتی ہے لیکن پھر ایک ایسی خبر سامنے آتی ہے کہ ایک مزدور ایسا ہے جس نے مندر کی تعمیر کے لیے مزدوری نہیں لی بلکہ  اس کی دیکھ ریکھ بھی کرتا ہے۔

یہ ہیں دہلی کی تیس ہزاری کورٹ میں ہنومان مندر کے خادم یوسف۔ جو بھائی چارے کی مثال بن کر ابھرے ہیں۔ یوسف، مندر کی تعمیر کے ٹھیکیدار ہیں اور انھوں نے مندر کی تعمیر کے لیے اپنی اجرت بھی نہیں لی تھی۔ یوسف نے مندر کا ایک ایک کام، پینٹنگ، ویلڈنگ وغیرہ کا کام کیا۔

این ڈی ٹی وی نے اس سلسلے میں ایک خصوصی رپورٹ کی ۔جس میں تیس ہزاری کورٹ کے مندر کے اس مسلمان خادم کو متعارف کرایا گیا ۔

آٹھویں پاس یوسف پچھلے 10 سالوں سے ہنومان مندر کے خادم یا سیوادارہیں۔ یوسف بہار کے سپول کے رہنے والے ہیں۔ یوسف نے بتایا کہ وہ مندر کے ٹھیکیدار ہیں۔ انہوں نے مندر کی تعمیر میں مدد کی ہے اور مزدوری کا ایک پیسہ بھی نہیں لیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ مندر کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور اس کی صفائی کا بھی انتظام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے مسلمان ہوتے ہوئے مندر کی دیکھ بھال پر اعتراض بھی کیا تھا۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یوسف اس مندر کی چابی رکھتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مندر اور مسجد میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ ہی ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق ہے۔ لوگ صرف مسائل بناتے ہیں۔ ہندو مسلم کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، نقصان ہی ہے۔

عدالت کے وکیل کا کہنا ہے کہ جب ہنومان جی کو یوسف پر کوئی اعتراض نہیں تو لوگوں کو کیوں ہے؟

تیس ہزاری کورٹ کے ایڈووکیٹ یشپال سنگھ کا کہنا ہے کہ یہاں ایک مسلمان بھائی بھی ہے، ہم نے کبھی الگ محسوس نہیں کیا، خاص کر یوسف بھائی کے بارے میں بات کریں تو وہ ٹھیکیدار ہیں۔

یوسف نے مندر کی مرمت کی۔ یوسف نے مندر کی تعمیر میں اجرت نہیں لی تھی، اس نے مندر کی ایک ایک چیز کا انتخاب کیا، پینٹنگ، ویلڈنگ کا سارا کام یوسف ہی کرتے تھے۔

ہنومان جی کی مورتی کی تنصیب بھی یوسف کے ہاتھ سے ہوئی تھی۔

جب ہنومان جی کو یوسف بھائی پر کوئی اعتراض نہیں تو پھر ہمیں کیوں ہو سکتا ہے؟ مذہب کے نام پر نفرت کی دکانیں سجانے والوں کو تیس ہزاری کے ہنومان مندر سے سبق سیکھنا چاہیے۔